کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

Published On February 25, 2025
دورانِ عدت نکاح پر غامدی صاحب کی غلط فہمیاں

دورانِ عدت نکاح پر غامدی صاحب کی غلط فہمیاں

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے قرآن مجید کے متعلق بھی مختصر سی بحث کی ہے ۔جس پر بہت کچھ کہنے کے لیے موجود ہے  مگر ہم اس کی تفصیل کرنے سے بقصدِ اختصار اعراض کرتے ہیں ۔ جناب نے قرآن کے اوصاف میں ایک وصف ،، فرقان ،،  ذکر کیاہے ۔اور دوسرا وصف ،، میزان ،، ذکرکیاہے ۔پھراس...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 6)

مولانا واصل واسطی ہم اس وقت ،، حدیث وسنت ،، کے موضوع سے ایک اور بحث کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ کیونکہ جناب غامدی نے ،، حدیث اور سنت ،، نے مبحث کو مختلف مقامات میں پھیلا رکھاہے۔درمیان میں دیگر مباحث چھیڑ دیئے ہیں ، ہم بھی انہیں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جاوید غامدی نے...

غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر

غامدی اور خضریاسین: تفسیر وتفہیم کے معاملے پر میرا نقطہ نظر

گل رحمان ہمدرد غامدی صاحب نے مقامات میں دبستانِ شبلی کے بارے بتایا ہے کہ اس کے دو اساسی اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ دین کی حقیقت جاننے کےلیۓ ہمیں پیچھے کی طرف جانا ہوگا ”یہاں تک کہ اُس دور میں پہنچ جاٸیں جب قرآن اتر رہا تھا اور جب خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

مولانا واصل واسطی ہم نے اوپر جناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ ،، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے (میزان ص15) میں نے کہیں جناب غامدی کا اپنا قول غالبا،، اشراق ،، کے کسی شمارے میں...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 4)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی صاحب آگے اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ  " دین لاریب انھی دوصورتوں میں ہے ۔ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتاہے ( میزان ص15)" ہم عرض کرتے ہیں کہ جناب غامدی نے دین کو بہت مختصر کر دیا ہے  کیونکہ جن 25 سنن کو انھوں...

ڈاکٹر محمد زاہد مغل

محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟
اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب دینا دینی لحاظ سے ضروری نہیں، لہذا میں جواب نہیں دوں گا (ساتھ ہی انہوں نے یہ مثال بھی بیان فرمائی کہ مثلا حضرت علی خلیفہ تھے یا نہیں اس کا جواب دینا دینی ضرورت نہیں، گویا یہ دونوں ایک قسم کی اہمیت کے حامل مسائل ہیں)۔ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے گویا غامدی صاحب اس مسئلے کو کوئی فلسفیانہ موشگافی وغیرہ سمجھتے ہیں۔ دینیات کے مجھ سے طالب علموں کے لئے دین کے ایک بنیادی ترین مسئلے سے متعلق ان کا یہ جواب گریز اور ادھورے پن کے سوا کچھ نہیں۔ اس جواب میں کئی سطح پر مسائل ہیں، مثلاً:
1) امت مسلمہ کے علما کا یہ موقف ہے کہ عقل و نقل میں تضاد نہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بنیادی ترین مسئلے پر عقل و نقل میں ہم آہنگی کی کیفیت کیا ہے؟ چنانچہ وحدت الوجود پر نقد کا شوق پورا کردینے سے اس سوال کا کوئی جواب فراہم نہیں ہوتا یہاں تک کہ متبادل بھی فراہم کیا جائے۔
2) اس مسئلے کا براہ راست تعلق قرآن مجید میں مذکور لفظ “خلق” اور “خالق” کے معنی سے ہے، یعنی خدا کے خالق ہونے کا کیا مطلب ہے؟ مسلم فلاسفہ و متکلمین اس بارے میں مختلف الخیال ہیں۔ تو کیا خلق کا معنی متعین کئے بغیر اسلامی عقیدے کا تقاضا پورا ہوسکتا ہے؟ کیا قرآن کی ان سینکڑوں آیات کا مفہوم مقرر ہوسکتا ہے جن میں یہ اور اس کے قریب المعنی الفاظ آئے ہیں (مثلا “جعل”)؟ دین میں یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اس میں اختلاف کی بنا پر امام غزالی نے فلاسفہ کی تکفیر تک کی جبکہ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اس کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں!
3) پھر ربط الحادث بالقدیم اس قدر بنیادی ہے کہ اس کی درست تفہیم پر ہی توحید و شرک کا مدار ہے۔ خدا اور مخلوق میں تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ ان دونوں میں وجہ تمییز کیا ہے؟ کیا عالم کو قدیم کہنا شرک کو لازم ہے؟ صفات باری اور ذات میں کیا نسبت ہے؟ کیا خدا اور کائنات میں اتحاد کی نسبت ہے؟ کیا حلول کی نسبت ہے؟ کیا عینیت کی نسبت ہے؟ کیا غیریت کی نسبت ہے، اگر ہاں تو یہ غیریت کس نوعیت کی ہے (مثلاً کیا یہ زمانی و مکانی ہے)؟ یہ ہیں وہ بنیادی سوالات جن کا عنوان “ربط الحادث بالقدیم” ہے، کیا ان بنیادی ترین سوالات کا جواب دئیے بغیر توحید و شرک کا مفہوم مقرر ہوسکتا ہے؟ کیا ان کا جواب دئیے بغیر ان سب آیات کا ہم آہنگ مطلب مقرر ہوسکتا ہے جو اس ضمن میں قرآن کے اندر مذکور ہیں؟ الغرض ربط الحادث بالقدیم کا مسئلہ محض فلسفیانہ بحث نہیں ہے بلکہ مذہبی عقیدے کا وہ لازمی و بنیادی ستون ہے جس پر تمام عقائد کی عمارت قائم ہے، اس سے غفلت کا نتیجہ شرک ہو سکتا ہے۔
چنانچہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا جواب علمی طور پر غیر اطمینان بخش ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی عقائد کے مباحث سے نا آشنائی کا مظہر بھی ہوگا۔ دین کے ہر سنجیدہ طالب علم پر لازم ہے کہ وہ اس کا جواب دے اور اسی وجہ سے اس امت کے سب بڑے ذہنوں نے اس سوال کو بحث کا بنیادی نکتہ بنایا ہے اور عقیدے و اصول الدین کی سب کتب میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

No Results Found

The page you requested could not be found. Try refining your search, or use the navigation above to locate the post.