خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف

Published On April 18, 2024
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ  اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ قرآن وحدیث کے بعد اگلا مقدمہ یہ قائم کرتے ہیں کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی  اہداف محدود اور متعین تھے اور وہ جہاد اور فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے کی بجائے محدود رکھنے کے خواہش...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احادیث اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو کوئی بھی ایک حدیث ایسی پیش نہیں کر سکے جو اس بات کی تائید کرے کہ جہاد کے اہداف محدود ہیں اور اس مشن کے پیش نظر صرف روم اور فارس کی سلطنتیں ہیں ۔ تاہم ایک حدیث ایسی...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احکامات اسلام اور خطابات قرآنیہ کی عمومیت:۔ غامدی حضرات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقدامی قتال یا اسلام ، جزیہ اور قتل کا مطالبہ سامنے رکھنا عام خلاقی دائرے سے باہر ہے اس لیے وہ آیات واحادیث جن میں اس قسم کے احکامات مذکور ہیں ان کے...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ منصب رسالت اور اس پر متفرع احکام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ: ۔ ۔1 ۔  منصب رسالت اور نبوت میں یہ تفریق کوئی قطعی بات نہیں ، اس سے اختلاف کی گنجائش ہے اور ہوا بھی ہے اور یہ رائے زیادہ وزنی بھی نہیں ۔ اس کی بنیاد پر قرآنی آیات و...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ   قرآن اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ قرآن میں جہاد اقدامی اور اس کے عموم اور تا ئید کے سلسلے میں واضح احکامات موجود ہیں جن سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ آسانی کے ساتھ انہیں نظر انداز کیا جا...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط اول )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط اول )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ اسلام کا جنگی نظام " جہاد " عرصہ دراز سے مخالفین اسلام کے طعن و تشنیع اور اعتراضات کا ہدف رہا ہے۔ علماء امت ہر زمانے میں اس کے جوابات بھی دیتے رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں جب سے برقی ایجادات عام ہو ئیں ، پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ پوری...

ابو عمار زاہد الراشدی

محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک تازہ مضمون میں انکشاف فرمایا ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ بعد میں مسلمانوں نے اپنے نظام حکمرانی کے لیے یہ اصطلاح اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے ساتھ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے بنانے سے دینی اصطلاحات نہیں بنتیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے بنانے سے بنتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ اگر کوئی دینی اصطلاح مذکورہ بالا بزرگوں سے نہیں بنتیں تو خود غامدی صاحب کی ان اصطلاحات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے جو انہوں نے قرآن و سنت اور فقہی اصولوں کے حوالہ سے از خود طے کر لی ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ ایک عرصہ سے اسلام کے نظریاتی، علمی اور فقہی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن یا اکھاڑ پچھاڑ میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔

ہم اس بحث میں پڑے بغیر غامدی صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ حضور والا ! مسلمان حکمران کے لیے ’’خلیفہ‘‘ کی اصطلاح اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کی ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی جا بجا ملتا ہے۔ سورہ ص کی آیت ۲۶ کا غامدی صاحب نے اس مضمون میں خود حوالہ دیا ہے اور اس کا ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر دہلویؒ کے قلم سے یہ نقل کیا ہے:

’’اے داؤد! ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں، سو تو حکومت کر لوگوں میں انصاف سے۔‘‘

اگر وہ صرف ترجمہ دیکھنے کی بجائے قرآن کریم کے اصل متن کو بھی دیکھ لیتے تو انہیں انا جعلناک خلیفۃ ارشاد باری تعالیٰ میں نظر آجاتا جس کا ترجمہ ’’نائب‘‘ کیا گیا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ ترجمہ کا لفظ تو محترم غامدی صاحب کے ہاں قابل استدلال ہے مگر قرآن کریم میں ’’خلیفہ‘‘ کے صریح لفظ کو انہوں نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے اس لیے لوگوں میں انصاف کے ساتھ حکومت کرنا۔ یہاں حکومت کرنے والے کو خلیفہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے اور خلیفہ کی یہ حیثیت متعین فرما دی ہے کہ اس کا کام حکومت کرنا ہے۔ غامدی صاحب محترم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا حوالہ بھی دیا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کرتے تھے لیکن میرے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے ان کی جگہ اب ’’خلفاء‘‘ لیں گے۔ حدیث میں صراحتاً خلفاء کا لفظ ہے جس کا ترجمہ حکمران کر کے غامدی صاحب نے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مگر خلیفہ کا ترجمہ حکمران کر کے خود انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ مسلمان حکمران جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق بھی خلیفہ ہی کہلاتا ہے۔

اس حدیث کی سند میں کچھ کلام کی بات بھی انہوں نے فرمائی ہے حالانکہ یہ حدیث بخاری شریف اور مسلم شریف دونوں میں موجود ہے۔ اور غامدی صاحب کو حدیث و سنت کے بارے میں یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بخاری اور مسلم کی مشترکہ روایت کو محدثین کے ہاں ’’متفق علیہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی سند پر کسی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں غامدی صاحب کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ ہی کہا جاتا تھا اور ان کا سرکاری منصب ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کا عنوان رکھتا تھا۔ قاضی ابو یعلیٰؒ نے ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک بار کسی شخص نے حضرت صدیق اکبرؓ کو ’’یا خلیفۃ اللہ‘‘ کہا تو انہوں نے فورًا یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم، احادیث نبویہؐ، اور حضرت صدیق اکبرؓ کے اس ارشاد کی بنیاد پر ہی فقہاء کرامؒ نے خلیفہ کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ وہ مسلم حکمران خلیفہ کہلاتا ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی (ریاستی و حکومتی) امور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے سر انجام دیتا ہے۔

خلافت کے مفہوم اور اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں کم و بیش تمام فقہاء کرام نے بحث کی ہے۔ اور فقہاء کرام جس مسئلہ پر بحث کرتے ہیں وہ ان کا خود ساختہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کے شرعی اصولوں پر ہوتی ہے۔ مگر تعجب اس بات پر ہے کہ غامدی صاحب جس استدلال و استنباط اور تعبیر و تشریح کا حق امت کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کو کراس کرتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنے لیے طلب کر رہے ہیں، وہ اس کا حق غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے لیے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، حتیٰ کہ جمہور فقہاء امت کو بھی یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

خلافت کے بارے میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی مستقل تصنیف ’’ازالۃ الخفاء‘‘ میں تفصیلی بحث کی ہے اور اس کا اردو ترجمہ دلچسپی رکھنے والوں کے لیے دستیاب ہے۔ ہم اس کا صرف ایک پہلو اپنے موضوع کے حوالہ سے یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ خلافت کا قیام امت مسلمہ کے اجتماعی دینی فرائض میں سے ہے۔ اگر امت میں خلافت کا کوئی نظام سرے سے موجود نہ ہو تو پوری امت ایک شرعی فریضہ کی تارک اور گنہ گار قرار پاتی ہے۔ خلافت کے شرعاً فرض ہونے پر حضرت شاہ صاحبؒ نے جو دلائل دیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے احکام پر عمل درآمد حکومتی نظم پر موقوف ہے۔ جیسا کہ جہاد کے حوالہ سے خود غامدی صاحب کا موقف بھی یہ ہے کہ وہ حکومت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ تو قرآن کریم کے بہت سے احکام کا حکومت کے قیام پر موقوف ہونا اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ایک ایسی حکومت موجود ہو جو قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہو۔ جبکہ خلافت کے واجب ہونے پر شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دوسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت کا سب سے پہلا اجماع اسی خلافت کے قیام پر ہوا تھا۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین پر بھی اسے مقدم کیا گیا تھا۔

جہاں تک خلافت کے احیا و قیام کے حوالہ سے مختلف تحریکات کے طریق کار کی بات ہے اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور خود ہم نے بھی متعدد بار اس اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ لیکن آج کی تحریکات کے طرز عمل اور طریق کار سے اختلاف کی وجہ سے خلافت کی شرعی حیثیت اور اس کی ضرورت و اہمیت ہی سے انکار کر دینا قرآن و سنت اور امت مسلمہ کی مسلمہ علمی روایت کے مطابق نہیں ہے، اور نہ ہی امت مسلمہ کی موجودہ معروضی صورت حال اور اس کے حال و مستقبل کی ضروریات سے کوئی مناسبت رکھتا ہے۔

 

https://zahidrashdi.org/455

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…