خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف

Published On April 18, 2024
ڈاڑھی : غامدی موقف پر نقد

ڈاڑھی : غامدی موقف پر نقد

ناقد :شیخ عثمان ابن فاروق تلخیص : زید حسن ​   غامدی صاحب کا دعوی ہے کہ وہ منکرِ حدیث نہیں ہیں ۔ ان سے ڈاڑھی کی بابت سوال کیا گیا تو فرمایا: یہ ایک اچھی  چیز ہے اور نبی علیہ السلام نے ڈاڑھی رکھی ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس امر کو نبی ﷺ نے امت میں بحیثیت...

مورگیج پر گھر لینا : غامدی موقف پر نقد

مورگیج پر گھر لینا : غامدی موقف پر نقد

ناقد :شیخ عثمان صفدر تلخیص : زید حسن    مورگیج ایک صورت ہے جس میں  گھر کو خریدا جاتا ہے اور اسکی بابت علماء کا موقف یہی ہے کہ یہ حرام ہے لیکن جاوید غامدی صاحب نے اسکی بابت موقف اختیار کیا ہے کہ  نہ صرف یہ کہ یہ سود نہیں بلکہ یہ احسان ہے ۔ انکا موقف ہے کہ "جب پیسہ...

بہتر حوریں : انکارِ حدیث سے انکارِ قرآن تک

بہتر حوریں : انکارِ حدیث سے انکارِ قرآن تک

ناقد :شیخ توصیف الرحمن تلخیص : زید حسن    غامدی صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ جنت میں حوریں ہوں گی ؟ جواب میں فرمایا : کہ یہ دنیا ہی کی عورتیں ہوں گی ۔ سائل نے پوچھا کہ انکی تو آنکھیں بڑی ہوں گی ؟ تو فرمایا اللہ آپکی بیویوں ہی کی آنکھیں بڑی کر دے گا ۔ اصل میں جاوید...

نزولِ مسیح کی بابت غامدی اور قادیانیوں کے نظریات

نزولِ مسیح کی بابت غامدی اور قادیانیوں کے نظریات

ناقد :مفتی عامر سجاد صاحب تلخیص : وقار احمد جاوید احمد غامدی ماڈرن لوگوں کے پسندیدہ اسکالر ہیں اور بہت ساری چیزوں کا انکار کرنے والے ہیں ۔ مثلاً معجزات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، ظہور امام مہدی اور نزول عیسی علیہ السلام ۔ حالانکہ 1400 سال سے امت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ...

تہذیب و عمرانیات اور غامدی صاحب کی فکر

تہذیب و عمرانیات اور غامدی صاحب کی فکر

زبیر حفیظ غامدی صاحب کو پڑھتے ہوئے یا سنتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم چودہ سو سال قبل کے حجاز کے ریگستانوں میں رہنے والے مسلمان ہیں، جنہوں نے نہ تو فتحِ ایران دیکھی ہے، نہ اموی دور کے اسلام پر اثرات سے واقف ہیں، نہ تو عباسیوں کا عجمیت زدہ اسلام ہمارے مشاہدے میں آیا ہے،...

غامدی صاحب کے نظریات

غامدی صاحب کے نظریات

ناقد :سید سعد قادری صاحب تلخیص : زید حسن   ایک صاحب نے استفسار کیا کہ غامدی صاحب کو سننا کیسا ہے ؟ میرے خیال سے غامدی صاحب میں لوگوں کو کشش انکے اندازِ بیان اور  پہلے سے چلتے آنے والے مذہبی تصورات کی مخالفت کی وجہ سے محسوس ہوتی ہے  کیونکہ طبائع نئی چیزوں کی طرف...

ابو عمار زاہد الراشدی

محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک تازہ مضمون میں انکشاف فرمایا ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ بعد میں مسلمانوں نے اپنے نظام حکمرانی کے لیے یہ اصطلاح اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے ساتھ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے بنانے سے دینی اصطلاحات نہیں بنتیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے بنانے سے بنتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ اگر کوئی دینی اصطلاح مذکورہ بالا بزرگوں سے نہیں بنتیں تو خود غامدی صاحب کی ان اصطلاحات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے جو انہوں نے قرآن و سنت اور فقہی اصولوں کے حوالہ سے از خود طے کر لی ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ ایک عرصہ سے اسلام کے نظریاتی، علمی اور فقہی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن یا اکھاڑ پچھاڑ میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔

ہم اس بحث میں پڑے بغیر غامدی صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ حضور والا ! مسلمان حکمران کے لیے ’’خلیفہ‘‘ کی اصطلاح اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کی ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی جا بجا ملتا ہے۔ سورہ ص کی آیت ۲۶ کا غامدی صاحب نے اس مضمون میں خود حوالہ دیا ہے اور اس کا ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر دہلویؒ کے قلم سے یہ نقل کیا ہے:

’’اے داؤد! ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں، سو تو حکومت کر لوگوں میں انصاف سے۔‘‘

اگر وہ صرف ترجمہ دیکھنے کی بجائے قرآن کریم کے اصل متن کو بھی دیکھ لیتے تو انہیں انا جعلناک خلیفۃ ارشاد باری تعالیٰ میں نظر آجاتا جس کا ترجمہ ’’نائب‘‘ کیا گیا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ ترجمہ کا لفظ تو محترم غامدی صاحب کے ہاں قابل استدلال ہے مگر قرآن کریم میں ’’خلیفہ‘‘ کے صریح لفظ کو انہوں نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے اس لیے لوگوں میں انصاف کے ساتھ حکومت کرنا۔ یہاں حکومت کرنے والے کو خلیفہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے اور خلیفہ کی یہ حیثیت متعین فرما دی ہے کہ اس کا کام حکومت کرنا ہے۔ غامدی صاحب محترم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا حوالہ بھی دیا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کرتے تھے لیکن میرے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے ان کی جگہ اب ’’خلفاء‘‘ لیں گے۔ حدیث میں صراحتاً خلفاء کا لفظ ہے جس کا ترجمہ حکمران کر کے غامدی صاحب نے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مگر خلیفہ کا ترجمہ حکمران کر کے خود انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ مسلمان حکمران جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق بھی خلیفہ ہی کہلاتا ہے۔

اس حدیث کی سند میں کچھ کلام کی بات بھی انہوں نے فرمائی ہے حالانکہ یہ حدیث بخاری شریف اور مسلم شریف دونوں میں موجود ہے۔ اور غامدی صاحب کو حدیث و سنت کے بارے میں یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بخاری اور مسلم کی مشترکہ روایت کو محدثین کے ہاں ’’متفق علیہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی سند پر کسی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں غامدی صاحب کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ ہی کہا جاتا تھا اور ان کا سرکاری منصب ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کا عنوان رکھتا تھا۔ قاضی ابو یعلیٰؒ نے ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک بار کسی شخص نے حضرت صدیق اکبرؓ کو ’’یا خلیفۃ اللہ‘‘ کہا تو انہوں نے فورًا یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم، احادیث نبویہؐ، اور حضرت صدیق اکبرؓ کے اس ارشاد کی بنیاد پر ہی فقہاء کرامؒ نے خلیفہ کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ وہ مسلم حکمران خلیفہ کہلاتا ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی (ریاستی و حکومتی) امور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے سر انجام دیتا ہے۔

خلافت کے مفہوم اور اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں کم و بیش تمام فقہاء کرام نے بحث کی ہے۔ اور فقہاء کرام جس مسئلہ پر بحث کرتے ہیں وہ ان کا خود ساختہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کے شرعی اصولوں پر ہوتی ہے۔ مگر تعجب اس بات پر ہے کہ غامدی صاحب جس استدلال و استنباط اور تعبیر و تشریح کا حق امت کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کو کراس کرتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنے لیے طلب کر رہے ہیں، وہ اس کا حق غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے لیے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، حتیٰ کہ جمہور فقہاء امت کو بھی یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

خلافت کے بارے میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی مستقل تصنیف ’’ازالۃ الخفاء‘‘ میں تفصیلی بحث کی ہے اور اس کا اردو ترجمہ دلچسپی رکھنے والوں کے لیے دستیاب ہے۔ ہم اس کا صرف ایک پہلو اپنے موضوع کے حوالہ سے یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ خلافت کا قیام امت مسلمہ کے اجتماعی دینی فرائض میں سے ہے۔ اگر امت میں خلافت کا کوئی نظام سرے سے موجود نہ ہو تو پوری امت ایک شرعی فریضہ کی تارک اور گنہ گار قرار پاتی ہے۔ خلافت کے شرعاً فرض ہونے پر حضرت شاہ صاحبؒ نے جو دلائل دیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے احکام پر عمل درآمد حکومتی نظم پر موقوف ہے۔ جیسا کہ جہاد کے حوالہ سے خود غامدی صاحب کا موقف بھی یہ ہے کہ وہ حکومت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ تو قرآن کریم کے بہت سے احکام کا حکومت کے قیام پر موقوف ہونا اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ایک ایسی حکومت موجود ہو جو قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہو۔ جبکہ خلافت کے واجب ہونے پر شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دوسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت کا سب سے پہلا اجماع اسی خلافت کے قیام پر ہوا تھا۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین پر بھی اسے مقدم کیا گیا تھا۔

جہاں تک خلافت کے احیا و قیام کے حوالہ سے مختلف تحریکات کے طریق کار کی بات ہے اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور خود ہم نے بھی متعدد بار اس اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ لیکن آج کی تحریکات کے طرز عمل اور طریق کار سے اختلاف کی وجہ سے خلافت کی شرعی حیثیت اور اس کی ضرورت و اہمیت ہی سے انکار کر دینا قرآن و سنت اور امت مسلمہ کی مسلمہ علمی روایت کے مطابق نہیں ہے، اور نہ ہی امت مسلمہ کی موجودہ معروضی صورت حال اور اس کے حال و مستقبل کی ضروریات سے کوئی مناسبت رکھتا ہے۔

 

https://zahidrashdi.org/455

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…