غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

Published On April 8, 2025
فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق جہلِ مرکب کا شاہ کار

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   غامدی صاحب کا حلقہ اپنے متعلق ہمارے حسنِ ظن کو مسلسل ختم کرنے کے درپے ہے اور اس ضمن میں تازہ ترین کوشش ان کی ترجمانی پر فائز صاحب نے کی ہے جنھوں نے نہ صرف یہ کہ فقہ اور اصولِ فقہ کے متعلق اپنے جہلِ مرکب کا ، بلکہ فقہاے کرام کے متعلق اپنے...

روم و فارس کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جنگیں :اتمامِ حجت ،دفاع یا کچھ اور ؟

روم و فارس کے ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جنگیں :اتمامِ حجت ،دفاع یا کچھ اور ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   جناب غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کےنظریۂ "اتمامِ حجت" ،جسے یہ مکتبِ فکر "قانون" کے طور پر پیش کرتا ہے ،کافی تفصیلی بحث ہم کرچکے ہیں ۔اس بحث کا ایک موضوع یہ بھی تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے روم و فارس کے خلاف جو جنگیں لڑیں ، کیا وہ...

دہشت گردی کیا ہے؟

دہشت گردی کیا ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   معاصر دنیا میں دہشت گردی (Terrorism) کے لفظ کا استعمال انتہائی کثرت سے ہوتاہے لیکن اس کے مفہوم پر بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ ریاستی نظم کے خلاف یا اس سے آزاد ہو کر کی جانے والی ہر مسلح کوشش کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں اور اس بنا پر...

قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

قرار دادِ مقاصد اور حسن الیاس

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد فرماتے ہیں:۔خود کو احمدی کہلوانے والوں کے ماوراے عدالت قتل کا سبب 1984ء کا امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ہے؛ جس کا سبب 1974ء کی آئینی ترمیم ہے جس نے خود کو احمدی کہلوانے والوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا؛ جس سبب قراردادِ مقاصد ہے جس...

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ علم کلام ناگزیر علم نہیں اس لئے کہ قرآن تک پہنچنے کے جس استدلال کی متکلمین بات کرتے ہیں وہ قرآن سے ماخوذ نہیں نیز قرآن نے اس بارے میں خود ہی طریقہ بتا دیا ہے۔ مزید یہ کہ علم کلام کا حاصل دلیل حدوث ہے جس کا پہلا مقدمہ (عالم حادث...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس باب سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو غامدی صاحب نے ’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید میں لکھا۔ یہاں بھی انھیں بقول ان کے شاگردوں کے، کم از کم یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ڈاکٹر...

ڈاکٹر زاہد مغل

محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے کے لئے یہ تاثر قائم کرواتے ہیں کہ توحید سے متعلق ان کے افکار قرآن میں مذکور نہیں۔ اپنے مضمون “اسلام اور تصوف” میں آپ الہ کا یہ مطلب لکھتے ہیں:
” ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا جاتا ہے جس کے لیے کسی نہ کسی درجے میں اسباب و علل سے ماورا امر و تصرف ثابت کیا جائے۔”
اس کے بعد انہوں نے جو آیات نقل کیں وہ یہ ہیں:
۔1) ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ، عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ، ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ. ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ، اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ، سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ. ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیئُ الْمُصَوِّرُ، لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی، یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.(۹۵:۲۲-۴۲)
۔2) قُلْ: ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ، اَللّٰہُ الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ
۔3) اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ، وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ، سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ
کیا ان میں سے کسی بھی آیت میں ایسا کوئی لفظ ہے جس کا ترجمہ “اسباب و علل سے ماورا امر و تصرف” ہوسکے؟ یہی آیات نہیں بلکہ پورے قرآن میں ہمارے مطالعے کی حد تک ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس میں الہ کی یہ تعریف درج ہو (یاد رہے کہ اس معنی کو عربی لغت کی رو سے الہ کا گویا واحد معنی ہونے کا تاثر دینا بھی تحکم ہے)۔ الہ کی ان کی بیان کردہ یہ تعریف بذات خود ایک فلسفیانہ تعریف ہے اور جناب غامدی صاحب اس فلسفیانہ تعریف کو بنیاد بنا کر صوفیا سے سوال فرماتے ہیں کہ بتاؤ توحید کے تمہارے بیان کردہ مراتب قرآن میں کہاں مذکور ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ پہلے آپ وہ آیت لے آئیں جس میں الہ کی یہ تعریف درج ہے اور جس سے ثابت ہوسکے کہ شریعت نے الہ کے اس ہی مفہوم کا اعتبار کیا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجئے کہ یہی وہ چند آیات ہیں جنہیں بنیاد بنا کر انہوں نے دعوی فرمایا تھا کہ صوفیا کی بیان کردہ توحید خارج از قرآن ہے۔ باالفاظ دیگر یہ آیات ان کے اس استدلال کی کل کائنات ہیں جس سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جناب غامدی صاحب نے قرآن سے یہ ثابت کیا کہ صوفیا کی توحید قرآن کے خلاف ہے!۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…