غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

Published On April 8, 2025
جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...

ڈاکٹر زاہد مغل

محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے کے لئے یہ تاثر قائم کرواتے ہیں کہ توحید سے متعلق ان کے افکار قرآن میں مذکور نہیں۔ اپنے مضمون “اسلام اور تصوف” میں آپ الہ کا یہ مطلب لکھتے ہیں:
” ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا جاتا ہے جس کے لیے کسی نہ کسی درجے میں اسباب و علل سے ماورا امر و تصرف ثابت کیا جائے۔”
اس کے بعد انہوں نے جو آیات نقل کیں وہ یہ ہیں:
۔1) ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ، عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ، ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ. ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ، اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ، سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ. ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیئُ الْمُصَوِّرُ، لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی، یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.(۹۵:۲۲-۴۲)
۔2) قُلْ: ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ، اَللّٰہُ الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ
۔3) اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ، وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ، سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ
کیا ان میں سے کسی بھی آیت میں ایسا کوئی لفظ ہے جس کا ترجمہ “اسباب و علل سے ماورا امر و تصرف” ہوسکے؟ یہی آیات نہیں بلکہ پورے قرآن میں ہمارے مطالعے کی حد تک ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس میں الہ کی یہ تعریف درج ہو (یاد رہے کہ اس معنی کو عربی لغت کی رو سے الہ کا گویا واحد معنی ہونے کا تاثر دینا بھی تحکم ہے)۔ الہ کی ان کی بیان کردہ یہ تعریف بذات خود ایک فلسفیانہ تعریف ہے اور جناب غامدی صاحب اس فلسفیانہ تعریف کو بنیاد بنا کر صوفیا سے سوال فرماتے ہیں کہ بتاؤ توحید کے تمہارے بیان کردہ مراتب قرآن میں کہاں مذکور ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ پہلے آپ وہ آیت لے آئیں جس میں الہ کی یہ تعریف درج ہے اور جس سے ثابت ہوسکے کہ شریعت نے الہ کے اس ہی مفہوم کا اعتبار کیا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجئے کہ یہی وہ چند آیات ہیں جنہیں بنیاد بنا کر انہوں نے دعوی فرمایا تھا کہ صوفیا کی بیان کردہ توحید خارج از قرآن ہے۔ باالفاظ دیگر یہ آیات ان کے اس استدلال کی کل کائنات ہیں جس سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جناب غامدی صاحب نے قرآن سے یہ ثابت کیا کہ صوفیا کی توحید قرآن کے خلاف ہے!۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…