ناقد :شیخ عثمان ابن فاروق تلخیص : زید حسن غامدی صاحب کا دعوی ہے کہ وہ منکرِ حدیث نہیں ہیں ۔ ان سے ڈاڑھی کی بابت سوال کیا گیا تو فرمایا: یہ...
ناقد :شیخ عثمان ابن فاروق تلخیص : زید حسن غامدی صاحب کا دعوی ہے کہ وہ منکرِ حدیث نہیں ہیں ۔ ان سے ڈاڑھی کی بابت سوال کیا گیا تو فرمایا: یہ...
ناقد :شیخ عثمان صفدر تلخیص : زید حسن مورگیج ایک صورت ہے جس میں گھر کو خریدا جاتا ہے اور اسکی بابت علماء کا موقف یہی ہے کہ یہ حرام ہے لیکن...
ناقد :شیخ توصیف الرحمن تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ جنت میں حوریں ہوں گی ؟ جواب میں فرمایا : کہ یہ دنیا ہی کی عورتیں ہوں...
ناقد :مفتی عامر سجاد صاحب تلخیص : وقار احمد جاوید احمد غامدی ماڈرن لوگوں کے پسندیدہ اسکالر ہیں اور بہت ساری چیزوں کا انکار کرنے والے ہیں ۔ مثلاً...
ناقد :سید سعد قادری صاحب تلخیص : زید حسن ایک صاحب نے استفسار کیا کہ غامدی صاحب کو سننا کیسا ہے ؟ میرے خیال سے غامدی صاحب میں لوگوں کو کشش...
ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن غامدی صاحب کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ سلف صالحین سے ہٹ کر خدائی پیغام کی تشریح کرتے ہیں ۔ اسکا لازمی مطلب یہ ہے...
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
ایک تو فقہائے کرام اس لحاظ سے فرق کرتے ہیں کہ موت کس کے فعل سے واقع ہوئی ہے؟ اگر موت ایسے فعل سے واقع ہوئی ہے جس کی نسبت دشمن کی طرف ہوتی ہے (بفعل مضاف الی العدو)، تو یہ شہادت ہے؛ اور اگر یہ اسی شخص کے فعل سے واقع ہوئی ہے، تو اگر یہ فعل سہواً ہوا ہو، جیسے دشمن پر تلوار چلائی، وہ پیچھے ہٹا اور تلوار خود مجاہد کو لگی اور اس کی موت واقع ہوئی، تو اخروی لحاظ سے اسے شہادت کہا جائے گا، لیکن شہید کے دنیوی احکام کا اطلاق اس مجاہد پر نہیں ہوگا؛ اور اگر یہ فعل قصداً ہوا ہو، تو یہ خود کشی ہے۔
دوسرا فرق فقہاے کرام فعل کی نوعیت کے لحاظ سے بھی کرتے ہیں جسے اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مردار کھانا حرام کیا ہے؛ لیکن جب موت کا خدشہ ہو اور کھانے کو صرف مردار ملے، تو اللہ تعالیٰ نے اتنا کھا لینے کی اجازت دی ہے کہ جان بچ جائے؛ اگر اس حالت میں یہ شخص مردار نہ کھائے اور اس کی موت واقع ہو، تو یہ خود کشی کا مرتکب ہوا ہے کیونکہ جب اللہ نے اسے مردار کھا کر جان بچانے کی اجازت دی تھی، تو اس نے جان نہ بچا کر اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس سے مختلف مثال دیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کی بات کہنا حرام کیا ہے، لیکن کسی کو قتل کی دھمکی دے کر کفر کی بات کہنے پر مجبور کیا جائے، تو اللہ تعالیٰ نے ایسے مجبور شخص کو جان بچانے کےلیے کفر کی بات کہنے کی رخصت دی ہے، بشرطے کہ وہ دل میں ایمان پر جما رہے۔ تاہم اگر یہ شخص کفر کی بات نہ کہے اور نتیجتاً اسے قتل کیا جائے، تو یہ خود کشی کا مرتکب نہیں ہے بلکہ یہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہے۔
پہلی صورت میں رخصت پر عمل واجب ہے؛ دوسری صورت میں رخصت پر عمل محض جائز ہے؛
پہلی صورت میں رخصت پر عمل نہ کرکے یہ شخص خود کشی کا مرتکب ہوگا؛ دوسری صورت میں رخصت پر عمل نہ کرکے یہ شخص شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگا۔
اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ میں (فی الحال) نہیں بتاؤں گا۔
لیکن یہ فرق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی سمجھ میں آجائے، تو شاید وہ “مہذب ترین فاتح” کے ناجائز لے پالک کی وکالت ترک کرکے قدسیوں کی حمایت شروع کریں؛ وما ذلک علی اللہ بعزیز!۔
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم...
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے...
صفتین خان غامدی صاحب کا تازہ بیان سن کر صدمے اور افسوس کے ملے جلے جذبات...