مفتی منیب الرحمن دعا بندے اور رب کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو کسی ضابطے کا پابند نہیں ہے‘ نہ نماز کی طرح اس میں عربی زبان کا التزام ہے۔ الغرض بندے کی زبان کوئی بھی ہوحتیٰ کہ گونگا بھی ہو‘ وہ اپنے رب سے براہِ راست التجا کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دعا کی...
علامہ زمحشری کی عبارت سے غامدی صاحب کے استدلال پر تبصرہ
تفہیمِ اسلام : دو تعبیرات اتمامِ حجت اور سنت
ناقد : کاشف علی تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے جزئیات پر بات نہیں ہو سکتی ۔ دین کی دو تعبیرات ہیں ۔ ایک تعبیر کے مطابق اسلام سیاسی سسٹم دیتا ہے ۔ لیکن غامدی صاحب دوسری تعبیر کے نمائندہ ہیں کہ اسلام کوئی سسٹم نہیں دیتا ۔ دونوں تعبیرات کے مطابق نیچے کی جزئیات مختلف ہو...
منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد
ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن اول ۔ یہ کہنا کہ جمعہ کا منبر علماء سے واپس لے لینا چائیے کیونکہ اسلامی تاریخی میں جمعہ کے منبر کا علماء کے پاس ہونا کہیں ثابت نہیں ہے ، یہ سربراہِ مملکت کا حق ہے اور علماء غداری کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ ان ظالموں کی منطق بالکل...
علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ : قسط دوم
مفتی منیب الرحم علامہ غامدی نے کہا: ''میں نے بارہا عرض کیا : جامع مسجد ریاست کے کنٹرول میں ہونی چاہیے ،دنیا بھر میں ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے ،ملائشیا میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،عرب ممالک میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،ہمارے ملک میں نہیں ہے ، ریاست یہ اِقدام نہیں...
علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ : قسط اول
مفتی منیب الرحمن ۔13مارچ کومیں نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میںمختصر بات کی ،اُس کے بعد علامہ جاوید احمد غامدی کو اپنی بات تفصیل سے کہنے کا موقع دیا گیا ۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بیانیہ جدید دور کی اصطلاح ہے ۔اصولی طور پر کسی ملک وقوم کا دستور ہی اُس کا اجتماعی...
اسرائیلی خونریزی اور جاوید احمد غامدی
تنویر قیصر شاہد اسرائیل کی وحشت اور دہشت کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی ملک، عالمی ادارے یا قانون کو ماننے پر تیار نہیں۔ فلسطین کی ایک چھوٹی سی پٹّی ، غزہ، میں محصور فلسطینیوں کے خلاف صیہونی اسرائیلی افواج کو بروئے کار آئے ہُوئے آج ایک مہینہ اور تین دن ہو چکے ہیں۔ اِس...
ڈاکٹر زاہد مغل
علامہ جار اللہ زمحشری (م 538 ھ) کی جس عبارت کو محترم غامدی صاحب نے مسئلہ تبیین پر اپنے مدعا کا بیان قرار دیا، اس عبارت سے کیا جانے والا استدلال بھی مخدوش بے۔ علامہ زمحشری لکھتے ہیں:
ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ يعنى ما نزل الله إليهم في الذكر مما أمروا به ونهوا عنه ووعدوا وأوعدوا
یعنی اے نبی لوگوں کے لئے آپ کی جانب نازل کردہ ذکر سے اوامر و نہی اور وعد و وعید کو بیان کردیں۔ اس سے محترم غامدی صاحب نے یہ استدلال کیا کہ علامہ زمحشری نے بھی گویا یہ کہا کہ لتبین للناس کا مطلب قرآن میں مذکور حلال و حرام اور وعد و وعید کو بیان کردیں یا ظاہر کردیں نہ کہ ان کی شرح کردیں۔
علامہ زمحشری کی یہ عبارت اوپن اینڈڈ قسم کی عبارت ہے جس کو معنی پہناتے ہوئے دیگر امور کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، محض یہ الفاظ مفید مطلب نہیں۔ اگر یہ ثابت کیا جائے کہ علامہ زمحشری بذریعہ سنت تخصیص، تقیید و تبدیل کو بیان نہیں سمجھتے تھے تب کہیں جاکر ان کے ان الفاظ سے وہ مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے جو غامدی صاحب کا مقصود ہے۔ علامہ زمحشری کی تفسیر سے ہمیں کوئی ایسا جامع مقام نہیں مل سکا جس سے ان کا تصور بیان واضح ہوجائے، تاہم چوری کی سزا اور اسی طرح زانی کی سزا وغیرہ جیسے متعدد امور پر آپ کی آراء کا احاطہ کرنے سے معاملہ بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ قرآن کے حلال و حرام کی تبیین میں وہ سنت کو کیا مقام دیتے تھے۔ یہاں ہم بات کو طویل نہیں کرنا چاہتے، اہل علم حضرات علامہ زمحشری کی تفسیر کشاف کی جانب رجوع کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ علامہ زمحشری فقہی معاملات میں حنفی تھے اور احناف کے نزدیک قرآن کے حلال و حرام کو واضح کرنے میں سنت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے، یہاں تک کہ ان کے ہاں نسخ بھی بذریعہ سنت بیان ہے۔ یہاں ہم اسی آیت پر حنفی عالم امام دبوسی (م 430 ھ) کی رائے پیش کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ حنفی، نسخ اور سنت کے تعلق کو بیان کی بحث میں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کی رائے تھی کہ نسخ بذریعہ سنت جائز نہیں کہ یہ تبیین نہیں بلکہ تبدیل ہے اور سورہ نحل کی آیت کی رو سے نبی تبیین کرتے ہیں۔ “تقویم الادلۃ” سے امام دبوسی کا جواب ملاحظہ کریں:
ثم الدليل على الجواز ابتداء قول الله تعالى: {وأنزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم} فإذا أنزل الله تعالى نسخ ما في القرآن بحكم آخر بوحي غير متلو في القرآن صار الحكم الثاني مما نزل إلى الناس، ويلزم النبي صلى الله عليه وسلم بيانه للناس بحكم هذه الآية فإنه ألزمه بيان ما نزل إلى الناس من الأحكام وصار قوله: {وأنزلنا إليك الذكر} في معنى إنا أرسلنا إلى الناس وجعلناك رسولًا بما أنزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم من الأحكام
مفہوم: “نسخ بذریعہ سنت کے جوازکی دلیل یہ آیت ہے کہ “ہم نے آپ کی جانب یہ ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ چیز بیان کردیں جو ان کی جانب نازل کی گئی”۔ جب اللہ تعالی غیر متلو وحی یعنی سنت کے ذریعے قرآن میں مذکور حکم کو منسوخ فرماتا ہے تو یہ دوسرا حکم “جو لوگوں کی جانب نازل کیا گیا ” کے حکم میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور اس آیت کی رو سے آپﷺ پر لوگوں کے لئے اس دوسرے حکم کو بیان کرنا لازم تھا کیونکہ اللہ نے آپﷺ پر لوگوں کے لئے ان احکام کے بیان کو لازم قرار دیا ہے جو آپ پر نازل ہوں۔ پس اللہ کا قول “ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا” کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے آپ کولوگوں کی طرف مبعوث کیا اور آپ کو اس چیز کو پہنچانے والا بنایا جو آپ کی جانب نازل ہو تاکہ آپ لوگوں کے لئے ان احکام کو بیان کردیں جو ان کے حق میں مقرر کئے گئے۔”
غور کیجئے کہ امام دبوسی کس صراحت کے ساتھ نسخ بذریعہ سنت کے لئے اس آیت کا لارہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ علامہ زمحشری معتزلی تھے تب بھی بات نہیں بنتی کیونکہ معتزلہ کے نزدیک بھی یہ امور تبیین میں شامل تھے۔ اس کے لئے علامہ الحسین البصری (م 436 ھ) کی کتاب “المعتمد فی اصول الفقہ” ملاحظہ کی جاسکتی ہے جہاں انہوں نے عین تخصیص کے اثبات کے لئے سورہ نحل کی متعلقہ آیت کو پیش کیا ہے۔
الغرض خلاصہ یہ کہ تفسیری روایت میں علامہ طبری اور علامہ زمحشری میں سے کسی بھی مفسر نے سورۃ نحل کی متعلقہ آیت پر وہ موقف اختیار نہیں کیا جو غامدی صاحب کا موقف ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی...