غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

Published On January 4, 2024
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط اول )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط اول )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ اسلام کا جنگی نظام " جہاد " عرصہ دراز سے مخالفین اسلام کے طعن و تشنیع اور اعتراضات کا ہدف رہا ہے۔ علماء امت ہر زمانے میں اس کے جوابات بھی دیتے رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں جب سے برقی ایجادات عام ہو ئیں ، پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ پوری...

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

ڈاکٹر خضر یسین

یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں، غلطی بیانی یا غلط فہمی کی ضرور نشاندہی کریں گے۔

سب پہلے تصور “ماخذ دین” آتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک دین کا واحد ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ “دین حق” وہی ہے جسے آنجناب علیہ السلام اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب دین قرار دیں۔

ہماری گزارش یہ ہے

“دین” کا ماخذ آنجناب علیہ السلام کی ذات گرامی نہیں ہے، آپ علیہ السلام کی ذات شریف “مہبط وحی” ہے۔ دین کا ماخذ “وحی خداوندی” ہے۔ آنجناب علیہ السلام اس وحی کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور آنجناب کی اطاعت و اتباع میں آپ علیہ السلام کی امت اس کی مخاطب و مکلف ہے اور بالکل اسی طرح سے مکلف و مخاطب ہے جس آنجناب علیہ السلام خود ہیں۔ آنجناب علیہ السلام نے اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب سے دین نہیں بنایا۔ دین مکمل طور آنجناب علیہ السلام پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

“دین” کتاب و سنت پر مشتمل ہے اور کتاب و سنت دونوں یکساں منزل من اللہ ہیں۔ دونوں الامۃ من حیث الامۃ  کا “مجمع علیہ” ہیں۔ “دین” صحابہ کرام کا یا کسی خاص زمانی و مکانی گروہ کا “مجمع علیہ” نہیں ہے بلکہ الأ مة من حيث الأمة کا “مجمع علیہ” ہے اور “نقل الكافة عن الكافة” کے ذریعے قیامت تک ایک دائمی استحضار eternal presence کے طور پر موجود و مشھود invisibly existent حقیقت ہے۔

محترم غامدی صاحب کا خیال ہے؛ دین کتاب و سنت ہے۔ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور “سنت” سے ان کی مراد، دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے؛ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید و اصلاح کے بعد اور بعض اضافوں کے ساتھ، اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔

ہماری معروضات

 کتاب سے متعلق غامدی کے دینی فکر کا جائزہ بعد میں لیا جائیگا۔ یہاں ہم ان کے تصور “سنت” کے متعلق کچھ کہنا چاھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے؛ دین کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کو قطعا دخل نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام کسی حیثیت سے اپنے اختیارات یا اپنی صوابدید سے دین میں مداخلت نہیں فرما سکتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے؛ آنجناب علیہ السلام کی ہستی میں محمد بن عبداللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرق لایعنی ہے۔ نزول وحی کے بعد محمد بن عبداللہ والی کہانی ختم ہو جاتی ہے، نزول وحی کے بعد آپ علیہ السلام صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ رسالت صوابدیدی منصب نہیں ہے، تنزیلات ربانیہ کو بلا کم و کاست انسانوں کے سامنے پیش کر دینا ہے۔

“سنت” آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح نازل ہوئی ہے جس طرح کتاب نازل ہوئی ہے۔ “سنت” منزل من اللہ، اعمال ہیں۔ انہیں مناسک دین بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ماقبل کتب سماوی سے ممتاز و منفرد ہے، اسی طرح آنجناب علیہ السلام پر نازل ہونے والی سنت/ مناسک عبادت بھی ممتاز و منفرد ہیں بلکہ ناسخ ہے۔ الصلوۃ کا لفظ اہل عرب کے نامانوس نہ تھا، لیکن اس کا وہ مدلول جو “نبوت محمدیہ” میں بتایا گیا ہے، عرب واقف تھے اس سے اور نہ غیرعرب واقف تھے۔

غامدی صاحب کے بیان سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے جیسے “سنت” کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کے صوابدیدی اختیارات اصل الاصول ہیں۔ ظاہر ہے یہ سو فیصد غلط موقف ہے۔ “دین” روایت نہیں ہے بلکہ “تنزیل” ہے۔ روایت اور تنزیل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ روایت انسان سے انسان تک ہوتی ہے اور “تنزیل” اللہ تعالی سے انسان تک ہوتی ہے۔ دین ابراہیمی کی روایت کا یہ تصور نبوت کو نظریہ بنا دیتا ہے۔ حق یہ ہے؛ “نبوت” نہ نظریہ ہے اور نہ اسے نظریہ بنایا جا سکتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…