عبد اللہ معتصم
اپنے پیش رو مرزا قادیانی کی طرح غامدی صاحب بھی قرآن کی من مانی تفسیر، الفاظ کو کھینچ تان کر اپنے مطلب کی بات نکالنے میں طاق ہیں۔ قرآن کی معنوی تحریف اور جمہور امت سے ایک الگ اعتزال کی راہ اپنانا اور ایک امتیازی رائے رکھنا ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ ”اسلام کے حدود وتعزیرات“ پر حضرت کی خامہ فرسائی ملاحظہ فرمائیں۔
”موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جاسکتی۔ الله تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ ان دو جرائم کو چھوڑ کر، فرد ہو یا حکومت، یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ وہ کسی شخص کی جان کے در پے ہو اور اسے قتل کر ڈالے۔“
(سورة) مائدہ میں ہے: ﴿ُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعا﴾․(آیت:32) (جس نے کسی کو قتل کیا اس کے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو، یازمین میں فساد برپا کیا ہو تو اس نے گویا سب انسانوں کو قتل کیا۔) (میزان ص283)
محولہ بالا عبارات میں غامدی صاحب نے یہ مغالطہ اور فریب دیا کہ سورة المائدہ کی پوری آیت نہیں لکھی۔ کیوں کہ اگر وہ پوری آیت لکھ دیتے تو اس سے وہ اپنا من پسند مفہوم کشید نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے مذکورہ آیت کا صرف اتنا حصہ لکھا جس سے ان کو اپنا خود ساختہ مفہوم نکالنے میں آسانی ہو۔ دراصل مذکورہ آیت کے مضمون کا تعلق بنی اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسلامی حدود وتعزیرات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس آیت میں الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے قانون کا ایک اصول ذکر فرمایا ہے۔ سورة مائدہ کی اس آیت کی جو تفسیر غامدی نے کی ہے۔ اس کے استاذ امین حسن اصلاحی سمیت امت میں کسی عالم نے یہ تفسیر نہیں کی۔ کسی نے ان کو حدود وتعزیرات کا ماخذ نہیں سمجھا۔یہ صرف غامدی صاحب کا کمال ہے۔ شاید جاوید غامدی جمہور امت کی کی گئی تفسیر میں غلطیاں نکال رہے ہیں۔ جس طرح مرزاقادیانی اپنے بارے میں کہتا ہے: ”میں قرآن کی غلطیاں نکالنے آیا ہوں، جو تفسیروں کی وجہ سے واقع ہوگئی ہیں۔“(ازالة الاوہام ص708، خزائن ج3 ص482)
اسی طرح سورة الفیل کی بھی غامدی صاحب نے وہ تفسیر کی ہے جو سلف سے خلف تک کسی مفسر نے نہیں کی۔ ملاحظہ ہو ا : البیان ص239۔
سورة نصر مکی ہے
اہل علم ودانش بخوبی جانتے ہیں کہ سلف وخلف کے تمام مفسرین کے نزدیک سورة نصر مدنی ہے اور اس کے مدنی ہونے پر سب کا اتفاق واجماع ہے۔ جناب جاوید غامدی صاحب نے امت سے امتیازی رائے رکھنے کی قسم کھائی ہے۔ یہاں بھی ان کا راستہ وہ ہے جو امت میں سوائے مرزائیوں کے بعض مفسرین کے کسی نے نہیں رکھا۔ غامدی صاحب کا اصرار ہے کہ سورة نصر مکی ہے۔ اپنی تفسیر ”البیان“ میں لکھتے ہیں: ”سورة کافرون کے بعد اور لہب سے پہلے یہاں اس سورة (النصر) کے مقام سے واضح ہے کہ سورة کوثر کی طرح یہ بھی، ام القریٰ مکہ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلہ ہجرت وبرأت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عظیم بشارت کی حیثیت سے نازل ہوئی۔“(البیان ص252)
اسی بات کو دوسرے مقام پر مختصر اور واضح طور پر یوں فرماتے ہیں: ”ساتواں باب سورة ملک سے شروع ہوکر سورة الناس پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں آخری دو معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔“(البیان ص6)
سورة نصر کے بارے میں یہی رائے مرزائیوں کے لاہوری گروپ کے بانی مولوی محمد علی کی بھی ہے۔ اپنی تفسیر ”بیان القرآن“ میں لکھتے ہیں: ”سورة کا نام نصر ہے۔ اس میں تین آیتیں ہیں۔ اس کو مکی سورتوں کے مجموعہ میں شامل کیا جاتا ہے۔“ (بیان القرآن، جلد سوم، سورة النصر)