( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

Published On April 21, 2025
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں وہ اب تک مبتلا ہوچکے ہیں، اور انھیں کچھ مزید ایسے پہلوؤں پر غور کا موقع مل جاتا، جن کی طرف ان کی، اور ان کے پیشوا کی، نظر نہیں جاتی۔ اس قسط میں ایسے چند پہلوؤں کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ (ویسے جتنے صبر کا مطالبہ میں ان سے کررہا ہوں، وہ اس صبر کے ہزارویں بلکہ لاکھویں حصے سے بھی کم ہے، جس کا مطالبہ وہ اہلِ غزہ سے کرتے ہیں۔)
سبب، شرط اور مانع کی اس بحث میں غامدی صاحب اور ان کے متبعین ایک تو ان تصورات کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھ رہے۔ مثلاً جہاد کےلیے استطاعت کو ضروری قرار دے کر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ استطاعت کے بغیر جہاد واجب نہیں ہوتا، اور ساتھ ہی زکوٰۃ اور حج کی مثال دیتے ہیں، تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ استطاعت زکوٰۃ کےلیے تو سبب ہے (جس کی علامت نصاب کے برابر مال کی ملکیت ہے)، لیکن حج اور جہاد کے لیے استطاعت شرط ہے۔ اس فرق کو نظر انداز کرنا معمولی نہیں، بلکہ بنیادی غلطی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت کا سوال نصاب کی ملکیت سے پہلے اٹھتا ہی نہیں، جبکہ جہاد کی فرضیت کا سبب (غامدی صاحب کے بقول) دوسروں کی جانب سے ظلم و عدوان کا ارتکاب ہے۔ اس لیے جب ظلم و عدوان کا وجود پایا جائے گا، تو جہاد (بمعنیٰ قتال) کا وجوب بھی پایا جائے گا، یعنی اس ظلم و عدوان کو مسلح جنگ کے ذریعے روکنا لازم ہوگا، اور اسے لازم ماننے کے بعدیہ سوال ہوگا کہ یہ لازم کام کیسے کیا جائے؟
یہیں سے ایک اور اہم فرق پر بات ضروری ہوجاتی ہے جسے غامدی صاحب اور ان کے متبعین نظر انداز کررہے ہیں۔ وہ فرق جہاد اور حج کی فرضیت کا فرق ہے۔ یہ دونوں کام فرض ہیں اور دونوں کےلیے استطاعت سبب نہیں، بلکہ شرط ہے؛ لیکن فرق یہ ہے کہ حج فرض عین ہے، جبکہ جہاد فرض کفایہ ہے۔ چنانچہ حج کی فرضیت کےلیے جب استطاعت کی بات کی جاتی ہے، تو اس سے مراد فرد کی استطاعت ہوتی ہے؛ اس کے برعکس جہاد کےلیے جب استطاعت کی بات ہوتی ہے، تو اس سے مراد پوری امت کی استطاعت ہوتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ کیسے پوری قطعیت کے ساتھ یہ دو ٹوک فیصلہ کرسکتے ہیں کہ پوری امت مل کر بھی اسرائیل کو ظلم سے نہیں روکنے کی استطاعت نہیں رکھتی، اور اس پر الگ سے تنقید کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن اس وقت یہ بات واضح کرنی تھی کہ حج اور جہاد کے معاملے میں استطاعت کا فرق فرد کی استطاعت اور پوری امت کی استطاعت کا فرق ہے۔
سبب، شرط اور مانع کی اس بحث میں غامدی صاحب اور ان کے متبعین ایک اور اہم پہلو یہ نظر انداز کررہے ہیں۔ شریعت نے جن امور کو بعض دوسرے امور کےلیے سبب مقرر کیا ہے، ان میں بعض ایسے ہیں جو انسانوں کے افعال میں سے نہیں ہیں۔ مثلاً نماز کی فرضیت کا سبب وقت کا داخل ہونا ہے؛ روزوں کی فرضیت کا سبب رمضان کے مہینے کا شروع ہونا ہے؛ حج کی فرضیت کا سبب بیت اللہ کا وجود ہے۔ یہی معاملہ بعض شروط اور موانع کا بھی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ کی فرضیت کےلیے ایک شرط یہ ہے کہ آدمی کے صاحبِ نصاب بننے کے بعد ایک (قمری) سال گزرے اور وہ بدستور صاحبِ نصاب رہے۔ آدمی نہ وقت کا پہیہ روک سکتا ہے، نہ اسے تیز کرسکتا ہے؛ اس لیے اس شرط کا پورا ہونا اپنے وقت پر ہی ہوگا اور انسان سے اس کے وجود میں لانے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی معاملہ بعض موانع کا بھی ہے۔ مثلاً حیض نماز کی فرضیت یا روزوں کی ادائی کی راہ میں مانع ہے اور انسان سے اس کے وجود میں لانے یا نہ لانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ تاہم اسباب، شروط اور موانع میں بعض ایسے ہیں جن کے وجود میں لانے یا نہ لانے کا مطالبہ انسان سے کیا جاسکتا ہے۔
اس مؤخر الذکر قسم میں بعض ایسے اسباب، شروط یا موانع بھی ہیں جن کے وجود میں لانے یا نہ لانے کا مطالبہ انسان سے کیا تو جاسکتا ہے، لیکن شریعت نے نہیں کیا۔ مثلاً زکوٰۃ کی فرضیت کا سبب نصاب کی ملکیت ہے۔ شریعت یہ حکم دے سکتی تھی کہ ہر مسلمان، یا مسلمانوں کی آبادی کا ایک خاص فی صدی حصہ، لازماً صاحبِ نصاب ہو، لیکن اس نے یہ حکم نہیں دیا۔ اسی طرح حج کی فرضیت کی ایک شرط بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت ہے۔ شریعت ہر مسلمان سے یہ مطالبہ کرسکتی تھی کہ وہ یہ استطاعت پیدا کرے، لیکن اس نے یہ مطالبہ نہیں کیا۔ موانع پر بھی غور کیجیے۔ کیا ادویات کے ذریعے حیض کو مؤخر نہیں کیا جاسکتا؟ خصوصاً حج یا عمرے کے وقت کئی دفعہ یہ سوال کیا جاتا ہے۔ ایسی ادویات یا تدابیر کا اختیار کرنا جائز ہے یا نہیں، یا ان کےلیے کیا قیود و حدود ہیں، اس بحث میں جائے بغیر اس وقت صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ اس شرعی مانع کو دور کیا جاسکتا ہے، اور اسے دور کیا جائے، تو جس شرعی حکم کےلیے اسے مانع کی حیثیت حاصل تھی، وہ حکم اب نافذ ہوجائے گا۔ چنانچہ ایسی خاتون سے نماز کا بھی مطالبہ ہوگا اور اس کی جانب سے روزے،حج یا عمرے کی ادائی بھی درست ہوگی۔
اس اصول کا اطلاق جہاد کے مسئلے پر کیجیے۔ جہاد کی فرضیت کا سبب (بقولِ غامدی صاحب کے) ظلم و عدوان کا وجود ہے۔ یہ سبب انسانوں کے افعال میں سے ہے اور اس سبب کےلیے حکمِ تکلیفی حرمت کا ہے، یعنی ظلم و عدوان کا ارتکاب حرام ہے۔ انسانوں پر ظلم و عدوان سے اجتناب لازم ہے۔ تاہم اگر کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کے خلاف ظلم و عدوان کا ارتکاب کررہا ہے، جیسے اس وقت اسرائیل اہلِ غزہ کے خلاف کررہا ہے، تو اس گروہ، یعنی اسرائیل، کے خلاف جہاد (بمعنی قتال) کی فرضیت کا سبب وجود میں آگیا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر بحیثیتِ مجموعی، نہ کہ صرف اہلِ غزہ پر، جہاد (بمعنی قتال) فرض ہوگیا ہے۔ اب اگلا سوال شروط کا ہے جن میں ایک شرط استطاعت کی ہے، یعنی کیا پوری مسلمان امت اس کی استطاعت رکھتی ہے کہ وہ اسرائیل کو اس ظلم سے روکنے کےلیے مسلح جنگ کرے؟ اس سوال پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے اور فوراً ہی نفی میں جواب دینا محض جہالت ہے۔ تاہم ایک لمحے کےلیے فرض کیجیے کہ پوری امت میں مجموعی طور پر بھی اس کی استطاعت نہیں ہے، تو اگلا سوال یہ ہے کہ کیا اس استطاعت کا حصول شرعاً مطلوب ہے یا نہیں؟ سورۃ الانفال کی آیت پڑھیے:
وأعدّوا لھم ما استطعتم من قوۃٍ ومن رباط الخیل
(اور ان کے مقابلے میں جتنی تمھاری استطاعت ہو ہر طرح کی قوت تیار کرو، اور خصوصاً باندھے ہوئے گھوڑے)
یہاں استطاعت کے مطابق تیاری کا حکم دیا گیا ہے؛ اس لیے اس مسلح جنگ کی تیاری اور اس کےلیے ممکن حد تک قوت کا حصول شرعاً واجب ہے۔ چنانچہ اگر کسی کے خیال میں امت میں اس کی استطاعت نہیں ہے، تو وہ امت کو اس استطاعت کے حصول کا فریضہ یاد دلائے، بجاے اس کے کہ وہ عدمِ استطاعت کا عذر پیش کرکے لوگوں کو کہے کہ جہاد تو فرض ہی نہیں ہے!
اسی طرح مظلوموں کی مدد کی راہ میں ایک رکاوٹ یہ ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں نے اس قوم کے ساتھ معاہدہ کیا ہو جس کے خلاف یہ مظلوم مدد مانگ رہے ہوں؛ لیکن ایسے بدترین ظلم کے بعد شرعاً ایسا معاہدہ اول تو باقی نہیں رہا، اور اگر باقی بھی ہو تو اسے پھینک دینا، یعنی اس کے خاتمے کا اعلان کرنا لازم ہے۔ پس شرعی حکم کے درست فہم کےلیے سبب، شرط اور مانع کی درست تفہیم اور ان کی درست ترتیب سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
ان تین فروق (سبب اور شرط کا فرق، فرض عین اور فرض کفایہ کا فرق اور سبب/شرط/مانع کے متعلق حکمِ تکلیفی کا فرق) کا نتیجہ یہ ہے کہ ظلم و عدوان کے سبب سے اسرائیل کے خلاف جہاد (بمعنی قتال) پوری امت کا اجتماعی فرض بن چکا ہے؛ اگر اس فریضے کی ادائی کےلیے امت میں استطاعت نہیں ہے، تو اس استطاعت کا حصول بھی پوری امت پر فرض ہے؛ اور اگر اس فریضے کی راہ میں کوئی معاہدہ مانع ہے، تو اس مانع کا ہٹانا بھی پوری امت پر فرض ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…