ریاست و فرد اور فکرِ غامدی کا تضاد

Published On November 22, 2023
احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

احناف اور جاوید غامدی کے تصور سنت میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   احناف کے نزدیک سنت اور حدیث کا تعلق شمس الائمہ ابو بکر محمد بن ابی سہل سرخسی (م: ۵۴۸۳ / ۱۰۹۰ء) اپنی کتاب تمهيد الفصول في الاصول میں وہ فصل کرتے ہیں کہ ”عبادات میں مشروعات کیا ہیں اور ان کے احکام کیا ہیں۔" اس کے تحت وہ پہلے ان مشروعات کی...

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

ایک بیانیہ کئی چہرے : مغرب، منکرینِ حدیث ، قادیانیت اور غامدی فکر ؟

مدثر فاروقی   کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ غامدی فکر میں وہ سب نظریات کیوں جمع ہیں جو پہلے سے مختلف فتنوں کے اندر بکھرے ہوئے تھے ؟ ہم نے برسوں سے سنا تھا کہ منکرینِ حدیث کہتے ہیں : حدیث تاریخی ہے ، وحی نہیں اب یہاں بھی یہی بات سننے کو ملی ، فرق صرف اندازِ بیان کا...

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

غامدی صاحب کے تصورِ زکوٰۃ کے اندرونی تضادات

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد بعض دوستوں نے زکوٰۃ کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی آرا کے بارے میں کچھ سوالات کیے ہیں، جن پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہے گی۔ سرِ دست دو سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ کیا زکوٰۃ ٹیکس ہے؟ اپنی کتاب "میزان" کے 2001ء کے ایڈیشن میں "قانونِ...

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

دینِ اسلام ہی واحد حق ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے دامادِ عزیز مذہب "شرک" کےلیے ان حقوق کی بات کررہے ہیں جو ایک مسلمان صرف دین "اسلام" کےلیے مان سکتا ہے۔ تو کیا آپ کے نزدیک دینِ اسلام واحد حق نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ دوسرے بھی تو اپنے لیے یہی سمجھتے ہیں، محض بے عقلی ہے۔...

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

۔”فقہ القرآن” ، “فقہ السنۃ” یا “فقہ القرآن و السنۃ”؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کیا قرآن کے کسی بھی حکم کو سنت سے الگ کرکے سمجھا جاسکتا ہے ؟ کیا جن آیات کو "آیات الاحکام" کہا جاتا ہے ان سے "احادیث الاحکام" کے بغیر شرعی احکام کا صحیح استنباط کیا جاسکتا ہے ؟ ایک reverse engineering کی کوشش جناب عمر احمد عثمانی نے کی تھی "فقہ...

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

کیا قرآن کریم میں توہینِ رسالت کی سزا نہیں ہے؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب اتنی قطعیت کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ سامنے والے نے اگر کچھ پڑھا نہ ہو (اور بالعموم ان کے سامنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں)، تو وہ فورا ہی یقین کرلیتے ہیں، بلکہ ایمان لے آتے ہیں، کہ ایسا ہی ہے۔ اب مثلا ایک صاحب نے ان کی یہ بات پورے یقین کے...

ڈاکٹر زاہد مغل

غامدی صاحب نہایت دلچسپ مفکر ہیں، انکے نزدیک ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ مذہب کی بنیاد پر (سواۓ دو معاملات، اقامتِ صلاۃ اور زکوۃ) افراد پر جبر کرے، مثلا انکے نزدیک ریاست افراد سے پردہ کرنے کا تقاضا نہیں کرسکتی۔ مگر دوسری طرف یہ ریاست کا حق اس قدر وسیع مانتے ہیں کہ اپنے مملکت کے تمام باشندوں کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ سب ایک ہی قسم کا بارہ سالہ تعلیمی نظام اختیار کریں اور اس ایک علاوہ جتنے تعلیمی نظام ہیں ریاست کو حق ہے کہ انہیں بذریعہ جبر و قانون ختم کردے۔ ہے نا مزے کا تضاد، یعنی جہاں ”مذہب کی بنیاد” پر جبر کرنے کی بات ہو وہاں ازروۓ قرآن ریاست کو اسکا حق حاصل نہیں (یعنی اس معاملے میں غامدی صاحب انارکسٹ مفکر بن جاتے ہیں جو ریاست سے فرد کی زندگی میں مداخلت کا ہر قسم کا حق چھین لینا چاہتے ہیں) مگر جونہی حاضر و موجود (سرمایہ دارانہ) نظام کی اطاعت کی بات آتی ہے غامدی صاحب کمیونیٹیرین مفکرین کی طرح ریاست کے اس حق کو فرد کی زندگی کے ہر شعبے پر پھیلا دینے کی شدید خواھش رکھتے ہیں۔

آخر اس دلچسپ تضاد کا راز کیا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب حاضر و موجود ادارتی صف بندی کو غیر اقداری (نیوٹرل) سمجھے بیٹھے ہیں، انکے نزدیک تنویری  فکر انسانی عقل کے فطری ارتقاء کا اعلی اور غیر اقداری اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مجوزہ بارہ سالہ تعلیمی نظام (جو درحقیقت تنویری علوم کا مجموعہ ہے) کے جبر کو تو فطری اور جائز سمجھتے ہیں البتہ مذہبی نظام تعلیم کے جبر کو غیر فطری۔ اسی لئے وہ مذہب کی بنیاد پر جبر کو ریاست کا جانبدارانہ رویہ قرار دیکر غلط سمجھتے ہیں مگر حاضر و موجود علمیت کی بنیاد پر کئے جانے والے جبر کو غیرجانبدارانہ (گویا یہ فرد کی فطری صلاحیتوں کو اسکی حالت اصلی پر نمو دینے کا طریقہ ہے)۔ یہ اسی فکری خلجان کا نتیجہ پے کہ غامدی صاحب کے یہاں (قدیم معتزلہ کی طرح) مسلم اور کافر کے درمیان ایک عجیب وغریب کیٹیگری پائی جاتی ہے جو انکے نزدیک مسلم بھی نہیں ہوتی اور اسے کافر کہنا بھی جائز نہیں (گویا یہ کسی غیرجانبدار پوزیشن پر برجمان انفرادیت ہے)۔

غامدی صاحب (اور انکے فکری ہمنوا وحید الدین خان صاحب) کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ حضرات تنویری مفکرین کے اس پروپیگنڈے سے سخت متاثر و خائف ہیں کہ مذھبی ریاست چونکہ خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتی ہے لہذا یہ دیگر تصورات خیر کی بیخ کنی کرتی ہے جبکہ سیکولر ریاست غیر جانبدار، لہذا ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے۔ یہ حضرات سیکولر لوگوں کے اس جھوٹے پراپیگنڈے کا شکار ہوکر مذہبی ریاست کو بھی سیکولر ریاست کی طرح خیر کے معاملے میں غیرجانبدار ثابت کرنے کے جوش میں ریاست سے مذہب کی بنیاد پر جبر کرنے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سادہ لوح لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس کا نتیجہ ریاست کو غیر جانبدار بنانا نہیں بلکہ تنویری ڈسکورس کا پابند بنانا ہوتا ہے جو بذات خود جاہلیت کی طرف ایک جدید جانبدارانہ رویہ ہے۔ حضرت عمر (رض) کا آبِ زر سے لکھا جانے لائق قول ہے: ”جوشخص جاھلیت سے واقف نہیں وہ اسلام کی کڑیاں بکھیر کر رکھ دے گا”۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…