ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔
ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛
دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت کے حصول کی امید کا محل ہے؛ اور
تیسری یہ کہ جب امکان بالکل نہ ہو، تو پھر واجب نہیں۔
ان کے نزدیک موجودہ صورت حال تیسری ہے۔
غامدی صاحب سے سوال پوچھنے والے بھی بس خانہ پری ہی کرتے ہیں، ورنہ ان سے اصل سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ “اتمامِ حجت والا جہاد” تو آپ کے نزدیک صدیوں پہلے ختم ہوچکا لیکن “ظلم و عدوان والا جہاد” تو آپ کے نزدیک تاقیامت واجب ہے؛ تو پہلے یہ بتائیے کہ اسرائیل جو کچھ غزہ میں کررہا ہے، یہ “ظلم و عدوان” ہے یا نہیں؟
شروط اور موانع کی بات اس کے بعد دیکھیں گے۔
استطاعت کی بات “شروط” میں آتی ہے۔ ظلم و عدوان ہے، تو اب اس کو کیسے روکیں؟ کیا بزورِ بازو روکنے کی استطاعت ہماری ہے یا نہیں؟ اس مرحلے پر آپ کیلکولیشن کریں؛ اور یہاں تین نہیں، بلکہ پانچ امکانات ہوسکتے ہیں:
استطاعت یقیناً ہے؛
استطاعت غالباً ہے؛
استطاعت ہے یا نہیں، اس پر شک ہے؛
استطاعت غالباً نہیں ہے؛ اور
استطاعت یقیناً نہیں ہے۔
ان پانچ مدارج میں آپ فوراً ہی پانچویں درجے پر چھلانگ لگادیتے ہیں۔ یہ آپ کیسے کرلیتے ہیں؟ بالخصوص جبکہ آپ مان رہے ہیں کہ استطاعت اہلِ غزہ کی نہیں، بلکہ امت کی دیکھنی ہے۔
“موانع” میں آپ معاہدات کا ذکر کرسکتے ہیں، لیکن پھر اس پر سوال اٹھیں گے کہ کیا ظلم و عدوان کے بعد بھی معاہدہ شرعاً برقرار ہے؟ اگر ہاں، تو کیا شرعاً اسے پھینک نہیں دینا چاہیے؟
اس لیے ہمت کریں، کہہ دیں کہ اسرائیل ظلم و عدوان کا مرتکب ہے اور اس کے اعوان و انصار (امریکا سمیت) اس ظلم و عدوان میں اس کے پشتیبان ہیں۔