خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

Published On February 4, 2025
تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں محترم غامدی صاحب علم کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک حرف غلط قرار دے کر غیر مفید و لایعنی علم کہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفے کی دنیا میں افکار کے تین ادوار گزرے ہیں:۔ - پہلا دور وہ تھا جب وجود کو بنیادی حیثیت دی گئی...

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین...

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

جہانگیر حنیف کلام کے درست فہم کا فارمولہ متکلم + کلام ہے۔ قاری محض کلام تک محدود رہے، یہ غلط ہے اور اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ کلام کو خود مکتفی قرار دینے والے حضرات کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اولا کسی بھی تاریخی اور مذہبی متن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور...

سید متین احمد شاہ

غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں جمہور امت سے الگ راے اپنائی ہے، مذکورہ بالا عنوان کے حوالے سے بھی بعض امور میں انھوں نے الگ راے اپنائی ہے۔ مذکورہ ویڈیو میں ان کے بعض دعاوی محلِ نظر ہیں، جن میں ایک دعویٰ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کا انعقاد اس دستوری منہج کے مطابق نہیں تھا، جس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوئی۔ ایک دوسرا بڑا دعویٰ یہ ہے کہ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کی بیعت تلوار کے زور پر ہوئی۔
ان کے ان دعاوی پر کچھ گذارشات حسبِ ذیل ہیں۔
۔* حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے صحیح ہونے پر اکابر اہلِ سنت نے اجماع نقل کیا ہے۔ فیس بک کی پوسٹ حوالے نقل کرنے کی متحمل نہیں ہوتی، اس لیے ایک حوالے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر رح کہتے ہیں: فتح الباري لابن حجر (7/ 72) وكانت بيعة علي بالخلافة عقب قتل عثمان في أوائل ذي الحجة سنة خمس وثلاثين فبايعه المهاجرون والأنصار وكل من حضر وكتب بيعته إلى الآفاق فأذعنوا كلهم إلا معاوية في أهل الشام فكان بينهم بعد ما كان.(مفہوم: حضرت علی رض کی بیعت حضرت عثمان رض کی شہادت کے بعد سن ذی الحجہ 35ھ کے اوائل میں ہوئی۔ مہاجرین و انصار اور تمام حاضرین نے آپ کی بیعت کی۔ آپ نے اپنی بیعت کے حوالے سے اطراف و اکناف میں لکھ بھیجا تو سب لوگوں نے اس پر اتفاق کیا سواے اہلِ شام میں حضرت معاویہ رض کے، چناں چہ ان کے درمیان پھر حالات رونما ہوئے۔) اہل علم نے اس بات پر اجماعِ امت نقل کیا ہے کہ حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد روے زمین پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ حق دارِ خلافت کوئی اور نہیں تھا۔ (غامدی صاحب کسی اجماع وغیرہ کو اپنے پورے فکری نظام میں کسی خاطر میں نہیں لاتے، بلکہ کہیں سے کوئی شاذ راے اپنے موقف کے حق میں مل جائے تو پورے اذعان، ادعا اور قطعیت کے ساتھ اس پر اپنے مذہب کی بنیاد اٹھاتے ہوئے بیان کرتے ہیں، اس لیے یہ دلیل انھیں قائل کرنے کے لیے نہیں، البتہ جو لوگ اجماع کو قیمت دیتے ہیں، یہ گذارش ان کے لیے ہے۔) روایات میں ملتا ہے کہ حضرت علی رض اللہ عنہ اس موقع پر بیعت لینے کے لیے تیار نہ تھے، لیکن لوگوں نے بہت مجبور کیا، اس پر آپ نے فرمایا کہ میں کسی خفیہ طریقے سے اپنی بیعت لینے کے حق میں نہیں ہوں، بلکہ یہ بیعت اگر ہوئی تو برملا ہو گی، چناں چہ مسجد میں آپ رض کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ بیعت بھی سابق خلفا کی بیعت کی طرح ایک بالکل جائز اور مسلمانوں کے اختیار و مطالبے کی بنیاد پربیعت تھی۔ (راقم کو اس بات کی سعادت ملی تھی کہ استادِ محترم حضرت مولانا محمد زاہد صاحب کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلافتِ علی پر خطبات کی تدوین و تخریج کی تھی اور یہ کتاب شائع ہو کر قدر دانوں کی طرف سے تحسین وصول کر چکی ہے۔ اس کتاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے صحیح ہونے پر امت کے اکابر کے کئی اقوال پیش کیے گئے ہیں۔ ان اقوال میں حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کے اقوال بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں غامدی صاحب محض تاریخی کی بعض مجہول روایات کی بنیاد پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ حضرت علی رض نے ان سے تلوار کے زور پر بیعت لی۔دوسرے نکتے کے بیان میں اس پر مختصر بات آتی ہے۔ )
۔* غامدی صاحب کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تلوار کے زور پر بیعت لی۔ حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب (استاذِ تاریخ جامعۃ الرشید) نے اپنی بے نظیر کتاب “تاریخ ِ امتِ مسلمہ”(جس کی تائید میں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب مدظلہم نے تقریظ بھی لکھی ہے) میں اس حوالے سے آنے والی تاریخی روایات پر کلام کیا ہے اور پھر صحیح الاسناد روایات بھی پیش کی ہیں۔ ایک روایت یہ آتی ہے کہ ان سے جبرا بیعت لی گئی۔ مولانا اس پر کلام کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:” یہ سب روایات سندا ضعیف اور متن کے اعتبار سے منکر ہیں۔ کوئی ابومخنف سے منقول ہے تو کوئی کسی مجہول شخص یا کسی اور ضعیف راوی سے۔ ہم نے سند کے لحاظ سے بہتر روایات کو اختیار کیا ہے جن میں بلااکراہ بیعت کا ذکر ہے۔(مولانا نے یہ بات تاریخ کی جلد دوم ص 162 پر ذکر کی ہے اور متن میں دیگر روایات بھی پیش کی ہیں جو جبرا بیعت کی نفی کرتی ہیں۔) ” مصنف ابنِ ابی شیبہ کے الفاظ ہیں اور ان کی سند صحیح ہے:إن طلحة والزبير بايعا طائعين غير مكرهين.(بے شک طلحہ وزبیر نے مطیع ہو کر کسی جبر کے بغیر بیعت کی۔) اسی مصنف ہی کی ایک روایت میں حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما اور دیگر لوگوں کے بارے میں آتا ہے (اور حافظ ابنِ حجر ؒ اس کی سند کو حسن قرار دیتے ہیں۔) کہ انھوں نے بخوشی بیعت کی جس میں کوئی جبر شامل نہیں تھا۔
استادِ محترم نے خلافتِ علی رضی اللہ عنہ کتاب میں حافظ کی “فتح الباری” کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے کہ احنف بن قیس کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے آخری دنوں میں حضرت طلحہ رض اور زبیررض کے پاس گیا اور کہا: إني لا أرى هذا الرجل يعني عثمان إلا مقتولا. مجھے لگ رہا ہے کہ حضرت عثمان رض شاید اب بچ نہ سکیں، تو : فمن تأمراني به؟ قالا: علي،آپ مجھے کس کے بارے میں حکم دیتے ہیں؟ انھوں نے کہا: علی ۔
دیگر صحابہ رض کے حوالے سے کوئی روایت اگر سلبی نوعیت کی ہو تو چاہے اس کی اسناد حسن بھی ہوں تو شرفِ صحابیت کے پیش نظر ان کی تاویل کی جاتی ہے (اور یہ منہج بالکل درست ہے ) تو حضرت علی رض کے بارے میں بھی اسی منہج پر عمل کرنا انصاف کا تقاضا ہے۔
یہاں اور بھی کافی کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن فیس بک کی پوسٹ کی طوالت کے پیشِ نظر اتنی گذارشات بھی امید ہے سلیم طبائع کے لیے کافی ہوں گی۔
—-
آج اتفاق سے جناب محمود عباسی کی کتاب “حقیقتِ خلافت وملوکیت ” دیکھ رہا تھا تو اس میں کہی گئی باتوں سے غامدی صاحب کا توارد و اتفاق نظر آیا۔ مذکورہ باتیں بھی ان کے ہاں مل جاتی ہیں۔
—–
اس موضوع پر مزید سیر حاصل بحث اور حضرت علی رض پر ہونے والے اعتراضات کے حوالے سے معاصر مقبول ومعروف مؤرخ و سیرت نگار ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی کی کتب “أسمى المطالب” اور “التداول على السلطة التنفيذية” دیکھنی چاہییں۔

 

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…