کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

Published On November 26, 2024
جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...

شاہ رخ خان

غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ نے بنفس نفیس شریک ہو کر جمل، صِفین اور نہروان کے تمام معرکوں میں عملی طور پر حاصل کرلیا تھا، اگر اہل شام کی جانب سے صلح کی فوری پیش کش نہ ہوتی تو اسی دن تمام ریاستیں سیدنا علی کے زیر ِنگیں ہوجاتیں جیسا کہ تاریخی اور تسلیم شدہ حقائق سے ثابت ہے۔

سیدنا معاویہ -رضی اللہ عنہ- کے لشکر کو نا تو سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کے مقابلے میں کبھی غلبہ حاصل ہوا اور نا ہی سیدنا حسن -رضی اللہ عنہ- کے لشکر کے مقابلے میں۔ چنانچہ مسند احمد کی روایت ہے: فَلَمَّا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِأَهْلِ الشَّامِ اعْتَصَمُوا بِتَلٍّ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِيَةَ: أَرْسِلْ إِلَى عَلِيٍّ بِمُصْحَفٍ وَادْعُهُ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّهُ لَنْ يَأْبَى عَلَيْكَ. (جب اہل شام کے کشتوں کے پشتے لگ گئے تو انہوں نے ایک ٹیلے پر پناہ لے لی، اور عمرو بن العاصؓ نے معاویہؓ کو مشورہ دیا کہ علیؓ کے پاس مصحف دے بھیجیں اور انہیں کتاب اللہ کی طرف دعوت دیں، وہ اس سے انکار نہیں کرسکیں گے)۔ (مسند احمد 15975)
اس روایت کو شیخ ارناؤوط نے شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ پھر باقی روایت میں سیدنا علیؓ کا اس پیغام کو قبول کرنے اور خوارج وغیرہ کے رد عمل کا ذکر ہے۔
ظاہر ہے حضرت عمرو بن العاصؓ نے لڑائی کے ایک دور کے بعد جو یہ مشورہ دیا تو ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ حضرت علیؓ کے لشکر کو مغلوب نہیں کرسکتے۔ اور یہ فطری امر ہے کہ ریاست کے مقابلے میں صرف ایک علاقے کے لوگ کبھی غلبہ نہیں پا سکتے۔ چناں چہ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: حضرت علی -رضی اللہ عنہ- کی بیعتِ خلافت، حضرت عثمان -رضی اللہ عنہ- کی شہادت کے بعد 35 ہجری میں ماہ ذی الحجہ کے شروع میں ہوئی، تمام مہاجرین وانصار اور جملہ حاضرین نے آپ کی بیعت کی، اُنہوں نے تمام اطراف میں اپنی بیعت سے متعلق لکھ بھیجا، سب نے سرِ تسلیم خم کیا، سوائے اہلِ شام میں سے حضرت معاویہ ؓ کے، سو اُن کے مابین وہ ہوا جو ہوا۔ (فتح الباري 7/ 72)
اس کے بعد سیدنا علیؓ بنفس نفیس کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔
اسی طرح جب سیدنا حسنؓ اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے تو حضرت عمروؓ نے امیر معاویہؓ سے جو کچھ فرمایا، وہ خود ملاحظہ کر لیجیے. صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی -رضی اللہ عنہما- (معاویہؓ کے مقابلے میں) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاصؓ نے کہا (جو امیر معاویہؓ کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مدِ مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہیں جائے گا! (صحیح بخاری 2704)
حالانکہ خود سیدنا حسنؓ جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے تھے، جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے: وَلَمْ يَكُنْ فِي نِيَّةِ الْحَسَنِ أَنْ يُقَاتِلَ أَحَدًا، وَلَكِنْ غَلَبُوهُ عَلَى رَأْيِهِ، فَاجْتَمَعُوا اجْتِمَاعًا عَظِيمًا لَمْ يُسْمَعْ بِمِثْلِهِ … (سیدنا حسنؓ کا کسی سے قتال کا ارادہ نہیں تھا، لیکن ان کے ساتھیوں کی راے ان کی راے پر غالب آگئی اور (فوج کا) اتنا بڑا اکٹھ ہوا کہ اس جیسے اکٹھ کا کسی نے سنا تک نہیں تھا۔ بلکہ قیس بن سعدؓ جو آذربائجان کے گورنر تھے صرف انہی کے پاس چالیس ہزار کا لشکر تھا)۔ (البدایہ والنھایہ)
اگر سیدنا حسنؓ نے جنگ کے ارادے سے لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا ہوتا تو یہ لشکر کئی گنا زیادہ بڑھ جاتا۔
تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسنؓ کا لشکر کوئی 50 سے 60 ہزار کے درمیان تھا اور امیر معاویہؓ کا لشکر 20 سے 30 ہزار کے درمیان تھا، خود حضرت عمروؓ بن عاص کے بقول: پہاڑ جیسا لشکر یعنی حسن رضی اللہ عنہ کا لشکر کئی گنا بڑا تھا جسے قطعًا شکست نہیں دی جاسکتی تھی۔ نیز حدیث میں بھی صلح کا ذکر ہے اور غلبہ پانا/ شکست دینا اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔
اگر حضرت معاویہ کے ساتھ سیدنا حسن نے صلح نہ کی ہوتی اور کشمکش مسلسل جاری رکھتے تو کیا امیر معاویہ کے لیے ایک مستحکم حکومت حاصل کرنا ممکن تھا؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہی ہوگا۔ لہذا جس لڑائی کو لڑنے کے لیے سیدنا علی خود دوبارہ شریک نہ ہوئے بلکہ اپنی توجہ خوا۔رج کی سرکوبی پر مرکوز کردی، اور اس فتنے کا قلع قمع کیا، پھر سیدنا حسن اہلِ شام سے صلح کر کے حکومت سے دست بردار ہوگئے اور رسول اللہ صلی الله علیه وسلم نے ہر دو مواقع پر انہی دونوں باپ بیٹے کے مواقف کی تعریف فرمائی تھی، کیا ان اقدامات کے بغیر آئندہ کسی کے لیے مستحکم حکومت کا قیام ممکن تھا؟ کیا سیدنا حسن صلح نہ کرتے تو سارے لوگ امیر معاویہ کی بیعت پر متفق ہوجاتے؟ اگر کسی کو استحکام ملا ہے تو وہ بھی آل علی کے فیصلوں کی وجہ سے ہی ملا ہے اور جو سیدنا علی کے سیاسی مخالف رہے تو ان کو بھی علماء اہل سنت نے اجتہادی خطا کا مرتکب قرار دیا ہے، گویا وہ سیدنا علی کی بیعت نہ کرنے میں حق بجانب نہیں تھے، جس میں ظاہر ہے کہ سیدنا علی کی کوئی غلطی نہیں تھی، عند الله وہ حق بجانب ہی ہیں۔ البتہ انہوں نے اپنی توجہ ان کی طرف کردی جو ”فریقین“ کے دشمن تھے، یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں بالآخر شہید ہوگئے۔ گویا خوارج کے فتنے سے بھی دوسرے فریق کو (اور مسلم امت کو) سیدنا علی نے ہی بچایا اور ان کے اقتدار کے استحکام کی راہ یہاں سے بھی ہموار ہوئی۔
آل علی کے سیاسی اثرات کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ صحابہ کی بڑی تعداد کے مقابلے میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اکیلے ڈٹے رہنے سے تاریخ کا پورا منظر نامہ ہی بدل گیا اور بیس سال کا استحکام پے درپے مخالفتوں میں بدل گیا، جب کہ یہ استحکام بھی محض آل علی کی صلح سے ممکن ہوا تھا، اور حضرت معاویہ کے بعد یزید کی تین سالہ حکومت خلفشار کا ہی شکار رہی، پھر یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید نے خود ہی حکومت چھوڑ دی اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے 9 سال حکومت کی، یہ بات آپ کو کوئی ناصـ۔ـبی کبھی نہیں بتائے گا، پھر کم و بیش ایک صدی کی جھڑپوں کے بعد آل علی سے ہمدردی کا اظہار کرنے والوں نے اموی تخت کو مکمل طور پر الٹ دیا تھا۔ جب کہ درمیان میں حجاج اور ابن زیاد جیسے سفاک ترین لوگ امویوں کے وزراء رہے لیکن آل علی کے سیاسی اثر و رسوخ نے دم نہیں توڑا۔ لہذا ان حقائق کو نظر انداز کر کے محض ناصـ۔ـبیت سے متاثر ہو کر کوئی تجزیہ کرنا، نہ صرف شرعی احکام وحقائق کے ساتھ دست اندازی ہے، بلکہ تاریخ کا بھی قـ۔تل ہے۔

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…