خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف

Published On April 18, 2024
سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں محترم غامدی صاحب علم کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک حرف غلط قرار دے کر غیر مفید و لایعنی علم کہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفے کی دنیا میں افکار کے تین ادوار گزرے ہیں:۔ - پہلا دور وہ تھا جب وجود کو بنیادی حیثیت دی گئی...

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین...

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

جہانگیر حنیف کلام کے درست فہم کا فارمولہ متکلم + کلام ہے۔ قاری محض کلام تک محدود رہے، یہ غلط ہے اور اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ کلام کو خود مکتفی قرار دینے والے حضرات کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اولا کسی بھی تاریخی اور مذہبی متن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور...

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں...

ابو عمار زاہد الراشدی

محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک تازہ مضمون میں انکشاف فرمایا ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ بعد میں مسلمانوں نے اپنے نظام حکمرانی کے لیے یہ اصطلاح اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے ساتھ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے بنانے سے دینی اصطلاحات نہیں بنتیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے بنانے سے بنتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ اگر کوئی دینی اصطلاح مذکورہ بالا بزرگوں سے نہیں بنتیں تو خود غامدی صاحب کی ان اصطلاحات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے جو انہوں نے قرآن و سنت اور فقہی اصولوں کے حوالہ سے از خود طے کر لی ہیں اور ان کی بنیاد پر وہ ایک عرصہ سے اسلام کے نظریاتی، علمی اور فقہی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن یا اکھاڑ پچھاڑ میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں تسلسل کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔

ہم اس بحث میں پڑے بغیر غامدی صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ حضور والا ! مسلمان حکمران کے لیے ’’خلیفہ‘‘ کی اصطلاح اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کی ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی جا بجا ملتا ہے۔ سورہ ص کی آیت ۲۶ کا غامدی صاحب نے اس مضمون میں خود حوالہ دیا ہے اور اس کا ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر دہلویؒ کے قلم سے یہ نقل کیا ہے:

’’اے داؤد! ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں، سو تو حکومت کر لوگوں میں انصاف سے۔‘‘

اگر وہ صرف ترجمہ دیکھنے کی بجائے قرآن کریم کے اصل متن کو بھی دیکھ لیتے تو انہیں انا جعلناک خلیفۃ ارشاد باری تعالیٰ میں نظر آجاتا جس کا ترجمہ ’’نائب‘‘ کیا گیا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ ترجمہ کا لفظ تو محترم غامدی صاحب کے ہاں قابل استدلال ہے مگر قرآن کریم میں ’’خلیفہ‘‘ کے صریح لفظ کو انہوں نے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے اس لیے لوگوں میں انصاف کے ساتھ حکومت کرنا۔ یہاں حکومت کرنے والے کو خلیفہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے اور خلیفہ کی یہ حیثیت متعین فرما دی ہے کہ اس کا کام حکومت کرنا ہے۔ غامدی صاحب محترم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا حوالہ بھی دیا ہے کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کرتے تھے لیکن میرے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے ان کی جگہ اب ’’خلفاء‘‘ لیں گے۔ حدیث میں صراحتاً خلفاء کا لفظ ہے جس کا ترجمہ حکمران کر کے غامدی صاحب نے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مگر خلیفہ کا ترجمہ حکمران کر کے خود انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ مسلمان حکمران جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق بھی خلیفہ ہی کہلاتا ہے۔

اس حدیث کی سند میں کچھ کلام کی بات بھی انہوں نے فرمائی ہے حالانکہ یہ حدیث بخاری شریف اور مسلم شریف دونوں میں موجود ہے۔ اور غامدی صاحب کو حدیث و سنت کے بارے میں یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بخاری اور مسلم کی مشترکہ روایت کو محدثین کے ہاں ’’متفق علیہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی سند پر کسی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمیں غامدی صاحب کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ ہی کہا جاتا تھا اور ان کا سرکاری منصب ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کا عنوان رکھتا تھا۔ قاضی ابو یعلیٰؒ نے ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک بار کسی شخص نے حضرت صدیق اکبرؓ کو ’’یا خلیفۃ اللہ‘‘ کہا تو انہوں نے فورًا یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم، احادیث نبویہؐ، اور حضرت صدیق اکبرؓ کے اس ارشاد کی بنیاد پر ہی فقہاء کرامؒ نے خلیفہ کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ وہ مسلم حکمران خلیفہ کہلاتا ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی (ریاستی و حکومتی) امور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے سر انجام دیتا ہے۔

خلافت کے مفہوم اور اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں کم و بیش تمام فقہاء کرام نے بحث کی ہے۔ اور فقہاء کرام جس مسئلہ پر بحث کرتے ہیں وہ ان کا خود ساختہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کے شرعی اصولوں پر ہوتی ہے۔ مگر تعجب اس بات پر ہے کہ غامدی صاحب جس استدلال و استنباط اور تعبیر و تشریح کا حق امت کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کو کراس کرتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنے لیے طلب کر رہے ہیں، وہ اس کا حق غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے لیے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، حتیٰ کہ جمہور فقہاء امت کو بھی یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

خلافت کے بارے میں حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی مستقل تصنیف ’’ازالۃ الخفاء‘‘ میں تفصیلی بحث کی ہے اور اس کا اردو ترجمہ دلچسپی رکھنے والوں کے لیے دستیاب ہے۔ ہم اس کا صرف ایک پہلو اپنے موضوع کے حوالہ سے یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ خلافت کا قیام امت مسلمہ کے اجتماعی دینی فرائض میں سے ہے۔ اگر امت میں خلافت کا کوئی نظام سرے سے موجود نہ ہو تو پوری امت ایک شرعی فریضہ کی تارک اور گنہ گار قرار پاتی ہے۔ خلافت کے شرعاً فرض ہونے پر حضرت شاہ صاحبؒ نے جو دلائل دیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے احکام پر عمل درآمد حکومتی نظم پر موقوف ہے۔ جیسا کہ جہاد کے حوالہ سے خود غامدی صاحب کا موقف بھی یہ ہے کہ وہ حکومت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ تو قرآن کریم کے بہت سے احکام کا حکومت کے قیام پر موقوف ہونا اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ایک ایسی حکومت موجود ہو جو قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہو۔ جبکہ خلافت کے واجب ہونے پر شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دوسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امت کا سب سے پہلا اجماع اسی خلافت کے قیام پر ہوا تھا۔ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین پر بھی اسے مقدم کیا گیا تھا۔

جہاں تک خلافت کے احیا و قیام کے حوالہ سے مختلف تحریکات کے طریق کار کی بات ہے اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور خود ہم نے بھی متعدد بار اس اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ لیکن آج کی تحریکات کے طرز عمل اور طریق کار سے اختلاف کی وجہ سے خلافت کی شرعی حیثیت اور اس کی ضرورت و اہمیت ہی سے انکار کر دینا قرآن و سنت اور امت مسلمہ کی مسلمہ علمی روایت کے مطابق نہیں ہے، اور نہ ہی امت مسلمہ کی موجودہ معروضی صورت حال اور اس کے حال و مستقبل کی ضروریات سے کوئی مناسبت رکھتا ہے۔

 

https://zahidrashdi.org/455

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…