رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب

Published On April 25, 2024
لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ دوم تنقید)

لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ دوم تنقید)

مفتی منیب الرحمن جنابِ غلام احمد پرویز علامہ اقبال کا یہ شعر نقل کرتے ہیں :۔ چوں فنا اندر رضائے حق شود  بندۂ مومن قضائے حق شود  یعنی جب بندہ اللہ کی رضا میں فنا ہوجاتا ہے تو وہ حق کی قضا بن جاتا ہے ‘ وہ ا لنّہایہ لابن اثیر سے حضرت عمر ِ فاروقؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں...

لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ اول تمہید)

لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ اول تمہید)

مفتی منیب الرحمن دعا بندے اور رب کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو کسی ضابطے کا پابند نہیں ہے‘ نہ نماز کی طرح اس میں عربی زبان کا التزام ہے۔ الغرض بندے کی زبان کوئی بھی ہوحتیٰ کہ گونگا بھی ہو‘ وہ اپنے رب سے براہِ راست التجا کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دعا کی...

تفہیمِ اسلام : دو تعبیرات اتمامِ حجت اور سنت

تفہیمِ اسلام : دو تعبیرات اتمامِ حجت اور سنت

ناقد : کاشف علی تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے جزئیات پر بات نہیں ہو سکتی ۔ دین کی دو تعبیرات ہیں ۔ ایک تعبیر کے مطابق اسلام سیاسی سسٹم دیتا ہے ۔ لیکن غامدی صاحب دوسری تعبیر کے نمائندہ ہیں کہ اسلام کوئی سسٹم نہیں دیتا ۔ دونوں تعبیرات کے مطابق نیچے کی جزئیات مختلف ہو...

منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد

منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد

ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن اول ۔ یہ کہنا کہ جمعہ کا منبر علماء سے واپس لے لینا چائیے کیونکہ اسلامی تاریخی میں جمعہ کے منبر کا علماء کے پاس ہونا کہیں ثابت نہیں ہے ، یہ سربراہِ مملکت کا حق ہے اور علماء   غداری کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ ان ظالموں کی منطق بالکل...

علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ  : قسط دوم

علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ : قسط دوم

مفتی منیب الرحم علامہ غامدی نے کہا: ''میں نے بارہا عرض کیا : جامع مسجد ریاست کے کنٹرول میں ہونی چاہیے ،دنیا بھر میں ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے ،ملائشیا میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،عرب ممالک میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،ہمارے ملک میں نہیں ہے ، ریاست یہ اِقدام نہیں...

علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ  : قسط اول

علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ : قسط اول

مفتی منیب الرحمن ۔13مارچ کومیں نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میںمختصر بات کی ،اُس کے بعد علامہ جاوید احمد غامدی کو اپنی بات تفصیل سے کہنے کا موقع دیا گیا ۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بیانیہ جدید دور کی اصطلاح ہے ۔اصولی طور پر کسی ملک وقوم کا دستور ہی اُس کا اجتماعی...

ابو عمار زاہد الراشدی

ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا یہ ارشاد گزشتہ کالم میں پیش کر چکے ہیں کہ سنت ان کے نزدیک دین ابراہیمیؑ کی کسی ایسی روایت کے تسلسل کا نام ہے جسے جناب نبی اکرمؐ نے بھی مناسب ترمیم و اضافہ کے ساتھ باقی رکھا ہو۔ ان کے اس ارشاد کی کسوٹی پر ہم رجم کی شرعی حیثیت کے مسئلہ کو پرکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بات واضح کر سکیں کہ غامدی صاحب محترم اور ان کے رفقاء رجم کے معاملہ میں خود اپنے قائم کردہ اصول پر قائم نہیں رہ سکے۔

رجم کے لفظی معنی سنگسار کرنا ہے یعنی کسی شخص کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دینا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں متعدد جرائم کی شرعی سزا کے طور پر بطور قانون رائج تھا۔ مثلاً

شرک اور بت پرستی کے لیے سنگسار کرنے کی سزا تھی۔ (بحوالہ استثناء ۷/۱۷)

ہفتہ کے دن کی بے حرمتی پر سنگسار کی سزا تھی۔ (گنتی ۳۶-۳۲/۱۵)

جادوگر کے لیے سنگسار کی سزا تھی۔ (احبار ۲۷/۲۰)

اللہ تعالیٰ کی توہین پر سنگسار کی سزا تھی۔ (احبار ۱۴-۱۳/۲۴)

غیر اللہ کی نذر ماننے والے کے لیے سنگسار کی سزا تھی۔ (احبار ۲-۱/۲۰)

اسی طرح شادی شدہ مرد یا عورت کے زنا کا مرتکب ہونے پر بھی اس کے لیے شرعی سزا یہ تھی کہ اسے برسرعام سنگسار کر دیا جائے۔ چنانچہ توریت کی کتاب استثناء باب ۲۲ آیت ۲۲ میں ہے کہ

’’اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے ہوئے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں، یعنی وہ مرد بھی جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔‘‘

اس کی تائید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل میں بھی ہے جیسا کہ انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۳ میں ہے کہ

’’اور فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی، اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا اے استاذ ! یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے، توریت میں موسیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں پس تو اس عورت کے بارے میں کیا کہتا ہے؟‘‘

اس کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دین ابراہیمیؑ کی اس مسلسل روایت کی توثیق فرمائی۔ چنانچہ امام بخاریؒ صحیح بخاری کی کتاب الحدود میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کرتے ہیں۔ یہ روایت بخاری شریف کے پانچ چھ دیگر مقامات میں بھی موجود ہے اور ان سب روایات کو سامنے رکھتے ہوئے واقعہ کی ترتیب یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں ایک یہودی جوڑا یعنی مرد اور عورت زنا کے مجرم کے طور پر پیش کیے گئے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میں تمہاری کتاب کے مطابق اس مقدمہ کا فیصلہ کروں گا اور خود یہود کے علماء سے دریافت کیا کہ تمہارے ہاں اس جرم کی سزا کیا ہے؟ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں زنا کی سزا یہ ہے کہ دونوں کا منہ کالا کر کے پھرایا جائے اور کوڑے مارے جائیں۔ آنحضرتؐ نے پوچھا کہ کیا تمہارے دین میں اس کی سزا رجم (سنگسار کرنا) نہیں ہے؟ یہودی علماء نے جواب دیا کہ نہیں۔

اس پر مجلس میں موجود حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ! یہ جھوٹ بولتے ہیں، تورات میں زنا کی سزا سنگسار کرنا ہی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ یہود کے بڑے علماء میں سے تھے جو مسلمان ہوگئے تھے اور صحابی رسول تھے۔ ان کے کہنے پر آپؐ نے یہودی علماء کو تورات لانے کے لیے کہا، تورات لائی گئی اور ایک یہودی عالم نے اس کا متعلقہ حصہ پڑھنا شروع کیا مگر اس طرح کہ رجم والی آیت پر اس نے ہاتھ رکھ دیا اور آگے پیچھے پڑھتا رہا۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ جھٹکا اور وہ آیت پڑھی جس میں زنا کی سزا رجم بیان کی گئی ہے۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے اس یہودی جوڑے کو سنگسار کر دیا۔

اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسلمانوں کے ایک سے زیادہ کیس آئے جن میں آپؐ نے زنا کے شادی شدہ مرتکب حضرات کو سنگسار کرنے کی سزا دی۔ پھر خلفائے راشدینؓ کے زمانہ میں اس سزا کا تسلسل باقی رہا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق امیر المومنین حضرت عمرؓ نے خطبہ جمعہ میں اس بات کا اعلان کیا کہ کتاب اللہ کی رو سے شادی شدہ مرد یا عورت کے لیے زنا کی سزا رجم کرنا ہی ہے اور کوئی شخص اس کے بارے میں کسی شک و شبہ کا شکار نہ ہو۔ پھر بخاری شریف ہی کی روایت کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دور خلافت میں زنا کے ایک کیس میں رجم کی سزا دی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میں یہ سزا جناب نبی اکرمؐ کی سنت کے مطابق دے رہا ہوں۔ اس کے بعد امت کے جمہور اہل علم کا یہی موقف رہا ہے اور چودہ سو سال کے دوران جہاں بھی حدود شرعیہ نافذ ہوئی ہیں وہاں شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے زنا کی سزا یہی نافذ رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دین ابراہیمیؑ کی یہ روایت جس کا ذکر تورات میں موجود ہے، انجیل اس کی تصدیق کرتی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے نہ صرف اس کی تصدیق کی بلکہ اسے بطور قانون نافذ کر کے اس کے تسلسل کو برقرار رکھا، اور امت میں بھی چودہ سو سال سے یہی سزا ’’شرعی حد‘‘ کے طور پر متعارف چلی آرہی ہے۔ پھر دین ابراہیمیؑ کا یہ تاریخی اور اجماعی تعامل آخر غامدی صاحب کے ہاں کیوں قابل قبول نہیں ہے؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…