سیدہ عائشہ کا نکاح : غامدی صاحب کے سوال کا جواب

Published On May 21, 2024
غامدی صاحب اور حدیث

غامدی صاحب اور حدیث

مقدمہ 1: غامدی صاحب اپنا ایک اصول حدیث لکھتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم 'حدیث' کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔" (...

غامدی صاحب اور شرعی پردہ

غامدی صاحب اور شرعی پردہ

عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں :کبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورنبوی کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں ان کے بارے میں...

غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كی مستند احادیث كى بنا پر علماے امت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے،  كتب ِاحاديث اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ،  ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدوں کیخلاف...

قرآن اور غامدی صاحب

قرآن اور غامدی صاحب

ایک تحریر میں ہم غامدی صاحب کی قرآن کی معنوی تحریف کی چند مثالیں پیش کرچکے مزید ایک تشریح ملاحظہ فرمائیں۔غامدى صاحب 'اسلام كے حدود و تعزيرات' پر خامہ سرائى كرتے ہوئے لكھتے ہيں: "موت كى سزا قرآن كى رو سے قتل اور فساد فى الارض كے سوا كسى جرم ميں نہيں دى جاسكتى- اللہ...

رجم کی حد اور غامدی صاحب

رجم کی حد اور غامدی صاحب

اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے  اس پر دس سے زائد صحیح احادیث موجود ہیں  جن سے  واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ ۔ غامدی صاحب اسکے انکاری ہیں ۔ وہ...

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔ جمعے کی نماز کی عدمِ فرضیت پر جناب کا استدلال ہے کہ مسلم ریاست میں خطبہ سربراہِ ریاست یا اسکے حکم سے اسکے نمائندے کا حق...

حافظ زبیر علی زئی

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی تجویز کس نے پیش کی تھی، اس کے بارے میں جاوید احمد غامدی صاحب نے لکھا ہے:

’’روایات بالکل واضح ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ کے نکاح کی تجویز ایک صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم نے پیش کی۔ اُنھی نے آپ کو توجہ دلائی کہ سیدہ خدیجہ کی رفاقت سے محرومی کے بعد آپ کی ضرورت ہے کہ آپ شادی کر لیں، یا رسول اللّٰہ، کانی اراک قد دخلتک خلۃ لفقد خدیجۃ… افلا اخطب علیک؟، (الطبقات الکبریٰ ، ابن سعد ۸/۵۷)

آپ کے پوچھنے پر اُنھی نے آپ کو بتایا کہ آپ چاہیں تو کنواری بھی ہے اور شوہر دیدہ بھی ۔ آپ نے پوچھا کہ کنواری کون ہے، تو اُنھی نے وضاحت کی کہ کنواری سے اُن کی مراد عائشہ بنت ابی بکر ہیں۔ (احمد بن حنبل ، رقم ۲۵۲۴۱)

بیوی کی ضرورت زن و شو کے تعلق کے لیے ہو سکتی ہے، دوستی اور رفاقت کے لیے ہو سکتی ہے، بچوں کی نگہداشت اور گھر بار کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ہو سکتی ہے۔

یہ تجویز اگر بقائمی ہوش و حواس پیش کی گئی تھی تو سوال یہ ہے کہ چھ سال کی ایک بچی ان میں سے کون سی ضرورت پوری کر سکتی تھی، کیا گھر بار کے معاملات سنبھال سکتی تھی؟ سیدہ کی عمر کے متعلق روایتوں کے بارے میں فیصلے کے لیے یہ قرائن میں سے ایک قرینہ نہیں، بلکہ ایک بنیادی سوال ہے۔ ‘‘ (ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ،جولائی ۲۰۱۲ء ص ۲۶)

عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہ ’’روایات‘‘ نہیں بلکہ صرف ایک حسن غریب روایت ہے جسے ابن سعد اور امام احمد بن حنبل (ج۶ص ۲۱۰۔۲۱۱، موسوعہ حدیثیہ ج۴۲ ص ۵۰۱۔ ۵۰۴ ح ۲۵۷۶۹) وغیرہما نے محمد بن عمرو (بن علقمہ اللیثی ) عن ابی سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف و یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب کی سند سے بیان کیا ہے۔

محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی رحمہ اللہ مختلف فیہ راوی، لیکن جمہور کی توثیق کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث ہیں۔

روایت کے متصل یا مرسل ہونے کے بارے میں بھی اختلاف ہے ، حافظ ہیثمی نے اس روایت کے اکثر حصے کو مرسل قرار دیا ہے، جبکہ حافظ ابن حجر العسقلانی کے نزدیک اس کی سندحسن (یعنی متصل) ہے۔ 

(دیکھئے مجمع الزوائد ج۹ص ۲۲۵۔ ۲۲۶، فتح الباری ج۷ص ۲۲۵ تحت ح ۳۸۹۶)

ہمارے نزدیک حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہاں تحقیق راجح ہے اور یہ سند ’’حسن لذاتہ غریب ‘‘ہے۔

طبقات ابن سعد اور مسند احمد دونوں کتابوں میں اسی روایت کے متن میں صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ ’’وعائشہ یومئذ بنت ست سنین‘‘ (اور اس دن عائشہ چھ سال کی بچی تھیں)۔

اس صریح عبارت کو چھپا کر غامدی صاحب نے خیانت کی ہے، لہٰذا ان پر یہ فرض ہے کہ وہ اس خیانت سے توبہ کا اعلان کریں اور ان کا اشارتاًیہ لکھ دینا کافی نہیں کہ ’’روایت کا یہ داخلی تضاد کس طرح دور کیا جائے گا؟ 

اگر یہ روایت متضاد ہے تو ضعیف کی اؓیک قسم ہوئی اور اس سے استدلال حجت نہ رہا، لہٰذا صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہما کی حدیث کے مقابلے میں اسے پیش کرنا فضول ہے اور اگر یہ روایت حسن ہے تو صریح عبارت کے مقابلے میں غامدی صاحب کے خود تراشیدہ مفہوم کی کیا حیثیت ہے؟

اصل بات یہ ہے کہ جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیحد پریشان رہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تحت سیدہ خولہؓ نے آپ کو دو شادیاں کرنے کا مشورہ دیا، جسے آپ نے قبول فرما لیا۔

اول ۔ سودہ رضی اللہ عنہا

دوم ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا

بچیوں کی دیکھ بھال، رفاقت اور دوسرے اُمور کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ سے تین سال یا کچھ زیادہ عرصے پہلے ہی شادی کر لی اور اس کے کچھ عرصہ بعد سیدہ عائشہؓ سے نسبت طے پا گئی، یا نکاح ہو گیا اور ۲ ہجری میں رخصتی ہوئی۔ (نیز دیکھئے سیر اعلام النبلاء ۲/ ۲۶۵، ۱۳۵)

یہاں ایسی کسی بات کا نام نشان تک نہیں کہ سیدہ خولہ  نے سیدہ سودہ یا سیدہ عائشہؓ (یعنی دو میں سے کسی ایک ) سے نکاح کا مشورہ دیا تھا ، بلکہ انھوں نے دونوں سے شادی کا مشورہ دیا تھا۔

اول ۔ ایک (سودہ رضی اللہ عنہا)سے فوراً تاکہ آپ کو رفاقت حاصل ہو جائے۔

دوم ۔ دوسری(عائشہ رضی اللہ عنہا) سے بعد میں تاکہ وہ آپ کی گھریلو زندگی اور علم کا بہت بڑا ذخیرہ یاد کر لیں اور دو ہزار سے زیادہ حدیثوں کا گلدستہ اُمت کے سامنے پیش کر دیں۔

یاد رہے کہ روایت میں ’’إن شئت بکرًا و إن شئت ثیبًا‘‘ کے الفا ظ ہیں، یعنی اگر آپ چاہیں تو ایک بکر (لڑکی) اور اگر آپ چاہیں تو ایک ثیب (شوہر دیدہ) اور یہ الفاظ ہر گز نہیں کہ ’’إن شئت بکرًا، أو إن شئت ثیبًا‘‘ یعنی اگر آپ چاہیں تو ایک لڑکی، یا اگر آپ چاہیں تو ایک شوہر دیدہ عورت ہے۔

یہاں او (یا) اختیاری نہیں بلکہ واؤ ہے، نیز اس روایت میں دونوں سے فوراً (اسی وقت) نکاح کی صراحت بھی ہر گز موجود نہیں۔

عربی میں بکر (الجاریۃ) اس لڑکی کو کہا جاتا ہے جس سے جماع نہ کیا گیا ہو۔ (دیکھیے: لسان العرب ج۴ص ۷۸ ب مادہ : بکر)

آخر میں عرض ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خود بتایا ہے کہ ان کا نکاح چھ یا سات سال کی عمر میں اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ یہ گواہی درج ذیل شاگردوں نے ان سے نقل فرمائی ہے:

اول ۔ عروۃ بن الزبیر رحمہ اللہ ، جو سیدہ عائشہ کے بھانجے تھے۔ (صحیح بخاری: ۳۸۹۶، صحیح مسلم :۱۴۲۲)

دوم ۔ اسود بن یزید رحمہ اللہ (صحیح مسلم :۱۴۲۲)

سوم ۔ عبد اللہ بن صفوان رحمہ اللہ ( المستدرک للحاکم ۴/ ۱۰ ح ۶۷۳۰ وسندہ صحیح و صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی)

چہارم ۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ ( سنن النسائی ۶/ ۱۳۱ ح ۳۳۸۱ وسندہ حسن)

پنجم ۔  یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب رحمہ اللہ ( مسند ابی یعلیٰ : ۴۶۷۳ وسندہ حسن)

درج ذیل تابعین کرام سے بھی اس مفہوم کے صریح اقوال ثابت ہیں:

اول ۔ عروۃ بن الزبیر رحمہ اللہ ( صحیح بخاری : ۳۸۹۶، طبقات ابن سعد ۸/ ۶۰ وسندہ صحیح)

دوم ۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ ( مسند احمد ۶/ ۲۱۱ ح ۲۵۷۶۹ وسندہ حسن)

سوم ۔  یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب رحمہ اللہ (ایضاً وسندہ حسن)

چہارم ۔  ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ (المعجم الکبیر للطبرانی ۲۳/۲۶ح ۶۲ وسندہ حسن)

پنجم ۔  زہری رحمہ اللہ (طبقات ابن سعد ۸/۶۰ وھو حسن)

بلکہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس بارے میں لکھا ہے

’’ما لا خلاف فیہ بین الناس‘‘ اور لوگوں میں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں۔ (البدایہ والنہایہ ۳/ ۱۲۹، دوسرا نسخہ: ۳/۳۷۵)

کیا غامدی صاحب اور ان کے تمام حواری کسی صحیح یا حسن لذاتہ حدیث، صحیح و ثابت قولِ صحابی، صحیح و ثابت قولِ تابعی یا خیر القرون کے کسی ثقہ امام سے صراحتاً یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت اُن کی عمر چھ سال یا سات سال نہیں تھی اور ان کی رخصتی کے وقت نو سال عمر نہیں تھی؟

صرف ایک صحیح و صریح حوالہ پیش کریں اور اگر نہ کر سکیں تو توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ 

قارئین کرام کی خدمت میں بطورِ فائدہ عرض ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک حدیث (خ ۳۸۹۵، م ۲۴۳۸) سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نکاح کو اللہ کی طرف سے سمجھتے تھے۔ 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…