غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 46)

Published On March 13, 2024
کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

کیا علمِ کلام ناگزیر نہیں ؟ غامدی صاحب کے دعوے کا تجزیہ

ڈاکٹر زاہد مغل غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ علم کلام ناگزیر علم نہیں اس لئے کہ قرآن تک پہنچنے کے جس استدلال کی متکلمین بات کرتے ہیں وہ قرآن سے ماخوذ نہیں نیز قرآن نے اس بارے میں خود ہی طریقہ بتا دیا ہے۔ مزید یہ کہ علم کلام کا حاصل دلیل حدوث ہے جس کا پہلا مقدمہ (عالم حادث...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب اب اس باب سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو غامدی صاحب نے ’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید میں لکھا۔ یہاں بھی انھیں بقول ان کے شاگردوں کے، کم از کم یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ڈاکٹر...

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (1)

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے داماد نے یکسر جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہایت بے دردی کے ساتھ، اور ہاتھ نچا نچا کر جس طرح فلسطین کے مسئلے پر ہفوات پیش کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی، اس پر گرفت کریں، تو غامدی صاحب کے مریدانِ باصفا اخلاقیات کی دُہائی...

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

فلسطین ، غامدی صاحب اورانکے شاگردِ رشید

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!۔ فلسطین کے مسئلے پر غامدی صاحب اور ان کے داماد جناب حسن الیاس نے جس طرح کا مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو حیرت کے ساتھ دکھ میں مبتلا کیا ہے، غزہ میں ہونے والی بدترین نسل کشی پر پوری دنیا مذمت...

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

تصور حديث اور غامدی صاحب کے اسلاف (3)

حسان بن علی جیسا کہ عرض کیا کہ غامدی صاحب احکام میں حدیث کی استقلالی حجیت کے قائل نہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں "یہ چیز حدیث کے دائرے میں ہی نہیں آتی کہ وہ دین میں کسی نئے حکم کا ماخذ بن سکے" (ميزان) جیسے سود دینے والے کی مذمت میں اگرچہ حدیث صراحتا بیان ہوئی ليكن غامدی...

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

تصورِ حدیث اور غامدی صاحب کے اسلاف (2)

حسان بن علی اور یہ واضح رہے کہ انکارِ حجیتِ حدیث کے حوالے سے غلام احمد پرویز، اسی طرح عبداللہ چکڑالوی کا درجہ ایک سا ہے کہ وہ اسے کسی طور دین میں حجت ماننے کے لیے تیار نہیں (غلام احمد پرویز حديث کو صرف سیرت کی باب میں قبول کرتے ہیں، دیکھیے کتاب مقام حدیث) اور اس سے کم...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی انہی مذکورہ مردوں اورعورتوں کے متعلق آگے  لکھتے ہیں کہ ،، اس لیے ان میں سے جو اپنے حالات کے لحاظ سے نرمی کی مستحق ہیں ، انہیں زنا کے جرم میں سورہِ نور کی آیت (2) کے تحت سوکوڑے اور معاشرے کو ان کے شروفساد سے بچانے کےلیے ان کی اوباشی کی پاداش میں سورہِ مائدہ کی (33) کے تحت نفی ، یعنی جلاوطنی کی سزادی جائے ، اسی طرح جن کے ساتھ کوئی نرمی برتنا ممکن نہیں ہے وہ اس آیت کے حکم  ان یقتّلوا کے تحت رجم کردی جائیں ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی قران کے مدعا میں ہرگزکوئی تبدیلی نہیں کرتا ( میزان ص 40) ہم اس درج عبارت کے حوالے سے دو باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں (1) پہلی بات یہ ہے جس کی ہم نے پہلے بھی کچھ وضاحت کی ہے کہ ،، فعلِ زنا ،،  اپنی ذاتی حیثیت میں گناہ اور قبیح فعل تو ضرور ہے جیساکہ قران وحدیث میں اس کی شناعت کا بیان اور اس کی سزامذکور ہے  مگر عام حالات میں اس کو ،، محاربہِ اللہ ورسول ،، قرارنہیں دیاجاسکتا ۔ان لوگوں نے اس پر ،، محاربہ اللہ ورسول  ،، کی تعریف منطبق کرنے کے لیے مختلف مقالات وکتابوں میں مختلف باتوں کا اضافہ کیا ہے۔ ہمارے لیے ان سب کا ایک ایک کرکے اس کا تجزیہ کرنا ناممکن ہے ۔گذارش دوبارہ یہ ہے کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو ،، عربی ادب اورلغت ،، کے شناورکہتے ہیں  ان سے درخواست ہے کہ وہ ہمیں ان سے یہ ثابت کرکے دکھائیں کہ فعلِ زنا ،، محاربہ ،، ہے ۔قران وسنت کے نصوص میں سینکڑوں جگہ زنا کا ذکر ہوا ہے   مگر کہیں بھی اس کے لیے ،، محاربہِ اللہ ورسول ،،  کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔اوراگر کوئی بر خود غلط شخص سورہِ مائدہ کی ان آیات سے اس بات پر استدلال کرتا ہے   تو یہ عین مصادرہ علی المطلوب ہے   جو منطق سے مالامال اور معقول لوگوں کا قطعا شیوہ نہیں ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی کا خود ساختہ تصورِ دین بھی عجیب ہے ۔معقول آدمی اسے پڑھ کر انگشت بدندان رہ جاتاہے کہ ، این چہ بوالعجبی است  ۔ احباب ادھر صرف ایک بات نوٹ کرلیں باقی باتیں اپنے اپنے محل میں آجائیں گی  ان شاءاللہ تعالی ۔ قران وسنت نے نماز ، زکوة ، روزہ ، حج ، سب کو  جیسا کہ معلوم ہےفرض قراردیا ہے ۔اسی طرح عورتوں کے لیے پردہ وحجاب کرنے ( یہاں اس کے حدود سے بحث نہیں ہے کہ اس میں کون کون سے اندام اوراعضاء داخل ہیں ) اورمردوں سے اختلاط رکھنے اورمشترک مجالس سے انہیں بچنے کا حکم فرمایا ہے جیساکہ ،، قل للمؤمنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ،، اور پھر فرمایا ھے کہ ،،  ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن ،، اورپھر سلبی طور پر بھی انہیں  یہی بات فرمائی ہے کہ ،، ولایبدین زینتھن الا ۔۔۔۔۔ ،، اور ،، ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن ،، وغیرہ ، ان آحکام سے معلوم ہوجاتا ہے کہ عورتوں کا باہر معاشرے میں بے پردہ ہو کرنکلنا وغیرہ ، یا پھر مخلوط مجالس میں مردوں کے ساتھ منہمک ہوجانا  ان کے لیے شرعا درست نہیں ہے ۔اسی طرح قران مجید نے نظامِ حکومت کی شرائط کا بھی سورہِ شوری ، اورسورہِ حج وغیرہ میں بیان فرمایاہے   جس کی پوری تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے   لیکن فقط ایک جزیہ سن لیں  کہ سورہِ حج میں اللہ تعالی نے فرمایا  ہے کہ ،، الذین ان مکناھم اقامواالصلوة وآتوالزکوة وامروابالمعروف ونھواعن المنکر وللہ عاقبة الامور ( الحج 31) اب محققین کے نزدیک جو بھی حکومت مثبت اورایجابی قانون بناتی ہے   تو وہ اس ،، امربالمعروف ،، کی تفصیل ہوگی   اور جو بھی وہ سزا اور زجر وغیرہ کے لیے قانون بنائے گی   تو وہ اس ،، نھی عن المنکر ،، کی تفصیل ہوگی۔ گویا اسلامی حکومت کے ایجابی اورسلبی قوانین کے ماخذ یہی دو جملے ہیں ۔ اب جناب غامدی ،، نھی عن المنکر ،، کی تعمیم کی حد تک عام علما کرام متفق سے ہیں   اس لیے سزاؤں کے مقرومعترف ہیں  جیساکہ اوپر ان کی عبارت میں درج ہے  مگر مثبت قوانین میں وہ صرف نماز ، و زکوة  کی حد تک ،، امر بالمعروف ،، کی تعمیم کے قائل ہیں یہاں پر جناب غامدی بعض لوگوں کی طرح بالکل ( جاوید کے بجائے ) ،، جامد ،، ہوگئے ہیں ۔باقی احکام چاہے وہ فرض و واجب ہی کیوں نہ ہوں   مگر ان کے لیے حکومت کوئی قانون نہیں بنا سکتی  ۔ جیسے روزہ اورحج ہیں ۔ اب حکومت کا ان احکام پربزورعمل کرانا جناب غامدی کی نگاہ میں شرعی حدود سے تجاوز ہے جو قطعا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح پردہ وحجاب پر زبردستی عمل کرانا یا عورتوں کو بذریعہِ قانون مردوں کے اختلاط سے محفوظ اور دور رکھنا ان کے نزدیک غیرشرعی کام ہے ۔ہاں عورتیں خود ان احکام پر عمل کریں توان پر کوئی قدغن نہیں ہے ۔ یہ باتیں جناب غامدی نے دو تین جگہ لکھی ہیں ،، دینی فرایض ،، نامی عنوان کے تحت بھی لکھی ہیں ، اور ،، شہریت اور اس کے حقوق ،،  کے عنوان کے تحت بھی لکھی ہیں ۔چونکہ اس دوسرے مقام کی عبارت ذرامختصرہے اس لیے ہم اسے نقل کرتے ہیں ۔ سورہِ توبہ کی آیت ،، فان تابوا واقاموالصلوة وآتوالزکوة فاخوانکم فی الدین ( توبہ 11، 5 ) اور بخاری ومسلم کی ایک حدیث ،، امرت ان اقاتل الناس حتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،، نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ،، یہ حکم مشرکینِ عرب کےلیے تھا   لیکن صاف واضح ہے کہ جن پرخدا کے رسول کی طرف سے اتمامِ حجت کیاگیا   جب ان سے براہِ راست خدا اور رسول کی حکومت میں کوئی مطالبہ اس سے زیادہ نہیں کیاگیا   تو بعد کے لوگوں سے بدرجہِ اولی نہیں کیا جاسکتا ۔ چناچہ شہریت کے حقوق وفرایض سے متعلق جوبنیادی اصول قران کی ان آیتوں سے متعین ہوتے ہیں وہ یہ ہیں (اول) یہ کہ جولوگ یہ تین شرطیں پوری کردیں اس سے قطع نظر کہ اللہ کے نزدیک ان کی حیثیت کیاہے ، قانون وسیاست کے لحاظ سے وہ مسلمان قرار پائیں گےاورتمام حقوق انہیں حاصل ہوجائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے  ان کی ریاست میں ان کو حاصل ہونے چاہئیں ( میزان ص 489)  اس سے اگے پھرابوبکر جصاص کی وہ عبارت نقل کرنے کے بعد  جو اصلا مولانا مودودی نے نقل کی ہے ، لکھتے ہیں کہ ،، اس سے واضح ہے کہ ریاست اپنے مسلمان شہریوں کو کسی جرم کے ارتکاب سے روک سکتی اور اس پر سزادے سکتی ہے  مگر دین کے ایجابی تقاضوں میں سے نماز اور زکوة کے علاوہ کسی چیز کو بھی قانون کی طاقت سے لوگوں پرنافذ نہیں کرسکتی ۔وہ مثال کے طور پر ، انہیں روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی ۔ ان میں سے کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوجانے کے باوجود کہ وہ صاحبِ استطاعت ہے ، اسے حج جانے پر مجبور نہیں کرسکتی ( میزان ص 490) تو جب منصوص فرائض جیسے حج اور روزہ وغیرہ کے لیے بھی جناب غامدی کے تصورِدین میں حکومت کسی کو مجبور نہیں کر سکتی ، وہ حجاب کو عورتوں پر لازم کرنے اوران کو اختلاط سے دور رکھنے کےلیے قانون بنانے کی بدرجہِ اولی اجازت نہیں دے سکتے ۔ تو اس بحث کا حاصل یہ ہوا کہ ، زیب وزینت کی نمائش جاری رہے ، مخلوط مجالس پرباندی نہ ہو ، مگر سزا ئیں نافذ ہونی چاہیں  ۔ ایک طرف آگ میں لکڑیاں بھی عورتیں ڈالیں   اوردوسری طرف تم اس پر پانی بھی ڈالتے رہو تاکہ تاقیامت یہ سلسلہ رکنے نہ پائے۔ یہ کیاتصورِدین ہے ؟ حالانکہ دنیا کے عقلاء پہلے اسباب کا ازالہ کرتے ہیں ؟ اگر زناباالجبر ہو تو پھر سنگ ساری بھی ہوسکتی ہے ؟ یہ کیا تصورِ دین ہے ؟کوئی معقول شخص اسے قبول کرسکتا ہے؟ اورپھر ایک نھی عن المنکرہے  جس کی تعمیم تو سزاؤں تک متعدی ہو   مگر ،، امربالمعروف ،، صرف نماز وزکوة میں سزا تک متعدی ہو۔ دین کے باقی ایجابی مطالبوں میں وہ صرف تبلیغ ودعوت تک محدود ہو ؟ یہ کیا تصورِ دین ہے ؟  حالانکہ ہرمعقول آدمی جانتا ہے کہ سزاؤں سے سلبی طور پرانہی احکام کی پابندی مطلوب ہے جو ایجابی طوردین میں بیان ہوئی ہے ، عقلی طورپر تو ایجابی پہلو پرزور دینا چاہئے مگر جناب غامدی کے ہاں سب کچھ الٹ اوربالعکس موجود ہیں ۔مریض کو دوادینے پر سختی کو حرام قرار دیتے ہیں   مگر پرہیز نہ کرنے پر اسے جوتے مارنے لگ جاتے  ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…