غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 50)

Published On March 13, 2024
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

مولانا واصل واسطی

اگے جناب اس ،، اہتمامِ وقوع فعل ، سے چند اصول برآمد کرتے  ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، چنانچہ کوئی بچہ اگر اپنے باپ یاکوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑالیتی ہے   یاکوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدروقیمت کی کوئی چیز چرالے جاتاہے   یاکسی کے باغ سے کچھ پھل یاکسی کھیت سے کچھ سبزیاں توڑ لیتاہے  یابغیرکسی حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتاہے یاآوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یابھینس ہانک کرلے جاتا ہے   یاکسی اضطراراورمجبوری کی بناپراس فعلِ شنیع کاارتکاب کرتا ہے   تو بے شک یہ ناشائستہ افعال ہیں   اوران پر اسے تنبیہ وتادیب ہونی چاہئے   لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کاحکم اس آیت میں بیان ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جوروایت اس باب میں بالعموم پیش کی جاتی ہے   وہ قران کے اسی مدعا کابیان ہے۔اس کے حدود سے سرِمو کوئی انحراف نہیں ہوا۔ ارشاد فرمایا ،، لاقطع فی ثمرمعلق ولافی حریسة جبل فاذا آواہ المراح اوالجرین فالقطع فیما یبلغ ثمن المجن ( ترجمہ) میوہ درخت پر لٹکتا ہو یابکری پہاڑ پرچرتی ہو   اورکوئی اسے چرالے   تواس میں ہاتھ نہ کاٹاجائے گا ۔ ہاں  اگر بکری باڑے میں پہنچ جائے اور کھلیان میں آجائے توہاتھ کاٹا جائے گا  بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو  ( میزان ص 41) جناب غامدی اس طرح کی تحقیق سے میدان مار لیتے ہیں ۔ اب دیکھو (1) رشتہ دار کے اشتثناء کا مسئلہ  (2) کم ازنصاب مال کے چوری کا مسئلہ (3) حرز و حفاظتِ کے بغیر مال کے چوری کامسئلہ (4) اضطرارومجبوری کے تحت چوری کرنے کا مسئلہ ، ان سب مسائل کو قران مجید کی اس آیت میں واقع ،، صفت ،، کے صیغہ میں ،، وقوعِ فعل کے اہتمام ،، سے ہی مستنبط کرلیا ہے ، اسے کہتے ہیں ،، اجتہادی قوت ،، اورایسے ہوتے ہیں ،امام الزمان ،قسم کے لوگ ۔باقی رہے مدارس کے ( ملائے مکتبی ) تو وہ بس مکھی پرمکھی مارتے رہے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں احادیث میں موجود ہیں ۔مکلف ہونا تو قران وسنت کے نصوص سے ثابت ہے ۔اس میں بحث کی گنجائش نہیں۔ پھر جناب غامدی نے پہلی بات  ،، بچے ،، کے متعلق کی ہے ، تو وہ مکلف ہی نہیں ہوتا۔ دوسری بات  بیوی کے بارے میں کی ہےکہ اگر خاوند کے مال میں سے کچھ اڑالے تو اس میں شبہ کفالت کا موجود ہوتا ہےاور حدود شبہات سے مندفع ہوجاتے ہیں۔ اورپھر مال کے،، محرز ،، ہونے کی بات کی ہے ۔اس کے لیے حدیثیں المؤطا ، ابوداؤد ، اورترمذی وغیرہ کتابوں میں رافع بن جدیج اورعمرو بن العاص وغیرہ سے مروی ہیں ۔ پھر حریسہ کی بات کی ہے اس کے لیے مسنداحمد ، نسائی اور حاکم وغیرہ میں عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت مروی ہے ۔ پھل وغیرہ کی بات مسنداحمد ، ابوداؤد اورنسائی وغیرہ میں موجود ہے ۔مضطراورمجبور آدمی کے لیے قران نے محرمات تک کوجائز قراردیا ہے تو پھر چوری کی وجہ سے کس طرح اس پر حد نافذ ہوگی ؟ بلکہ مصنفِ عبدالرزاق وغیرہ سے تو معلوم ہوتاہے کہ سیدنا عمربن الخطاب نے عام الرمادہ کے قحط میں حدود کو ساقط کردیا تھا۔ اور یمین کے کاٹنے پر جمہور کا اتفاق ہے جیساکہ حافظ ابن حجرنے لکھا ہے ،، کذااطلق فی الایة الیدواجمعوا علی ان المراد الیمنی ان کانت موجودة ( فتح الباری ج 12ص 116) اور کلائی اور پونچے سے کاٹنا جمہور کامذہب ہے  کماقال الحافظ ،، والثالث قول الجمھور ونقل بعضھم فیہ الاجماع ( ایضا ج12 ص 117)  یعنی یہ ساری وہ باتیں ہیں جو احادیث اوراجماع وغیرہ سے معلوم ہوئی ہیں ۔ مگر جناب غامدی نے لوگوں کو ورغلانے کے لیے اسے آیتِ سرقہ کے نیچے  ،، وقوعِ فعل کے اہتمام ،، کے ادعاء پر رکھ دیا ہے۔ممکن ہے ان کے مقلدین اس تحقیق سے متاثر ہو جائیں   لیکن اصحابِ عقل ودانش ضرور پوچھ لیں گے کہ صیغہ ہائے صفت کا ،، وقوع فعل کے اہتمام ،، پر دلالت کو تسلیم کرلینے کے بعد بھی یہ ساری باتیں آیتِ سرقہ میں آخر کیسے شامل ہوگئیں؟ کوئی طریقہ کوئی اصول وغیرہ اگر موجود ہے تو اس کی وضاحت کردیں  تاکہ ہم بھی وہ سمجھ سکیں۔ محض آپ کے کہنے پر تو اسے نہیں مان سکتے۔ یہ تو بالکل اس طرح ہے جیسے کوئی شخص نماز کی خاطر کپڑے کی طہارت کےلیے ،، وثیابک فطھر ،، سے استدلال کرلے ۔ مگر کوئی پوچھنے والا تو پوچھ سکتا ہے  کہ مکہ کے بالکل  ابتدائی دور میں  اس فروعی مسئلے کا قران کے نظم میں بیان ہونا کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ وضو وتیمم کابیان قران کی مدنی سورت میں ہوا ہے ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جناب غامدی نے ان چیزوں کو بھی اس آیت کے مضمون میں داخل کیا ہے   جو دورِ فاروقی کے عام الرمادہ میں پیش آئے تھے ۔ حاصل اس مبحث کا یہ ہوا کہ جناب غامدی نے حافظ محب کے موضوعہ ومقررہ   اور جناب کے تسلیم کردہ ونقل کردہ اس قاعدہ کی دفاع میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں جیساکہ ان بے بنیاد دعاوی سے اس بات کا پتہ احباب کو لگ رہا ہے ۔ اس کے بعد جناب غامدی نے کچھ صفحات اگے چل کر ایک عنوان ،، دین کی آخری کتاب ،، کے نام سے قائم کیا ہے ۔اس میں پھر تین مقدمات کو رکھا ہے کہ ،، یہ دین کی تاریخ ہے  چنانچہ قران کی دعوت اس کے پیشِ نظرجن مقدمات سے شروع ہوتی ہے وہ یہ ہیں (1) فطرت کے حقائق (2) دینِ ابراہیمی کی روایت (3) نبیوں کے صحائف ( میزان ص 45) ہم نے گذشتہ مباحث میں ان تین عنوانات کے پہلے اورآخری عنوان پر لکھا ہے ۔ یہاں دوسرے عنوان کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں ۔ جناب ،، دینِ ابراہیمی کی روایت ،، کے متعلق لکھتے ہیں کہ ، دوسری چیز کے لیے قران نے ملتِ ابراہیمی کی تعبیراختیار کی ہے ۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکوة ، یہ سب اسی ملت کے احکام ہیں ۔ جن سے قران کے مخاطب پوری طرح واقف   بلکہ بڑی حدتک ان پرعامل تھے ۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے  ۔ اس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم کی بعث سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہوچکے تھے ۔جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قران کے مخاطبین کے لیے اجنبی چیز نہیں تھی ۔نمازِ جنازہ وہ پڑھتے تھے ۔ روزہ اسی طرح رکھتے تھے جس طرح اب ہم رکھتے ہیں ۔ زکوة ان کے ہاں بالکل اسی طرح ایک متعین حق تھی جس طرح اب متعین ہے ( میزان ص 45)  اس عبارت میں اگرچہ جناب غامدی نے چند حوالوں کا اضافہ کیا ہے ۔ مگر باتیں سب وہی ہیں جو حافظ محب نے سوا صدی پہلے لکھی ہیں  یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ حافظ محب کی اس کتاب سے مکتبِ فراہی کے سب آیمہ ( مثلا عبدالحمید فراہی ، امین احسن اصلاحی ، اور جاوید غامدی) نے اپنے اپنے استعداد کے مطابق بھرپوراستفادہ کیا ہے مگر کوئی بھی اس بچارے کانام بطور ماخذ نہیں لیتا تاکہ بدنامی نہ ہو ۔حافظ محب کی یہ کتاب پہلی بار 1909ء میں شائع ہوگئی تھی ۔ تو ہم عرض کر رہے تھے کہ حافظ محب نے ان مذکورہ احکام پر پہلے لوگوں کے اشکالات واعتراضات نقل کیے ہیں۔ پھر ان کے جواب میں لکھاہے کہ   اس اتنے بیان سے میری غرض یہ ہے کہ محاورہ زبان جسے اہلِ زبان سمجھتے ہیں ، وہ مجمل نہیں کہاجاتا ، اورجب محاورہ کے مفہوم سے سامع مطمئن ہوا تو وہ مفصل ہے جیسے خدانے سرقہ کو نہ بیان کیا ، زناکو نہ بیان کیا ، ربوا کو نہ بیان کیا ، صلوة و زکوة کو نہ بیان کیا ، حج وطواف کو نہ بیان کیا ، کیونکہ یہ قوم کی مصطلح الفاظ ہیں ۔ان اصطلاحوں سے وہ کماحقہ واقف تھے ۔ یہ کوئی فرشتوں کی اصطلاح نہیں   عربی زبان میں قران اترا ہے ، عربی زبان کی یہ اصطلاحیں ہیں ۔ اس لیے حکم صریح ہے ، صاف اور واضح ، اس سے یہ سمجھنا بھی صحیح ہوگا کہ قوم صلوة کو جانتی تھی۔ جوصلوة کے معنی نماز کے ہیں ، اور وہ ضرور جانتی تھی ۔ کیونکہ لوگ مسلمان ہونے آتے ، اسلام تبلیغ کیا جاتا ، اسلام لاتے ، وصلوة وزکوة کاحکم سنادیاجاتا سن کرسرتسلیم خم کردیتے اور فرمان برداری کا قول وقرار کرجاتے ، نہ کسی نے کبھی یہ سوال کیا کہ یارسول اللہ ماالصلوة وماالزکوة ؟ نہ ان کوکوئی رسالہ لکھ کردیا جاتا کہ وضو اورنماز میں اتنے فرائض ہیں ۔اتنے واجبات وسنن ہیں اتنے مستحبات ومکروہات ہیں ، اس سے ظاھر ہے کہ صلوة وغیرہ احکام کی اصطلاح معلوم القوم تھی ( شرعةالحق ص 251) اس سے احباب ہماری کل والی  اس بات کی حقیقت جان گئے ہونگے جوہم نے جناب غامدی کے متعلق لکھی تھی ۔ بلکہ اس کا یقین ہوگیا ہوگا۔ ہم اس اوپر درج دعوی کے بارے میں اگے تجزیہ کریں گےان شاءاللہ

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…