اول : شرعی حجاب کا انکار عورتوں کے لئے سر کا ڈھانپنا پردہ کا حصہ نہیں، ننگے سر صرف چھاتی کو ڈھانپ لیا جائے تو پردہ کا شرعی حکم پورا ہو جاتا ہے۔ یہ غامدی صاحب کا وہ تفرد ہے جس میں ۱۴۰۰ سالوں میں کوئی ایک شخص بھی انکا ہمنوا نہیں ہے۔ گویا ۱۴۰۰ سالوں سے مسلم خواتین جو...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)
رفع و نزولِ عیسی سے متعلق ایک شبہہ کا ازالہ
مقرر : مولانا الیاس گھمن تلخیص : زید حسن غامدی صاحب کہتے ہیں : اللہ تعالی نے فرمایا ہے "اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک ورافعک الی ومطہرک " قرآن کی ترتیب ہے کہ پہلے عیسی علیہ السلام کو موت دی پھر اپنی طرف اٹھایا اور کافروں کے انہیں مثلہ کرنے سے اور مصلوب کرنے سے بچایا...
انکارِ حدیث کا شاخسانہ
مولانا عبد الرشید طلحہ نعمانی تجدد پسندی کی آڑ میں انکارِحدیث غامدی صاحب کابنیادی دعویٰ ہے کہ حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں،یہ دین کا حصہ نہیں بلکہ دین سے الگ کوئی غیر اہم شئی ہے، دین کا کوئی عقیدہ اور عمل اس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر احادیث کی کچھ اہمیت...
حیاتِ مسیح علیہ السلام : اسکالر صاحب کو جواب
مقرر : مفتی منیر اخون تلخیص : زید حسن سائل : ہمارے ہاں عموما سمجھا جاتا ہے کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور قربِ قیامت تشریف لائیں گے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں ۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں انکے زندہ موجود ہونے کا ثبوت نہیں ہے ۔ مفتی...
وجہِ تخلیقِ کائنات نبیﷺ کی ذات یا عبادت؟
مقرر : مفتی منیر اخون تلخیص : زید حسن سائل : ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وجہ تخلیقِ کائنات ہیں لیکن ایک اسکالر کا کہنا ہے کہ آپ نہیں بلکہ خدا کی عبادت وجہِ تخلیقِ کائنات ہے ۔مفتی منیر اخون : اسکالر صاحب کو مقصد اور علت میں فرق نہ کرنے سے شبہہ ہوا...
ڈاڑھی سنت یا نہیں ؟
مقرر : مفتی منیر اخون تلخیص : زید حسن سائل : ڈاڑھی کے بارے میں غامدی صاحب کہتے ہیں کہ وہ دین کا حصہ نہیں ہے اور انکا استدلال یہ ہے کہ اسکا قرآن میں تذکرہ نہیں ہے ۔ مفتی منیر اخوان : قرآن شرعی قانون کی کتاب ہے جس میں اصول بیان ہوتے ہیں ، جزئیات و فروعات نہیں ۔ وحی صرف...
مولانا واصل واسطی
ہم نے گزشتہ تحریر میں جو چند عبارتیں ابن ہشام کے حوالے سے پیش کی تھیں ان میں بعض پرابوالقاسم سہیلی نے جرح کی ہے ۔ ان میں ایک یہ ہے کہ جبریل نے وضو اورنماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی ۔ ممکن ہے کوئی شخص اس سے استفادہ کرلے ۔ تو ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ روایت ،، ابن لھیعہ ،، کی سند کے علاوہ اور اسناد سے بھی کتبِ دلائل وسیرت میں مذکور ہے مثلا ابونعیم اصفھانی اسی واقعہ کی سند یوں ذکر کرتے ہیں کہ حدثنا عمربن محمد بن جعفر قال حدثنا ابراھیم بن علی قال حدثنا النضربن سلمة قال حدثنا فلیح بن اسماعیل عن عبدالرحمن بن عبدالعزیز الامامی عن یزید بن رومان الزھری عن عروة بن الزبیر عن عائشة رضی اللہ عنھا الخ ( دلائل النبوة ج1 ص 127) ابونعیم اصفہانی کی یہی روایت حافظ مغلطائی نے بھی حافظ ابوالقاسم سہیلی کے جواب میں نقل کی ہے ۔دیکھئے ( الروض الباسم ج1 ص 553) باقی رہی وہ روایات جو شعابِ مکہ وغیرہ میں نماز پڑھنے سے متعلق ہیں تو ان کو سیرت کے اکثر محققین نے بطورِاقرار نقل کیا ہے ۔ شیخ علاء الدین خازن نے بھی ابن اسحق کی وہی عبارت نقل کی ہے اور اسے برقرار رکھا ہے ،، قال ابن اسحق و ذکر بعض اھل العلم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا حضرت الصلاة خرج الی شعاب مکة وخرج معہ علی بن ابی طالب مستخفیا من عمہ ابی طالب ومن جمیع اعمامہ وسائر قومہ فیصلیان الصلاة فیھا الخ ( الروض والحدائق ج1 ص 276) اور شیخ عبدالرؤف المناؤی بھی شرحِ الفیہِ عراقی میں امام ابوجعفر طبری کی کتاب سے تقریبا یہی بات تحریر کرتے ہیں کہ ،، وکان المصطفی اذا خرج الی شعاب مکة ومعہ علی یصلیان فعثر علیھما ابوطالب وھما یصلیان فقال یا ابن اخی ماھذا الذی تدین بہ ؟ قال دین اللہ وملائکتہ ورسلہ ، ودین ابینا ابراھیم بعثنی اللہ بہ رسولا الی العباد وانت ای عم احق من بذلت لہ النصیحة ودعوتہ الی الھدی واحق من اجابنی لہ واعاننی علیہ ، قال لا استطیع ان افارق دین آبائی ولکن لایخلص الیک شیئا تکرھہ مابقیت وقال لابنہ ،، اما انہ لم یدعک الاالی الخیر فالزمہ ،، ( الفتو حات السبحانیہ ج1ص 389) اس جواب پر غور کرلیں ۔سنتِ ابراہیمی کانام ہی نہیں لیا بلکہ دین اوراسلام کی بات کی ہے۔، اور اس کے بعد مسندِاحمد کے حوالے سے ایک عجیب بات ابوطالب کی نقل کی ہے ۔ عربی جاننے والے اس سے لطف لیں سکتے ہیں ۔ واخرج احمد عن علی رضی اللہ عنہ ،، ظھرعلینا ابوطالب وانا اصلی مع المصطفی فقال ماھذا ؟ فدعاہ الی الاسلام فقال مابالذی یقول من باس ولکن واللہ لایعلونی استی ابدا ( ایضا ) ان روایات سے یہ بات بالکل مبرہن ہوجاتی ہے کہ ابوطالب جو مکہ کے بزرگوں میں سے تھے ، نماز کو نہیں پہچانتے تھے تو سیدنا ابوذرکی اس مجمل روایت سے استدلال کا کوئی فائدہ جناب غامدی کو نہیں پہنچا کیونکہ ایک تووہ بنو غفار کا آدمی ہے ، اور یہ دوسرا شہرِ مکہ کا ایک بزرگ آدمی ہے ۔ بلکہ ابن کثیر کی تحقیق سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیگر حضرات بھی ایسے موجود تھے کہ جو نماز بقولِ جناب غامدی اس معروف ،، سنتِ ابراہیمی ،، کو نہیں پہچانتے تھے۔ ان میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب بھی تھے ۔ اور اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس وقت اس عمل یعنی نماز کے ادا کرنے والے صرف جناب محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا علی اور سیدہ خدیجہ ہی تھے ۔حافظ ابن کثیر امام ابن جریر طبری کی سند سے یحی بن عفیف سے نقل کرتے ہیں کہ ،، قال جئت زمن الجاھلیة الی مکة فنزلت علی العباس بن عبدالمطلب فلماطلعت الشمس وحلقت فی السماء ، واناانظر الی الکعبة اقبل شاب فرمی ببصرہ الی السماء ثم استقبل الکعبة فقام مستقبلھا ، فلم یلبث حتی جاء غلام فقام عن یمینہ فلم یلبث حتی جاءت امراءة فقامت خلفھا فرکع الشاب فرکع الغلام والمراءة ، فخرالشاب ساجدا فسجدامعہ فقلت یاعباس ،، امرعظیم ،، فقال ،، امر عظیم ،، فقال اتدری من ھذا ؟ قلت لا قال ھذا محمدبن عبداللہ بن عبدالمطلب ابن اخی ، اتدری من ھذاالغلام ؟ قلت لا قال ھذا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اتدری من ھذہ المراءة التی خلفھما قلت لا قال ھذہ خدیجة بنت خویلد زوجة ابن اخی ، وھذا حدثنی ان ربک رب السماء والارض امرہ بھذاالذی تراھم علیہ ، وایم اللہ ما اعلم علی ظھرالارض کلھا احدا علی ھذاالدین غیر ھولاء الثلاثة ( السیرةالنبویة ج1 ص 308) ممکن ہے کسی آدمی کے ذہن میں اس روایت سے اشکال پیش آجائے کہ پہلی پیش کردہ روایات سے تو یہ معلوم ہورہا تھا کہ وہ مکہ کی مختلف وادیوں میں سیدنا علی کوساتھ لے جاکر نماز ادا کرتے تھے ۔یہاں تو کعبہ کے سامنے نماز ادا کرنے کی بات کی گئی ہے ؟ مگر اس کا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں کہ جناب شبلی نعمانی نے ابن الاثیر سے یہ بات نقل کی ہے کہ ، چاشت کی نماز کے اہلِ مکہ بھی قائل تھے لہذا اعتراض کی کوئی بات الحمد للہ موجود نہیں ہے ۔ اب آخر میں مولانا مودودی کی ایک مفصل عبارت پیش کرتے ہیں جس میں اوپر درج عبارات کا ترجمہ بھی موجود ہے ۔اور کچھ اضافی مواد بھی ہے ، وہ لکھتے ہیں ،، طبری نے لکھا ہے کہ سب سے پہلی چیز جواقراِر توحید اور بتوں سے براءت کے بعد شرائعِ اسلام میں فرض کی گئی وہ نماز تھی ، ابن ھشام نے بھی محمد بن اسحق کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیز فرض کی گئی وہ نماز تھی ، اور وہ ابتدا میں دودورکعت تھی ، امامِ احمد نے ،، ابن لھیعہ ،، کی روایت حضرت زید بن حارثہ سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی مرتبہ وحی نازل ہونے کے بعد جبریل آپ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ کو وضو کی تعلیم دی ، ابن ماجہ اورطبرانی ( فی الاوسط) میں بھی یہ واقعہ کچھ سندوں کے اختلاف سے نقل ہواہے ( ہم نے ابونعیم کی سند اوپر نقل کی ہے) اس کی تشریح ابن اسحق کی اس بیان سے ہوتی ہے کہ ، حضور مکہ کے بالائی حصے میں تھے ، جبریل بہترین صورت اوربہترین خوشبو کے ساتھ آپ کے سامنے ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا اے محمد:،اللہ نے آپ کو سلام کہا ہےاورفرمایا ہے کہ جن اورانس کی طرف آپ میرے رسول ہیں ۔اس لیے آپ قولِ لاالہ الااللہ کی طرف ان کو دعوت دیں ۔پھر انہوں نےزمین پرپاؤں مارا جس سے پانی کایک چشمہ ابل پڑا اورانہوں نے وضو کیا تاکہ آپ نماز کےلیے پاک ہونے کاطریقہ سیکھ لیں ۔پھرآپ سے کہا کہ اب آپ بھی وضو کریں ۔ پھر جبریل نے حضور کے ساتھ دو رکعتیں چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں ۔ اس کے بعد حضور حضرتِ خدیجہ کووہاں لائے اور وضوکرایا اور دو رکعتیں ان کے ساتھ پڑھیں۔ ابنِ ھشام ، ابن جریر ، ابن کثیر ، نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ، امام احمد ، ابن ماجہ ، اور طبرانی ( فی الاوسط) وغیرہم نے اسامہ بن زید سے اور انہوں نے اپنے والدحضرتِ زید بن حارثہ سے نقل کیا ہے کہ حضور پر وحی آنے کے بعد پہلا کام یہ ہوا کہ جبریل نے آکر آپ کو وضو کا طریقہ بتایا ، پھر جبریل نماز کےلیے کھڑے ہوئے اور آپ سے کہا کہ آپ ان کے ساتھ نماز پڑھیں ۔ پھر حضورگھرتشریف لائے اور حضرت خدیجہ سے اس کا ذکر کیا ، وہ خوشی کے مارے مدہوش ہوگئیں ۔پھرحضور نے ان کو اسی طرح وضوکرنے کے لیے کہا اوران کو ساتھ لے کر اسی طرح نماز پڑھی جس طرح آپ نے جبریل کے ساتھ پڑھی تھی ۔ پس یہ پہلا فرض تھا جونزولِ اقراء کے بعد مقررکیاگیا ۔اغلب یہ ہے کہ یہ اسی رات کی صبح کاواقعہ ہے جس رات اقراء نازل ہوئی ۔اس کے بعد حضور اور حضرتِ خدیجہ خفیہ طریقہ سے نماز پڑھتے رہے ( سیرتِ سرورِعالم ج1 ص 143) اس بحث سے دو باتیں واضح ہوگئیں ۔ ایک یہ بات کہ اگر نماز کواہلِ مکہ جانتے ہوتے یااس کے قائل وفاعل ہوتے تونبی علیہ السلام کو وضواور نمازجبریل سے سیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دوسری یہ بات کہ پھرنماز خفیہ پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی ۔یہ سب باتیں جناب غامدی کے اوپردرج دعوی کی صاف صاف تردید کررہی ہیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
تراث ، وراثت اور غامدی صاحب
حسن بن علی تقسیم میراث كى بعض صورتوں میں بالاتفاق یہ صورتحال پیش آتی ہے...
غامدی صاحب اور قراءاتِ متواترہ
اپنی کتاب ' میزان ' میں لکھتے ہیں کہ ''یہ بالکل قطعی ہے کہ قرآن کی ایک ہی...
غامدی صاحب اور مسئلہ تکفیر
غامدی صاحب لکھتے ہیں "مسلمانوں کے کسی فرد کی تکفیر کا حق قرآن و سنت کی رو...