غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 58)

Published On March 26, 2024
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے اپنی دینی فکر میں بہت ساری باتیں، خود سے وضع کی ہیں۔ ان کے تصورات درحقیقت مقدمات ہیں، جن سے اپنے من پسند نتائج تک وہ رسائی چاہتے ہیں۔ "قیامِ شھادت" کا تصور درحقیقت ایک اور تصور کی بنیاد ہے۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے فرق کا مقدمہ بھی ایک اور...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط سوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں "نبوت" اور "رسالت" سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل "پیغمبر" ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی کے تصور "سنت" کے متعلق غلط فہمی  پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے اور نہ غلط بیانی ہمارے مقصد کو باریاب کر سکتی ہے۔ اگر غامدی صاحب کے پیش نظر "سنت" منزل من اللہ اعمال کا نام ہے اور یہ اعمال آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح وحی ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید ہوا ہے...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

ڈاکٹر خضر یسین یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں،...

جناب جاوید احمد غامدی کی  دینی سیاسی فکرکا ارتقائی جائزہ

جناب جاوید احمد غامدی کی دینی سیاسی فکرکا ارتقائی جائزہ

 ڈاکٹر سید متین احمد شاہ بیسویں صدی میں مسلم دنیا کی سیاسی بالادستی کے اختتام اور نوآبادیاتی نظام کی تشکیل کے بعد جہاں ہماری سیاسی اور مغرب کے ساتھ تعامل کی پالیسیوں پر عملی فرق پڑا ، وہاں ہماری دینی فکر میں بھی دور رس تبدیلیاں آئیں۔دینی سیاسی فکر میں سب سے بڑی تبدیلی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 10)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 10)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی کےاس کلیہ پرہم نےمختصر بحث گذشتہ مضمون میں کی تھی ۔مگر احبابِ کرام اس کو تازہ کرنے کے لیے ذرا جناب غامدی کی عبارت کا وہ ٹکڑا ایک بار پھر دیکھ لیں وہ لکھتے ہیں ۔"پہلی ( بات) یہ کہ قران کے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کے خداکا وہ...

مولانا واصل واسطی

روزہ میں مباشرت اورلزومِ کفارہ کی بات ہم اگے کرلیں گے   فی الحال ایک اوربات کی طرف ہم لوگوں  کو متوجہ کرنا چاھتے ہیں۔ وہ بات یہ ہے کہ ،، تبیین ،، سنت ،، اور،، آحادیث ،،  کے متعلق ہم نے جناب غامدی کی طویل عبارتیں پہلے پیش کی ہیں جس میں انہوں نے چند باتیں لکھی ہیں (1) پہلی بات ان عبارات میں یہ لکھی ہے کہ ،، تبیین ،، قران کی شرح کا نام ہے ، اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ شارح متن پرکوئی اضافہ نہیں کرسکتے ۔ ان کی عبارت ملاحظہ ہو ،، وہ (تبیین ) کسی بات کی وہ کنہ ہے جوابتدا ہی سے اس میں موجود ہوتی ہے آپ اسے کھول دیتے ہیں وہ کسی کلام کا وہ مدعا ہے  جواس کلام کی پیدائش کے وقت ہی سے اس کے ساتھ ہوتاہے ، آپ اسے واضح کردیتے ہیں وہ کسی چیز کاوہ لازم ہے جوشروع ہی سے اس کے وجود کی حقیقت میں پوشیدہ ہوتاہے  آپ اس کو منصہِ شہود پر لےآتے ہیں ، تبیین ، کی حقیقت اس سے بال سے زیادہ ہے نہ کم ، آیہِ نحل میں لفظ کلامِ خداوندی کے لیے استعمال ہواہے  اس وجہ سے وہاں اس کامفہوم اس کے سواکچھ نہیں کہ متکلم کا وہ ارادہ ہے جوابتدا ہی اس کے کلام میں موجود ہے اسے واضح کردیا جائے ( برھان ص 44) اس طرح کی دیگرعبارتیں ابھی قریب ہی گذری ہیں ہم وہ سارے دوبارہ نہیں لکھ سکتے (2) اور دوسری بات یہ لکھی ہے کہ ،، سنت ،،  سیدنا ابراہیم علیہ السلام وغیرہ سے منقول ہے ، اور ہم تک بتمام وکمال تواترِ عملی کے ذریعے  سے پہنچی ہے ۔جناب کی دوعبارتیں ملاحظہ فرمالیں ۔ ایک میں پہلی بات کہتے ہیں دوسری میں دوسری بات ،، سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ،،( میزان ص 14) اور دوسری عبارت یہ ہے کہ ،، سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قران مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ، وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اورقولی تواتر سے ملاہے ، یہ اسی طرح ان کے اجماع اورعملی تواتر سے ملی ہے ،اور قران ہی کی طرح ہردور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے ،، ( میزان ص 14)  ،(3) اورتیسری بات یہ لکھی ہے کہ صرف ،، سنت اور قران ،، میں ہی دین منحصر ہے ۔ اور جس کو ،،حدیث ،، کہاجاتا ہے اس سے ،، دین ،، یعنی اس قران اور سنت میں عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ ملاحظہ کریں ،، دین لاریب انہی دوصورتوں میں ہے ، ان کے علاوہ نہ کوئی چیز دین ہے ، نہ اسے دین قراردیا جاسکتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اورتقریر وتصویب کے اخبارجنھیں بالعموم ،،حدیث ،، کہاجاتاہے ان کے بارےمیں یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ ۔۔۔۔۔اس لیے دین میں ( یعنی قران وسنت) ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا ، دین سے متعلق جو چیزیں بھی ان میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت قران وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین ہے ، اور اس پرعمل کے لیے اسوہِ حسنہ کا بیان ہے۔  حدیث کا دائرہ یہی ہے ( میزان ص 15) اور یہ بات تو اوپر ہم نے بوضاحت  لکھی ہے کہ جناب غامدی کے ہاں ،،  تبیین ،،  میں اضافہ کسی حکم پر متصور ہی نہیں ہے چاہے وہ سنت ہو یا پھرقران ہو ،، پس جب یہ ان کے مذہب کی حقیقت ہے  تواب ہم دوسوالات  ان سے کرناچاھتے ہیں (1) پہلا سوال ہمارا یہ ہے کہ ،، نماز میں  کسی حکم اور عمل کے چھوٹ جانے یا سہو ہونے کی صورت میں نماز نئے سرے سے پڑھنا ، یانماز کے آخر میں ترغیما للشیطان دوسجدوں کااضافہ کرنا ، نہ توما قبل کے مذاہب سے ثابت ہے  جیسا کہ جناب غامدی بھی پورے زورلگانے کے باوجوداپنی اس کتاب میں اسے دیگر مذاہب سے نقل نہیں کرسکے ہیں ، اور نہ سنتِ متواترہ سے ثابت ہے ، صرف چند ہی احادیثِ قولی ، اور کچھ واقعات آحادیثِ عملی اس باب میں موجود ہیں  ۔ جیساکہ ان کو جناب غامدی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔تواترِ عملی کاتقاضا یہ ہے کہ روزانہ صحابہ اورتابعین سے سہو موجود ہوں ۔ مگر اس کو ثابت کرنا ماڈل ٹاؤن کی بس میں نہیں ہے ۔اور تواترِ قولی کے لیے ان آحادیث کو شمار کرنا کافی ہوجائے گا ۔اب آنجناب کو یہ عمل متواتر ثابت کرنا ہوگا ۔ یا قران سے اس مسئلے کوثابت کرنا ہوگا   یا پھر ان چند روایات کو ہی درخورِ اعتنا سمجھنا ہوگا جیسا کہ جناب غامدی نے کیا ہے مگر ان کو اپنی لکھی ہوئی دو باتیں یاد نہیں رہی ہیں  (1) ایک یہ کہ حدیث سے اس دین ( قران وسنت) میں عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا ، مگر انہوں نے خود حدیث سے اس میں اضافہ کردیا ہے (2) دوسری یہ بات یاد نہیں رہی کہ سنت کے ثبوت کے لیے جناب کے نزدیک تواترِ عملی شرط ہے۔ اور قران کےثبوت کےلیے  تواترِ قولی شرط ہے ۔ اب اس عمل میں دونوں کی شرائط موجود نہیں ہیں ۔ اور اگر آحادیث سے ان میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں   تو اس سے جناب کے بقول دین میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ آحادیث تو ،، دین ،، نہیں ہے صرف تاریخ ہے (2) دوسرا سوال ہمارا یہ ہے کہ قران مجید نے نماز کے متعلق تو تفصیل سے کچھ باتیں بیان فرمائی ہیں  (الف) پہلی بات سورتِ النساء میں یہ بیان فرمائی ہے کہ ،،  نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ یعنی نماز نہ پڑھو  ،، (ب)  دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ ،، جنابت کی صورت میں طہارت حاصل کرکے پھر نماز پڑھو (ت) تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ ،، اگر بے وضو ہو تونماز نہ پڑھو ، وضو کرو یا پھر تیمم کرکے نماز پڑھو  (ث) چوتھی بات یہ فرمائی ہے کہ ،، اگر مریض یا مسافر ہو پانی نہ ملے یا استعمال نہ کرسکو تو پھر بھی تیمم کرکے نماز پڑھو  ( ج) پانچویں بات یہ فرمائی ہے کہ ملامستِ نساء کے بعد بھی بغیر طہارت کے نماز نہ پڑھو  (ح) چھٹی بات یہ فرمائی ہے کہ ،، اگر قبلہ کا رخ میسر نہ ہو تونماز نہ پڑھو   الا یہ کہ مجبوری ہو ۔ اس طرح بعض دیگر چیزوں کا ذکر موجود ہے ۔  اب آنجناب ،، حیض ونفاس ،، کے متعلق بھی لکھتے ہیں   کہ ان کے ساتھ بھی نمازدرست نہیں ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ جناب غامدی اور اس کا مکتب اس بات کو (1) یا تو قران مجید سے ثابت کریں گے یا پھر سنتِ متواتر سے ثابت کریں گے ( 3) اوریا پھر سیدنا ابراہیم اور عرب میں دیگر مروجہ مذاہب سے بتواترثابت کریں گے (4) اور یا پھر آحادیث یعنی تاریخ سے یہ بات ثابت کریں گے جو ،، دین ،، نہیں ہے ۔ اگر قران سے ثابت کرنا چاہتے ہیں   تو اس میں اس چیز کا اس باب میں سرے سے کوئی ذکر ہی موجود نہیں ہے ۔ اوراگر سنتِ متواتر سے اسے ثابت مانتے ہیں  تو پھر ان کو سب خواتین صحابیات میں ان دونوں چیزوں کو بیک زمان اور مسلسل ثابت کرنا پڑے گا کہ تواتر تو بن جائے ۔ مگر جناب غامدی اور اس کے مکتب والوں کے لیے  اس تواتر کاثابت کرنا کیا مشکل کام ہے ؟ اور اگر دیگر مذاہب کی روایت سے ثابت کریں گے  تو اس کے ہم شدت سے منتظر ہیں ۔ اور اگر ان چند آحادیث سے اس بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں   جو حدیث کے ذخائر میں موجود ہیں تو وہ فقط آحاد ہیں  لہذا یہ عمل تواتر سے ثابت نہیں ہے ، نہ تواترِ قولی سے اور نہ ہی تواترِ عملی سے ، وھذا واضح بین ۔لہذا اب جناب  کو کوشش کرنی ہوگی   کہ دیگر مذاہب میں اس کا کوئی ماخذ مل جائے تواسے نکال لیں ۔ ہمارا خیال تھا کہ جناب غامدی نے اس کےلیے کوئی ماخذ شاید اس لیے تلاش نہ کیا ہو تاکہ جدید عورتوں کو خوشی کا ایک اور موقع مل جائے کہ اب حالتِ حیض ونفاس میں بھی وہ نماز ادا کرسکتی ہیں ۔مگر بعد میں ہماری یہ رائے غلط ثابت ہوگئی   کہ وہ بھی ان حالات میں نماز وروزہ کے قائل نہیں ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…