غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 72)

Published On April 13, 2024
سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں محترم غامدی صاحب علم کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک حرف غلط قرار دے کر غیر مفید و لایعنی علم کہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفے کی دنیا میں افکار کے تین ادوار گزرے ہیں:۔ - پہلا دور وہ تھا جب وجود کو بنیادی حیثیت دی گئی...

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین...

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

جہانگیر حنیف کلام کے درست فہم کا فارمولہ متکلم + کلام ہے۔ قاری محض کلام تک محدود رہے، یہ غلط ہے اور اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ کلام کو خود مکتفی قرار دینے والے حضرات کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اولا کسی بھی تاریخی اور مذہبی متن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور...

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں...

مولانا واصل واسطی

وہ سورتِ توبہ کی آیات (5۔ 11) کونقل کرنے کےبعد لکحتے ہیں ” یہ دونوں آیتیں سورہِ توبہ میں ایک ہی سلسلہِ بیان میں آئی ہیں۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ حج کے موقع پر یہ اعلان کردیاجائے کہ مشرکینِ عرب میں جولوگ یہ تین شرطیں پوری کریں ۔ وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں  اور تمہارے لیے اللہ کاحکم یہ ہے کہ اس لیےان کی راہ چھوڑو ۔اولا  کفرو شرک سے توبہ کرکے وہ اسلام قبول کرلیں ۔ثانیا   اپنے ایمان اوراسلام کی شہادت کے طور پر نماز کا اہتمام کریں ۔ ثالثا        ریاست کانظم چلانے کےلیے اس کی بیت المال کو زکوة ادا کریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی اسی حکم کی وضاحت میں فرمایا ہے “امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدواان لاالہ الااللہ وان محمد رسول اللہ ویقیمواالصلوة ویؤتواالزکوة فاذافعلوا عصموا منی دماءہم واموالہم الا بحقہا وحسابہم علی اللہ” (ترجمہ ) مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں  یہاں تک کہ وہ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کی شہادت دیں ۔ نماز قائم کریں اور زکوةادا کریں ۔ وہ یہ شرائط تسلیم کرلیں  توان کی جانیں اور ان کے مال محفوظ ہوجائیں گے  الایہ کہ وہ ان سے متعلق کسی حق کے تحت اس حفاظت سے محروم کردیئے جائیں ۔ رہاان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے ” ( میزان ص 489) اس کے بعد جناب غامدی اپنا مغرب زدہ مسلک یوں بیان کرتے ہیں کہ ” آخرت میں جواب دہی کے لحاظ سے اسلام کے مطالبات اپنے ماننے والوں سے خواہ کچھ ہوں  اس کا نظمِ اجتماعی اپنے مسلمان شہریوں سے جو مطالبات کرسکتاہے وہ بس یہ تین مطالبات ہیں ۔ جو ان آیتوں میں اللہ تعالی نے پوری وضاحت کے ساتھ خود بیان فرمادیئے ہیں ۔ (ان میں نہ کمی کے لیے کوئی گنجائش ہے اور نہ بیشی کےلیے ۔ عالم کے پروردگار نےان پرخود اپنی مہرثبت کردی ہے ۔اس وجہ سے کوئی قانون ، کوئی ضابطہ ، کوئی حکومت ،کوئی شوری ، کوئی پارلیمان اب قیامت تک ان شرائط کے پورا کردینے کے بعد مسلمانوں کے جان ومال ،آبرو  اورعقل ورائے کے خلاف کسی نوعیت کی کوئی تعدی نہیں کرسکتی)  چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی ریاست کے پہلے حکمران سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جب مانعینِ زکوة کے خلاف کاروائی کا حکم دیا   تو لوگوں کے معارضہ پر یہ حقیقت پوری قطیعت کے ساتھ اس طرح واضح فرمائی “قال اللہ تعالی فان تابوا واقامواالصلوة وآتواالزکوةفخلوا سبیلہم واللہ لااسئل فوقہن ولاا قصر دونھن “(ترجمہ) یعنی خداکی قسم میں ان شرطوں پرکسی اضافے کامطالبہ کرونگا اورنہ ان میں کوئی کمی بردا شت کرونگا ۔ ( میزان ص 490)  احباب ذرا جناب کی یہ درجِ بالا عبارت دوبارہ دیکھ اور پڑھ لیں جو قو سین کے اندر موجود ہے کیا کوئی شخص ” قطعی سے قطعی ” بات کو بھی اتنے جذب ویقین سے پیش کرسکتا ہےجتنے جوش وتیقن سے جناب غامدی اپنی بات پیش کرتے ہیں ؟ مگر یاد رہے  کہ اس جوش و تیقن کا نام ونشان بھی اگے نہیں رہے گا ۔ رہے ہم لوگ تو ہمارے نزدیک یہ پوری بحث ہی خرافات اور فضولیات کامجموعہ ہے ۔ یہ حقیقت چند باتوں سے روشن ہوجائے گی ۔ پہلی بات یہ ہے کہ جناب غامدی کے نزدیک یہ تین باتیں، تینوں اسلام کے قبول کرنے کےلیے شرط ہیں ۔ یا پھر صرف شہادتین ہی کافی ہے ؟ اگرجناب تینوں کو شرط مانتے ہیں تو پھر قاعدہ یہ ہے جیساکہ ہم نے پہلے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انتفاء شرط سے انتفاء مشروط بھی لازم آجاتاہے ۔ تو اس کامطلب یہ ہوا کہ جناب کے نزدیک نماز نہ پڑھنے والا ۔ یا پھر زکات نہ دینے والا ۔ یا پھر شہادتین کا اقرار نہ کرنے والا شخص کافر ہوگا ؟ اور مفہومِ الشرط من ضروریات اللغة  ہے ۔ تو کیا جناب اس بات کے قائل ہیں ؟ اوراگر صرف ” شہادتین ” کواسلام کےلیے شرط مانتے ہیں ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ نماز و زکوة لوگوں سے جبرا اداکروانے کےلیے حکومت کو کس بنیاد پر قانون بنانے کی اجازت مرحمت کرتے ہیں ؟ جبکہ باقی احکام کےلیے اس کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے ؟ ان دو شقوں میں جس کو بھی جناب منتخب کرنا چاہتے ہیں  ہمیں اس پر مناقشہ کےلیے ان شاءاللہ حاضر پائیں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے جس قول کا جناب نے حوالہ دیا ہے ” واللہ لااسئل فوقہن ولااقصر دونہن ” اس کا حوالہ سب سے پہلے ہمارے ہاں مولانا مودودی نے دیا تھا ۔  مگرجناب کو ان کی تقلید کے بجائے پہلے اس بات کی تحقیق کرنی چاہئے تھی  کہ یہ قول ان سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟ محض حوالہ دینا کسی محقق شخص کا کام نہیں ہے ۔ اس روایت کی سند ثابت نہیں ہے ۔ یہ حسن بصری کے مراسیل میں سے ہے جو محقق محدثین کے مطابق کالریاح ہیں ۔ ابوبکر جصاص نے لکھا ہے”روی مبارک بن فضالہ عن الحسن قال لما قبض رسول اللہ صلی علیہ وسلم الخ “( احکام القران ج3 ص 122) حسنِ بصری سیدنا عمر فاروق کی خلافت کے دو سال باقی تھے جب وہ پیدا ہوئے ،سیدنا علی کے بیعت کے وقت 14 سال کے تھے ۔ تو سیدنا ابوبکر کی یہ بات انہوں نے اپنی پیدائش سے قبل ان سے کیسے ؟  کہاں ؟ اورکب سنی ؟ محدثین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ انہوں  نےصرف سیدنا علی کو د یکھاہے ۔ ان سے بھی کوئی روایت نہیں سنی ہے ۔ تو سیدنا ابوبکر صدیق سے سننا تو بہت دور کی بات ہے ۔ اب ایک دو قول ملاحظہ فرمالیں ” قال ابن ابی حاتم من ذالک روایة الحسن عن ابی بکرالصدیق قال ابوزرعة الحسن عن ابی بکرالصدیق مرسل” ( الجامع فی المراسیل ص 153)  اگے لکھتے ہیں    “ذئل ابوزرعة لقی الحسن احدا من البدریین ؟ قال رآہم رؤیة ۔ رائ عثمان بن عفان وعلیا قلت سمع منہما حدیثا ؟ قال لا “( ایضا ) محدث ابوالحجاج مزّی لکھتے ہیں کہ “رائ علی بن ابی طالب وطلحة بن عبیداللہ وعائشة ولم یصح لہ سماع من احد منہم “( تہذیب الکمال ج 2 ص 531)  جب ان متاخرین صحابہِ کرام سے بھی ان کا سماع ثابت نہیں ہے تو سیدنا ابوبکر سے کیسے ثابت ہوگا ؟یہ ناممکن ہے ۔ ابوبکرجصاص نے کہا ہے کہ یہ روایت براہِ حمادبن زید ازایوب از محمدبن سیرین بھی منقول ہے ۔ مگر اس میں بھی دوخلل موجود ہیں ۔ ایک تو ابوبکر جصاص کی ملاقات حماد بن زید سے ثابت نہیں ہے ۔ اور دوسراخلل یہ ہے کہ محمد بن سیرین عن ابی بکر بھی متصل نہیں ہے بلکہ مرسل ہے ۔ابن سیرین کا سماع سیدہ عائشہ اور سیدنا ابن عباس وغیرہ متاخرین سے بھی ثابت نہیں ۔ سیدنا ابوبکرصدیق سے کیسے ثابت ہوگا یہ صحیح نہیں ہے ۔ ابن ابی حاتم لکھتے ہیں ” سمعت ابی یقول ابن سیرین لم یسمع من عائشة شیئا سمعت ابی یقول لم یلق الحسن ومحمدبن سیرین اباذرالغفاری سمعت ابی یقول محمد بن سیرین لم یدرک ابابکر “( الجامع ص 583)  احباب دیکھ رہے ہیں کہ باقی کے متعلق ” لم یسمع ”  کا لفظ رکہا ہے اورسیدناابوبکر صدیق کے متعلق ” لم یدرک ” کالفظ رکھا ہے ۔ جس کا لطف دوستوں سے مخفی نہیں ہے ۔لہذا یہ روایت ناقابلِ قبول اوربے سروپا روایت ہے ۔ جو چیز خود ثابت نہ ہو وہ دوسری چیز کو کیسے ثابت کرسکتی ہے ؟ ہاں اسے بناءالفاسد علی الفاسد کہہ سکتے ہیں ۔  تیسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے اوپر سیدنا عبداللہ بن عمر کی روایت تو پیش کی ہے مگر سیدنا ابوہریرہ اورسیدنا جابربن عبداللہ وغیرہ کی حدیث سے صرفِ نظرکیا ہے ۔جس میں نماز و زکات و غیرہ کی ادائیگی کی شروط موجود نہیں ہیں ۔ حدیث یہ ہے ” امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الااللہ فمن قال لاالہ الا اللہ فقد عصم منی مالہ ونفسہ الا بحقہ وحسابہ علی اللہ” ( متفق علیہ ) حالانکہ بعض محققین کے نزدیک یہ روایت متواتربھی ہے۔ جناب عبدالرؤف مناؤی لکھتے ہیں “وھو متواتر ” ( فیض القدیر ج 2 ص 523)  مگرجاننے والے جناب غامدی کی مجبوری جانتے ہیں ۔ اوراگر جناب اس حدیث کو پیش کرتے تو بہت ساری ان مشکلات سے وہ بچ جاتے جن کا اب وہ سامنا کررہے ہیں ۔ مثلا یہ بات کوئی ان سے پوچھ لے کہ سرکار ان شرائط پر عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا بھی تھا  یا نہیں ہوا؟ اگر آپ کہتے ہیں ہوا ہے  تو آپ کو مخالفین کی خاطر ان کی مثالیں جمع کرنا خرط القتاد سے کم نہ ہوگا ۔ اور اگر جمع نہ کر سکے تو پھر آپ کی اس تحقیق کا کیا بنے گا جس پرآپ نے سالہاسال محنت کی ہے ؟ پھر زکات تو اسی وقت لازم اور واجب ہونے والی چیز بھی نہیں ہے ۔ اس کی ادائیگی کے لیے تو نصاب اور حولانِ حول بھی شرط ہے ۔ اس کا آپ کیا کریں گے ؟ پھر یہ بھی عجیب مسئلہ ہے کہ اوپر درج سورہِ توبہ کی دو آیات اور یہ مذکور حدیث مشرکینِ مکہ سے متعلق بتائے جاتے ہیں ۔ وجہ اس تخصیص کی یہ بتاتے ہیں کہ ان پر اتمامِ حجت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ۔ مگر اتمامِ حجت کے ہونے سے یہ شرائط کس طرح اورکس لیے لازم آتے ہیں ؟ اس بات کی وہ کوئی معقول توجیہ نہیں کر پاتے  ۔ ادھر ہم نے اس طرف محض اشارہ کیا ہے تفصیلی بحث اگے آجائے گی ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ محقق علماء کرام کا کہنا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ 8 ہجری میں فتح کیا تھا ۔ اور سورہِ توبہ کی یہ ابتدائی آیات 9 ہجری میں نازل ہوئی تھیں ۔ اس وقت سیدنا ابوبکرصدیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مکہ مکرمہ جاچکے تھے  تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدناعلی کو یہ آیات دے کر مکہ سیدنا ابوبکر صدیق کے پیچھے روانہ کیا تاکہ وہ یہ آیات مجمعِ عام میں لوگوں کوسنا سکیں ۔ اور سیدنا علی نے وہ آیتیں وہاں لوگوں کو سنائیں ۔ ان آیات  میں بہت ساری باتیں تھیں ۔ اور ان کے بہت سارے اغراض ومقاصد بھی تھے جن کے بیان کےلیے دوسرا مقام چاہئے ۔ جن باتوں کا وہاں اعلان کیا گیا تھا ان باتوں میں سے ایک بات یہ تھی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا ۔ دوسری بات یہ تھی کہ کوئی شخص عریان طواف نہیں کرے گا ۔ جس قوم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معاہدہ ہے وہ اپنی مدت تک قائم رہے گا ۔ اورجنت میں صرف مومن لوگ ہی جا سکیں گے ( ابن کثیر ج 2ص 313 ۔ 314) ہم نے اس بات کی اس لیے ذرا تفصیل کی کہ جناب نے نہ تو یہ بتایا تھا کہ ان آیات کا نزول کب ہوا ؟ نہ یہ بتایا تھا کہ مکہ کب فتح ہوا ؟ اور نہ ہی یہ بتایا کہ حج کے موقع پر کون کون سی باتوں کا اعلان کیاگیا تھا ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…