غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 74)

Published On April 13, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اوپر جوبات لکھی ہے  اس کے لیے بخاری اورمسلم کے دوآحادیث کا حوالہ دیا ہے ۔ ہم پہلے ان آحادیث کو پڑھتے ہیں   پھر اپنی باتیں اس کے متعلق احباب کی خدمت میں پیش کریں گے ۔ جبیر ابن مطعم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ،، کنت اطلب بعیرا لی فذھبت...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 64)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی کے ،، استادامام ،، مولانا اصلاحی انہی آیاتِ سورہِ انعام کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ،، اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم کی دعوت کے ساتھ ان کے روحانی وایمانی مدارج کابیان ہوا ۔اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اس دنیامیں بھی اللہ نے ان کو اوران کی دعوت کو...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 63)

مولانا واصل واسطی اب چند اور عبارتیں بھی سورتِ نحل ( 123) کے متعلق دیکھتے ہیں ۔ محمدعلی لاہوری لکھتے ہیں ،، ملتِ ابراہیمی پر چلنے کا ارشاد  یعنی وہی کام کرو جو ابراہیم نے کیا۔ مطلب یہ ہے کہ تم بھی شرک کی بیخ کنی کرو  جس طرح حضرت ابراہیم نے کی ۔ کیوں کہ ملتِ ابراہیمی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 62)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے جیساکہ ہم نے اس کی طرف پہلے بارہا اشارات کیے ہیں ۔انہوں نے چند سالوں سے ایک نیا مسئلہ  ،، سنتِ ابراہیمی ،، یا ،، ملتِ ابراہیمی ،، کا کھڑاکیا ہے ۔ اس نئے دین میں صرف 26 سنن ہیں۔ مگر یہ سنن قران کی طرح قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں ۔ دونوں کے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 61)

مولانا واصل واسطی کل ہم نےایک بات لکھی ہے کہ جناب غامدی نے قران کی آیت پرہاتھ صاف کیاہے۔ تو ہزار ممکن ہے کہ ان کے چاہنے والے اس بات کو ان کی تحقیر اور بے عزتی پر محمول کریں ۔اس لیے ہم آج کی اس محفل میں اس حوالے سے کچھ مزید باتیں کرنا عرض چاہ رہے ہیں ۔ ہم نے جناب غامدی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 65)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 60)

مولانا واصل واسطی دوسری بات جو جناب غامدی کی اس آیت کے لانے اور ذکرکرنے سے پیشِ نظر تھی ۔وہ یہ تھی   کہ جناب نے سنت کے حوالے سے ایک اصول یہ بنایا ہے   کہ اس کی ابتدا پیغمبرکی ذات سے ہونی چاہیے قران سے نہیں۔ جیسا کہ ،، تدبرِسنت ،، کے تیسرے اصول  کے تحت ( میزان ص 59)...

مولانا واصل واسطی

جب ہم نے سورہِ توبہ کی آیات (5 اور11) کے اس استعمال کی اصل وجہ بیان کردی ہے ۔ تو اب اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ ہم ان آیات میں دیگر اہلِ علم کی توجیہات کو بھی پیش کریں ۔ مگر اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ احباب سمجھ جائیں گے کہ سارے اہلِ علم مذہبِ غامدی کے پیروکار نہیں ہیں ۔ اس لیے ان احباب کو یک گونہ اطمینان حاصل ہوجائے گا ۔ان شاء اللہ تعالی ۔ پہلے جناب غامدی کی عبارت دیکھ لیتے ہیں ” دوسری یہ کہ نماز( وزکوة) آدمی کے مسلمان سمجھے جانے کی شرائط میں سے ہے ۔ قرآن نے یہ بات پوری صراحت کے ساتھ واضح کردی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں صرف وہی لوگ مسلمان کی حیثیت سے حقوق کا مطالبہ کرسکیں گے جو نماز ادا کریں گے ۔ اور زکوة دیں گے ۔ سورہِ توبہ میں مشرکینِ عرب کے خلاف کاروائی کے موقع پراعلان فرمایا ہے” فان تابوا واقاموا الصلوة وآتواالزکوة فاخوانکم فی الدین” ( توبہ 11) یعنی  پھر اگر وہ توبہ کرلیں اورنماز کا اہتمام کریں ۔ اور زکوة ادا کریں تو دین میں تمہارے بھائی ہونگے ” اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ قیامت میں بھی لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوناچاہئے ( میزان ص 266) ہمیں جناب غامدی کی اس بات سے شدید اختلاف ہے ۔ مگر احباب ہمارے اور ان لوگوں  کے درمیان وجہِ نزاع کو پہلے سمجھ لیں ۔ وجہِ نزاع یہ نہیں ہے کہ ہم نماز اور‌ زکوة کی اہمیت اورحیثیت کے قائل نہیں ہیں بلکہ وجہِ نزاع یہ ہے کہ جناب کی اس نئی تحقیق سے دومسائل کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اس بات کو ماننے سے باقی دین نظروں سے اوجہل ہو جاتا ہےبلکہ اس کا صفایا ہوجاتا ہے ۔ مثلا فرض کرلو سارے لاہور سے کوئی آدمی حج پر نہیں جاتا   یا پورے شہر میں لوگ روزہ نہیں رکھتے ۔ جناب کے نزدیک تو حکومت ان کے لیے قانون سازی نہیں کرسکتی ہے اور نہ لوگوں کو ان اعمال کے کرنے پرمجبور کرسکتی ہے ؟ تو دین کا کیا بنے گا ؟ اسی طرح جناب کا کہنا ہےکہ ایجابی طورپر مسلمان حکومت  اپنی رعایا سے نماز اور زکوة کے علاوہ کوئی مطالبہ نہیں کرسکتی اورنہ دیگر احکام کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے تواس کامطلب یہ ہوا کہ دینِ اسلام  کا خدا حافظ ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ جناب غامدی نے گمراہ فرقوں کو اسلامی مملکت میں مسلمان قرار دلوانے کے لیے  اس مسئلے کو چور دروازہ بنایا ہے ۔ مثلا قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں ۔ اورنماز اور زکوة کو بھی اداکرتے ہیں ۔ اب جناب کی اس نئی تحقیق کی مطابق وہ ہمارے ملک   میں مسلمان کے نام سے رجسٹرڈ ہونگے کیو نکہ شرائط تو مسلمان شہری ہونے کی ان لوگوں نے پوری کی ہیں ۔ اسی طرح بابی مذہب اور بہائی مذاہب کے لوگ ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے جناب غامدی نے قادیانیوں  کو  غیر مسلم قراردینے پر کسی  شو  میں بات کی تھی ۔ اس پر لوگوں نے بہت شورمچایا تھا ۔ مگر اس چور دروازے پرکسی نے ایک حرف تک نہیں لکھا ۔ میں اس کتاب کو غامدی مذہب کا ” الیاسق “بلاوجہ نہیں کہتا تھا ۔ اس  شو  پر شور اور واویلا کے دوران میں نے لکھا تھا کہ جناب غامدی کی تحقیقات پربھی تعجب ہے کہ جن صوفیوں نے تصوف کے عام مسائل میں شیخ اکبرابن عربی کے مسلک کو اختیار کیا ہے وہ  متوازی دین بنانے والے قرار پائیں ہیں ۔ اور جس نے نبوت کے جریان کے باب میں ابن عربی کے مسلک کو اپنایا ہے وہ شخص ان کے نزدیک بلاشبہ مسلمان ہے ۔ یہ دونوں باتیں جناب غامدی کے زعم کے مطابق ہیں ۔ یہ راقم کا اپنا قول نہیں ہے  پناہ بخدا ۔ اب ممکن ہے غامدی مذہب کے ساتھ اس مسئلہ میں وجہِ نزاع کو احباب سمجھ گئے ہونگے ۔ تو اب اصل بات کے متعلق عرض ہے کہ اس اشکال کے اہلِ علم  اور مفسرین حضرات نے بہت سارے حل پیش کیے ہیں ۔  ایک حل جناب غامدی کے  استاد امام  مولانا اصلاحی نے پیش کیا ہے کہ ان دواحکام سے مراد صرف یہ احکام نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد پورا دین ہے کہ ان دو احکام کا تذکرہ دین کی جامع تعبیر ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ” نماز اور زکات ایک جامع تعبیر ہے ۔ اسلام کے نظامِ عبادت واطاعت میں داخل ہونے کی ۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام کے بغیر نہ ان کے لیے ذمی یا معاہد بن کر اسلامی نظام میں باقی رہنے کی گنجائش رہی نہ لونڈی اور غلام بن کر ۔ ان کے لیے صرف دو ہی راستے باقی ہیں یا تو اسلام قبول کریں یا پھر تلوار ( تدبرِقران ج3 ص 540)  یہ آخر والے فقرے اس بات کے غمازہیں کہ مولانا صلاحی قریشِ اور اہلِ مکہ کے لیے ان دوہی چیزوں کے قائل ہیں یا اسلام لانے کے یا پھر قتل کرنے کے ۔ مگر یہ دلائل وبراہین کی روشنی میں ایک نادرست اورمرجوح بات ہے ۔ جس کو ہم اگے واضح کرنے کی کوشش کریں گے ۔  دوسراحل اس کا جناب حافظ ابن کثیر نے پیش کیا ہے کہ ” ونبہ باعلاہا علی ادناہا ۔ فان اشرف الارکان بعد الشہادة الصلاة التی ہی حق اللہ عزوجل وبعدہا اداءالزکوة التی ہی نفع متعد الی الفقراء والمحاویج وہی اشرف الافعال المتعلقة بالمخلوقین ولہذا کثیرا مایقرن اللہ بین الصلاة والزکوة” ( تفسیرالقران ج3 ص 319) اعلی کے ذریعے ادنی پر تنبیہ کرنا ۔ اور ادنی کے ذکر سے اعلی کو سمجھانا ۔یہ اسلوب ہر زبان میں موجود ہے ۔ کوئی غبی شخص اسے نہ سمجھے تو یہ اس کاذاتی مسئلہ ہے ۔ مثلا میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے اپنی اولاد کے ساتھ تعلقات خراب تھے ۔ کچھ لوگ صلح کرانے میں ان کے درمیان مصروف تھے ۔ جب مصالحین میں سے ایک آدمی نے اس بوڑھے مرحوم سے پوچھا کہ آپ کااپنی اولاد سے کیا مطالبہ ہے ؟ تو انہوں نے کہا ” بس وہ مجھے اپنا والد کہیں “اورکچھ مطالبہ نہیں ہے ۔ اس اولاد نے اس باپ کے مقصد کو سمجھ  لیا تھا کہ یہ فقرہ والدیت کے سارے مطالب وتقاضوں کو جامع ہے  ۔ اس لیے وہ تیار نہیں ہو رہے تھے ۔ اگر ان کو ہمارے اس کرم فرما کی نئی  تحقیقات کا علم ہوجاتا  تو وہ فورا کہتے  ۔”والد جی ” اور پھر گھر لے جاکر اسے خوب پیٹتے اورمارتے ۔ اگر والد ناراض ہوجاتے تو وہ جوابا کہ دیتے   آپ نے تو صرف  والدکہنے کامطالبہ کیا تھا ۔ ادب واحترام    ، سکون وراحت ،کھانے و پینے ، علاج و معاجہ ، لباس وپوشاک وغیرہ کا مطالبہ تو آپ نے بہ وقت صلح نہیں کیا تھا  مگر وہ باپ اوراولاد دونوں اس قاعدہ “تنبیہ بالاعلی علی الادنی “کو بہرحال جانتے تھے ۔ اغبیاء نہیں تھے  ۔ تیسراحل اس اشکال کا بعض دیگر علماء کرام نے پیش کیاہے جن کا نام اس وقت یاد نہیں آرہا کہ عبادات کی بالعموم تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں ایک بدنی عبادت ہے ۔ دوسری مالی عبادت ہے ۔ تیسری ان دونوں کی جامع عبادت ۔ پہلے کی مثال نماز ہے ۔ دوسری کی مثال زکوة ہے ۔اورتیسری کی مثال حج ہے ۔ اللہ تعالی نے خالص بدنی اور خالص مالی عبادت کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس سے دیگر انواع پر تنبیہ کی ہے چاہے وہ دونوں اقسام کا جامع ہو یا فقط بدنی عبادت ہو یا پھر فقط مالی عبادت ہو یہ درست ہے ۔ اس کی بھی بہت ساری مثالیں موجود ہیں کہ فرد کا نام لے کر نوع کو مراد لیں لے ۔ مثلا بیان کیا جاتا ہے ( مجھے اس کی سند کا پتہ نہیں ہے ) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ریشم اور سونے کو اپنےہاتھ مبارک میں لیااور فرمایا ” ہذان محرمان علی الذکور من امتی “اب یہاں ہرکوئی دیکھ سکتا ہے کہ دوچیزوں سے دوانواع کو مراد لیا ہے ۔ اس بات کی بھی پہلے کی طرح قرآن میں بہت ساری مثالیں ہیں ۔ چوتھا حل اس فقیر کے ذہن میں آیا ہے “فان اصبت فمن اللہ وان اخطات فمنی ومن الشیطان واللہ غفورالرحیم ” کہ نماز وزکوة کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ ان دو انواع  کا اداکرنا معلوم ہوجاتا ہے کیونکہ نماز بالعموم مساجد میں باجماعت اداکی جاتی ہے جس کی ترک کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید سنائی ہے ۔ اس حکم میں کوئی تغیر نہیں آیا ہے ۔ ہم میں البتہ آیا ہے ۔ اور یہ نماز اب تک اسی طرح ضروری ہے ۔ رہی زکوة  تو اس کے جمع کرنے کےلیے عاملین مقرر ہوتے ہیں لہذا اس کے اداکرنے والے چھپ کرنہیں رہ سکتے ۔ باقی احکام جیسے روزہ اورحج وغیرہ ہیں تو ان کی ادائیگی کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔ روزہ تو مخفی عمل ہے ۔ اور حج کے امر میں عام علماء کے نزدیک توسع ہے فوریت لازم نہیں ہے ۔ پھر اس میں حاضری بھی نہیں لی جاتی تاکہ معلوم ہو کہ کون غیرحاضر ہے ؟  ویسے اسلام کو جس آدمی نے بغور پڑہا ہے وہ یہ سمجھ لیتا ہے  کہ اصول فقط ” شہادت ” ہی سے اسلام میں داخل ہونے کا ہے ۔ یہ آیات البتہ کسی عارض کی بنا پر اس اصول سے الگ ہوگئی ہیں ۔  مگر ان لوگوں کو داد دیجئے کہ انہوں نے اپنے زورِ قلم سے اس عارض کو ہی اصول باورکرایا اورجو اصول تھا اس کی توجیہ کرنے لگ گئے ۔ ان چارباتوں کے بعد ممکن ہے کہ دوستوں کو جناب کی اس درج شدہ بات سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔ اس لیے  ہم سمجھتے ہیں ان دو احکام پر جمود کرنا غالبا “مغربی ظاہریت “ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…