غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 77)

Published On April 14, 2024
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامی جہاد اور عام اخلاقی دائرہ:۔ یہاں اس بات کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہا د اقدامی اور اس سے متعلقہ احکامات عام اخلاقی دائرے سے باہر ہیں یا نہیں؟ خالق کا ئنات نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر پیدا کیا ہے واذ قال ربك...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ  اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ قرآن وحدیث کے بعد اگلا مقدمہ یہ قائم کرتے ہیں کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی  اہداف محدود اور متعین تھے اور وہ جہاد اور فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے کی بجائے محدود رکھنے کے خواہش...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احادیث اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو کوئی بھی ایک حدیث ایسی پیش نہیں کر سکے جو اس بات کی تائید کرے کہ جہاد کے اہداف محدود ہیں اور اس مشن کے پیش نظر صرف روم اور فارس کی سلطنتیں ہیں ۔ تاہم ایک حدیث ایسی...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط چہارم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احکامات اسلام اور خطابات قرآنیہ کی عمومیت:۔ غامدی حضرات کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقدامی قتال یا اسلام ، جزیہ اور قتل کا مطالبہ سامنے رکھنا عام خلاقی دائرے سے باہر ہے اس لیے وہ آیات واحادیث جن میں اس قسم کے احکامات مذکور ہیں ان کے...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط سوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ منصب رسالت اور اس پر متفرع احکام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ: ۔ ۔1 ۔  منصب رسالت اور نبوت میں یہ تفریق کوئی قطعی بات نہیں ، اس سے اختلاف کی گنجائش ہے اور ہوا بھی ہے اور یہ رائے زیادہ وزنی بھی نہیں ۔ اس کی بنیاد پر قرآنی آیات و...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط دوم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ   قرآن اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ قرآن میں جہاد اقدامی اور اس کے عموم اور تا ئید کے سلسلے میں واضح احکامات موجود ہیں جن سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ آسانی کے ساتھ انہیں نظر انداز کیا جا...

مولانا واصل واسطی

اس قسط میں ہم” اتمامِ حجت “کے اس قانون کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن پہلے جناب غامدی صاحب  کے عبارت کو دوبارہ دیکھنا ضروری ہے ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں ” یہ آخری مرحلہ ہے اس میں اسمان کی عدالت زمیں پر قائم ہوتی ہے ۔ خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور پیغمبر کی قوم کےلیے ایک قیامتِ صغری برپا ہو جاتی ہے ۔ پیغمبروں کےانذار کی جوتاریخ قران میں بیان ہوئی ہے  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پربالعموم دوہی صورتیں پیش آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں ۔ اوراسے کوئی دوسرا دار الہجرت بھی میسر نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ وہ معتد بہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کرنکلتا ہے اور اس کے نکلنے سے پہلے ہی کسی سرزمین پر اللہ تعالی اس کے لیے آزادی اورتمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کردیتے ہیں ۔ان دونوں صورتوں میں رسولوں کے متعلق خدا کی وہ سنت لازما روبہ عمل ہوجاتی ہے ( میزان ص541)  ان دونوں قسموں میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ پہلی صورت میں ان پرآسمانی عذاب نازل ہو جاتا ہے ۔اور دوسری صورت میں انسانی ہاتھوں کے ذریعے ان کو عذاب دیا جاتا ہے ۔ ادھر جناب غامدی نے سورہِ مجادلہ کی آیت ” لاغلبن انا ورسلی”  استدلال میں پیش کی ہے ۔ جس سے استدلال کی حقیقت پہلی تحریر میں  ہم نے تفصیل کے ساتھ  واضح کی تھی ۔ اصل دلیل اس مسئلے میں یہ لوگ سورہِ یونس کی آیت بناتے ہیں ۔ آیت یہ ہے کہ”  ولکل امة رسول ۔ فاذاجاء رسولہم قضی بینہم بالقسط وہم لایظلمون ( یونس 47) ” ہرامت کے لیے ایک رسول ہے ۔ پھر کسی امت کے پاس اس کا رسول آجاتا ہے تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ  چکا دیا جاتا ہے ۔ اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیاجاتا” پہلے ہم نے جناب غامدی کی عبارت اس آیت کے متعلق نقل کی ہے۔احباب اسے ایک بار پھر ملاحظہ فرمالیں ۔ یہ بات تو ہم نے پہلے لکھی ہے کہ جناب غامدی مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے سحر سے کبھی نکل سکے ۔ اب اس درجِ بالا آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ” مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہِ انسانی تک پہنچنا گویا اس گروہ پر اللہ کی حجت کا پورا ہوجانا ہے ۔ اس کے بعد صرف فیصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے ۔ کسی مزید اتمامِ حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اور یہ فیصلہ غایت درجہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جولوگ رسول کی بات مان لیں اوراپنا رویہ درست کرلیں ۔ وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اورجو اس کی بات نہ مانیں وہ عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں ۔ خواہ وہ عذاب دنیا اورآخرت دونوں میں دیا جائے ۔ یا صرف آخرت میں ( تفہیم القران ج2ص 290)  جناب غامدی نے اس آیت سے جگہ جگہ استدلال کیا ہے مثلا میزان کے صفحات 117 ۔ 136 ۔ 166  ملاحظہ ہوں ۔ ہمارے نزدیک یہ آیت ان لوگوں کے اس مدعا پر دلیل نہیں ہے ۔ اس بات کی تفصیل چند وجوہات میں ہم عرض کردیتے ہیں ۔ (1) پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر جناب اس آیت سے رسولوں کے اتمامِ حجت پردلیل قائم کرتے ہیں   تو ان کو یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ رسول ہرامت میں اللہ تعالی بھیجے گئے ہیں ۔ کیونکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں ” ولکل امة رسول”  مگر یہ لوگ ہر امت میں بھیجے جانے والے کو رسول نہیں مانتے ہیں ۔ ان میں تقسیم کرتے ہیں ۔ بعض کو نبی قرار دیتے ہیں ۔ اور بعض دیگر کو رسول قرار دیتے ہیں ۔(2) دوسری وجہ یہ ہے  کہ اگر آپ اس آیت کا تعلق دنیا سے بناتے ہیں   توپھر آپ اس آیت کے ظاہر سے استدلال نہیں کر سکتے کیونکہ آیت میں تو یہ بات ہے کہ جب رسول ان کے پاس آجاتے ہیں   توان کے اور قوم کے درمیان فیصلہ انصاف کے ساتھ چکادیا جاتا ہے ۔ اس میں تو نہ تبلیغ وارشاد کی بات موجود ہے   اورنہ ہی اتمامِ حجت کی بات ہے ۔ اورنہ ان لوگوں کے انکار کی بات موجود ہے ۔ لہذا آپ کو اس میں تقدیرات نکالنے ہوں گے ۔ جیساکہ جنابِ رازی لکھتے ہیں کہ”  فی الکلام اضمار وتقدیر ” فاذا جاء رسولہم وبلغ فکذبہ قوم وصدقہ آخرون قضی بینہم بالقسط ( الکبیر ج6 ص 261) مگر یہ بات تو اطفالِ مکتب تک جانتے کہ تقدیرات کسی کلام میں فرض کرنا جب کہ اس کا مفہوم اس کے بغیر بھی سمجھ میں آتا ہو ۔ تو بالکل خلاف الاصل ہیں (3) تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر کسی رسول کے آنے اور اتمامِ حجت کرنے پر قوم اوران کے درمیان یقینا فیصلہ کیا جاتا ہے   تب تو قوم پر عذاب کا آنا یقینی ہوجاتا ہے اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ علم ہوگا جیسا کہ جناب غامدی نے خود بھی ایک جگہ لکھا ہے کہ” اس شخصیت اور کردار کے ساتھ آپ نے اپنی دعوت پیش کی مگر قوم نے اس سے انکار کیا ۔ آپ نے انہیں خبردار کیا کہ نبوت کے ساتھ آپ رسالت کے منصب پر بھی فائض ہیں ۔ اورخدا کی عدالت بن کر آئے ہیں ۔ لہذا جو قیامتِ صغری قوم نوح ، قوم لوط ، قوم شعیب ،اور عادوثمود کےلیے برپا ہوئی تھی   وہ آپ کی طرف سے اتمامِ حجت کے بعد آپ کی قوم کےلیے بھی برپا ہوگی ( میزان ص 171) اس عبارت سے  معلوم ہوا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا بلکہ قوم کو بھی انہوں نے بقولِ غامدی یہ بات بتائی تھی کہ ان پر عذاب ان کی زندگی میں آئے گی ۔ اسی لیے تو اوپر کی عبارت میں ان قوموں کا نام لیا ہے  کہ جن پر ان کے رسولوں کی زندگی میں عذاب آگئے تھے ۔ اب صرف اتنی بات  باقی تھی کہ یہ عذاب  آسمانی آفات وبلایا کے ذریعے  ان پر نازل ہوگی  یا پھر انسانی ہاتھوں کے ذریعے ۔ پس جب حقیقت یہ ہے تو پھر اس آیت سے پہلے کی آیت کی کوئی وجہ نہیں بنتی ۔ وہ آیت یہ ہے کہ ” وامانرینک بعض الذی نعدہم اونتوفینک فالینا مرجہم ثم اللہ شہید علی مایفعلون ( یونس 46) کیونکہ یہ دوسری آیت کی ساتھ صریح متضاد ہے  کہ اس آیت میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے مخالفیں پر عذاب کا تمہاری زندگی میں آنا بھی ممکن ہے اورنہ آنا بھی ممکن ہے ۔ دونوں کا احتمال موجود ہے ۔ اوردوسری آیت میں فرمارہے ہیں کہ رسول کےآنے کے ساتھ ہی ان کافیصلہ ہو جاتا ہے ۔ اس طرح کے تضادات واختلا فات تو معمولی عقل والے عام لوگوں کے کلام میں بھی نہیں ہوتے ہیں ۔ (4) چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب جو جناب غامدی وغیرہ لیتے ہیں ۔ان کے مخاطبین نے یاتو اس آیت کا وہ اصل مطلب سمجھ لیاہوگا  جوجناب غامدی پیش کرتے ہیں ۔ یاپھر نہیں سمجھا ہوگا ۔ اگر پہلی صورت ہے کہ وہ انہوں نےاس  آیت کا وہی مطلب سمجھ لیا تھا   جو جناب غامدی وغیرہ لیتے ہیں   تو پھر ان کا اس کے بعد  اس سوال کے کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ” ویقولون متی ہذا الوعد ان کنتم صادقین ؟ ” کیونکہ پہلی آیت ” فاذاجاء رسولہم” سے یہ بات معلوم ہو گئی تھی ۔ اور اگر انہیں پہلی آیت سے یہ مطلب معلوم نہیں ہوا تھا   کہ رسول کا کسی منکر ومجرم قوم میں آنا عذابِ الہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔ تو اس سے دو باتیں پھر سمجھ  میں آجاتی ہیں ۔ دونوں باتوں سے ہی اس استدلال کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ قران کے اولین مخاطبین نے قران سے وہ بات نہیں سمجھی  جو جناب غامدی ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں ۔ فقط یہی بات اس استدلال کی تردید کے لیے کافی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب وہ اس مطلب کو نہیں سمجھے تھے تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کو بتانا لازم تھا تاکہ وہ عذاب سے بچ جاتے ۔ ان کو اوپر درج سوال کا یہ جواب دینے کی تو کوئی وجہ ہی نہیں بنتی ہے کہ” قل لااملک لنفسی ضرا ولانفعا الاماشاءاللہ لکل امةاجل فاذا جاء اجلہم لایستاخرون ولایستقدمون ( یونس 49) معلوم ہوا کہ اس آیت سے ” اتمامِ حجت ” کے مسئلہ پر استدلال کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے ۔ مگر یہ لوگ اس آیت سے جگہ جگہ استدلال کرتے رہتے ہیں ۔ اب اس کے بعد احباب ہم سے پوچہ لیں گے کہ پھر اس آیت کا اصل مطلب اورمفہوم تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ تو ہم اس بات کی مختصر سی وضاحت کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس آیت کاتعلق آخرت سے ہے۔ سیاق وسباق سے یہی معلوم ہوتا ہے  ۔کیونکہ اوپر سے آخرت کاذکر چل رہاہے ۔ یہاں تو صرف رسول کے آنے بات کی گئی ہے  مگر سورہِ الزمر کی آیت (69) میں عام بات کی گئی ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ” واشرقت الارض بنور ربہا ووضع الکتاب وجیئ بالنبیین والشہداء وقضی بینہم بالحق وہم لایظلمون ”  اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت بھی وہی بات ایک دوسرے زاوئیے سے کہی گئی ہے ۔ محققین کا بھی یہی موقف ہے ۔ امام رازی نے ” وقضی بینہم  بالقسط ” کا تعلق آخروی عذاب اور نجات سے جوڑ دیا ہے ۔ اگرچہ آیت کی ابتدا کو انہوں نے دنیاوی مسائل سے متعلق رکھا ہے ۔ ان کی عبارت ملاحظہ ہو ” المراد من الایة احدامرین امابیان ان الرسول اذابعث الی کل امة فانہ بالتبلیغ واقامة الحجة یزیح کل علة فلایبقی لہم عذر فی مخالفتہ اوتکذیبہ فیدل ذلک علی ان مایجری علیہم من العذاب فی الاخرة یکون عدلا ولایکون ظلما لانہم من قبل انفسہم وقعوا فی ذالک العقاب او یکون المراد ان القوم اذااجتمعوا فی الاخرة جمع اللہ بینہم وبین رسولہم فی وقت المحاسبة ( الکبیر ج6 ص261) اور قرطبی لکہتے ہیں کہ ۔۔ یکون المعنی ولکل امة رسول شاہد علیہم فاذاجاء رسولہم یوم القیامة قضی بینہم ( الجامع ج8 ص 313) اسی طرح حافظ ابن کثیر نے بہی لکہاہے کہ ۔۔ قال مجاہد یعنی یوم القیامة ۔۔ وقضی بینہم بالقسط وہم لایظلمون ۔۔  کما قال تعالی واشرقت الارض بنور ربہا ووضع الکتب وجیئ بالنبیین والشہداء وقضی بینہم بالحق وہم لایظلمون ( الزمر 69) فکل امة تعرض علی اللہ بحضرة رسولہا وکتاب اعمالہا ۔ من خیر و شر موضوع شاہد علیہم ۔ وحفظتہم من الملائکة شہودا ایضا امةبعد امة وہذہ الامةالشریفة وان کانت آخرالامم فی الخلق الاانہا اول الامم یوم القیامة یفصل بینہم ویقضی لہم ( تفسیرالقران ج3ص 444) اس تحقیق سے ہماری بات کی وضاحت الحمدللہ ہوگئی ہے ۔ اب رہی مولانا مودودی کی بات کہ ” کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہِ انسانی تک پہنچنا گویا اس گروہ پر اللہ کی حجت کاپورا ہوجانا ہے” ( تفہیم القران ج 2 ص 290) تو یہ بہت مجمل بات ہے  مگر اس سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوجاتی ہیں جن میں ایک تو درست ہے ۔اور دوسری درست نہیں ہے ۔(1) ایک یہ بات  معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اتمامِ حجت کا مسئلہ قائم رہتا ہے ۔ یہ درست ہے اورجمہور اہلِ علم کامذہب ہے۔ مرتد وغیرہ کو سزا دینے کامسئلہ اس بات پر مبنی ہے ۔اکثر اسے نہ سمجھنے کی وجہ سے اس پراعتراضات قائم کرتے ہیں ۔ س بات کی ہم اگے تفصیل کریں گے ان شاءاللہ  (2) دوسری بات یہ معلوم ہوئی ہے کہ ” محض دعوتِ رسول ” پہنچنے سے حجت کااتمام نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ عام افرادکے علم و فہم میں بھی غلطی کا امکان ہے ۔ ان کے بیان میں بھی ضعف وکمزوری کا امکان ہے ۔ اوران کے اخلاص وللہیت میں نقص اورعدم موجودگی کا امکان ہے ۔لیکن نبی صلی اللہ علیہ والم سے تینوں یہ کمزوریاں اورباتیں منتفی تھیں ۔ اب ان تین کمزوریوں کے باوجود یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ عام افراد کے ذریعے بھی دعوت کے پہنچنے سے اتمام حجت  ہو سکتاہے قطعادرست بات نہیں ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…