غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 83)

Published On April 15, 2024
سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

۔”حقیقت نبوت”: غامدی صاحب کے استدلال کی نوعیت

۔”حقیقت نبوت”: غامدی صاحب کے استدلال کی نوعیت

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب اکثر و بیشتر دعوی تو نہایت عمومی اور قطعی کرتے ہیں لیکن اس کی دلیل میں قرآن کی آیت ایسی پیش کرتے ہیں جو ان کے دعوے سے دور ہوتی ہے۔ اس کا ایک مشاہدہ حقیقت نبوت کی بحث سے ملاحظہ کرتے ہیں، اسی تصور کو بنیاد بنا کر وہ صوفیا کی تبدیع و...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ اقدامی جہاد اور عام اخلاقی دائرہ:۔ یہاں اس بات کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہا د اقدامی اور اس سے متعلقہ احکامات عام اخلاقی دائرے سے باہر ہیں یا نہیں؟ خالق کا ئنات نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر پیدا کیا ہے واذ قال ربك...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ  اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ قرآن وحدیث کے بعد اگلا مقدمہ یہ قائم کرتے ہیں کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی  اہداف محدود اور متعین تھے اور وہ جہاد اور فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے کی بجائے محدود رکھنے کے خواہش...

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

مولانا صفی اللہ  مظاہر العلوم ، کوہاٹ احادیث اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو کوئی بھی ایک حدیث ایسی پیش نہیں کر سکے جو اس بات کی تائید کرے کہ جہاد کے اہداف محدود ہیں اور اس مشن کے پیش نظر صرف روم اور فارس کی سلطنتیں ہیں ۔ تاہم ایک حدیث ایسی...

مولانا واصل واسطی

دوسری بات اس خلل کے متعلق یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ” شعورِخوب وناخوب کو اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں ودیعت کیا ہے اور اسے ان کی فطرت میں رکھا ہے ” اس بات تک وہ انسانی فطرت کے براہِ راست مطالعے کے نتیجے میں نہیں پہنچے ۔ نہ ان لوگوں نے براہِ راست انسانی فطرت کا مطالعہ کیا ہے ۔ اور نہ یہ لوگ اس تحقیق کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے چندآیاتِ قرانی کا مطالعہ کیا ہے ۔ ان آیات میں یہ بات ان کو مل گئی ہے تو انہوں نے اس سے یہ قانون بنادیا ہے کہ چونکہ یہ چیز پہلے سے انسانی فطرت میں موجود ہیں   لہذا قران کی آیات کے مطالب میں اساسی طور پر اس چیز کا لحاظ ہوگا ۔ اس کو نظر انداز کرکے یااسے پیچھے رکھ کر اگر قران کی آیات کی کوئی تعبیر وتفسیر ہوگی   تو وہ بالکل ناقص اور قران کے منشا کے خلاف ہوگی ۔ ہم ان حضرات سے ایک سوال کرتے ہیں   کہ آپ کی اس بات کا تعلق ہم جیسے عام بندوں سے متعلق ہے یا صاحبِ وحی سے متعلق ہے ۔ اگر عام بندوں سے متعلق ہے جو قران کی تفسیریں لکھتے ہیں   تو ان کی تفسیر تو حجت ہی نہیں ہے ۔ لہذا ان پر بات کرنا کچھ مفیدِ مطلب نہیں ہے ۔ اور اگرصاحبِ وحی کی تفسیر سے متعلق ہے   جیسا کہ ہمیں جناب کی عادت ،طبیعت اور فکر سے اندازہ ہے   تو پھر یہ بات بوجوہِ کثیرہ فاسد وکاسد ہے ۔ (1) پہلی وجہ یہ ہے کہ فطرت کی اس بات کا اندازہ اور علم جناب اور اس کے اہلِ‌مکتب کو قرانی آیات سے ہوا ہے ۔ مگر قران میں اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے ۔ کہ اس ” شعورخیروشر “کے حدود کیا ہیں ۔ اور نہ وہ خود اتنی صلاحیت رکھتے ہیں   کہ اس” شعور ” کے حدودِ اربعہ کو متعین کرسکیں ۔ بس ایک مجہول سا تصوران بچاروں نے قائم کیا ہے کہ عدل   کو لوگ پسند کرتے ہیں  اور ظلم سے لوگ نفرت کرتے ہیں ۔ حالانکہ بات اتنی سادہ نہیں ہے جیساکہ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں ۔ پہلے آپ کو اس” شعورِخیروشر ” کے حدود کو قطعی دلائل سے متعین کرنا ہوگا ۔ پھر اس کے بعد اگر صاحبِ وحی کوئی حکم لے کر آتا ہے  تو آپ پہلے اس کو دیکھیں گے کہ یہ حکم اس ” شعور ” کے قطعی حدود میں داخل ہوگیا ہے ۔ اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جوحکم آیا ہے وہ بھی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہے یا پھر یہ دونوں چیزیں اسے حاصل نہیں ہیں ۔ یا ان دونوں میں ایک چیز کی قطعیت اسے حاصل ہے دلالت یا پھرثبوت کی ۔ ان چیزوں کا جائزہ لے کر پھر کوئی فیصلہ کرنے کی حیثیت میں ہم ہونگے ۔ جب آپ نے اس “شعور” کے حدود کوہی متعین نہیں کیا ہے  تو اس بے علمی میں جو حکم بھی آپ کی طبیعت کے خلاف آئے گا   آپ اس حکم کو اس ” شعور ” کے خلاف قرار دے کر رد کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس بات کو دین سے وابستہ معقول لوگ آخر کس طرح مان سکتے ہیں ؟ اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ آپ نے ہر پڑہے لکھے جاہل کو یہ اختیار دے دیا  جائےکہ وہ صاحب وحی کے احکام کی اس مجہول اصول سے صفائی کردیں ۔ (2) دوسری وجہ اس میں خلل اور فساد کی یہ ہے کہ جب قران کی ان آیات سے ہی آپ لوگوں کو اس ” شعورِ خیر و شر ” کا علم ہوا ہے ۔ اوراس شعور کو اللہ تعالی نے ہی اس انسانی فطرت میں ودیعت کیا اور رکھا ہے   تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ وحی   پر مبنی کوئی حکم اس کے خلاف آجائے ؟ فرض کرلیتے ہیں کہ ایسا حکم آگیا ہے ۔ اب اس صورتِ حال میں بطورِ جواب آپ کے لیے تین باتوں میں سے کوئی ایک بات کہنا ممکن ہے ۔ ایک بات یہ ہے کہ آپ یہ بات اپنے ضمیر میں فرض کرلیں کہ  وحی   کے احکام فطری امور کے خلاف بھی آجاتے ہیں ۔ اس صورت میں آپ کو اس حکم پر اعتراض   اور اسے قران کے منشا کے خلاف قرادینے کا حق نہیں رہتا ۔ بلکہ ماننا ضرری ہوگا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ اس مرسلِ وحی کے متعلق یہ بات فرض کرلیں کہ اس سے یہ بالکل بھول گیا ہے   کہ اس نے انسان کی فطرت میں کیا قوتیں رکھی ہیں ؟ مگر یہ بات کسی مسلمان شخص سے متصور نہیں ہے ۔ تیسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ صاحب  وحی یا اس کے مبلغ وراوی سے غلطی ہوئی ہے ۔ مگر یہ بات اس صورت میں ممکن ہے   جب اس کے لیے آپ کے پاس قطعی دلائل موجود ہوں ۔ قطعی دلائل کی عدمِ موجودگی میں ایک مجہول تصور کی بنیاد پر کسی معلوم حکم کو رد کرنا اہلِ دین کا کام نہیں ہے ۔ بلکہ ایسا کام جہلاءِ دین یا پھراعداءِ دین کرتے رہتے ہیں ۔(3) تیسری وجہ اس خلل اورفساد کی یہ ہے کہ جب آپ  اس حال میں وحی  کے کسی حکم کو اس بنا پر ان  قرانی آیات کے منشا کے خلاف قرار دے دیں گے   تو دوسرے شخص کو بھی یہ حق حاصل ہوگا کہ آپ کی اس رائے کو رد کردیں ۔اوراس وقت آپ یہ نعرہ بھی بلند نہیں کرسکتے ہیں  کہ میں تواس کے سامنے قران پیش کررہا ہوں   اور میرے مخالف حدیث جیسی ظنی چیز پیش کررہے ہیں ۔ کیونکہ وہ آدمی آپ کے جواب میں کہہ سکتا ہے بلکہ کہے گا  کہ جناب آپ اگرچہ بظاہر قران کی آیت سے استدلال کررہے  ہیں مگر اس میں مخفی ضعف موجود ہے ۔ کیونکہ قران نے اس ” شعور “کے حدود متعین نہیں کیے ہیں ۔ اور آپ  اس ” شعور “کے حدود میں وہ چیز بھی شامل سمجھتے ہیں  ۔وحی  کا یہ واردشدہ حکم جس کی تردید کررہاہے ۔ ہمارے نزدیک اس” شعور ” کے حدود میں یہ چیز شامل نہیں ہے ۔ لہذا ادھر نزاع آپ کے تصور اور  وحی کے حکم میں ہوگا ۔ وحی کا وہ حکم اگر آپ کے نزدیک ظنی ہے   جو ناقابلِ اعتبار ہے   تو کیا آپ کا یہ تصور کہ اس ” شعور ” کے حدود میں فلان اور فلان چیزیں  داخل ہیں ۔ اسے قطعیت کا مرتبہ حاصل ہے ؟ یہ بھی تو ایک ظنی چیز ہے ۔ تو گویا ادھرمعارضہ ظنی اور ظنی کا ہوگا ۔ اس میں پھر لوگوں کا اختیار ہے کہ کس حکم کو قبولیت بخشتے ہیں اور کس حکم کورد کرناچا ہتے ہیں ۔ اگر آپ اپنے آپ کو اس ظنی حکم کو رد کرنے پر موردِ طعن نہیں سمجھتے تو پھر وہ دوسرا شخص آپ کے اس استدلال کو ردکرنے پرکیوں اور کیسے موردِطعن بن سکتا یا بنایاجاسکتاہے ؟ (4) چوتھی وجہ اس خلل اورفساد کی یہ ہے کہ جب  قران مجید نے اس “شعور” کے حدود کا صریح الفاظ میں تعین نہیں کیا ہے ۔ ۔ اس بات کے لیے تو دلائل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ مگر تنبیہ کے طور پرصرف ایک بات کو یاد کرلیں   کہ جناب غامدی نے جتنے بھی موقف آج تک بدلے ہیں اس کےلیے انہوں نے قران مجید کی آیات ہی کو دلیل بنایا ہے ۔ اب کوئی بندہ ان سے پوچھ لے کہ جناب قران مجید کی وہ آیات یا توآپ کے مرجوع عنہ موقف کی مؤید ہوں گی یا پھر آپ کے مرجوع الیہ موقف کی ؟ دونوں مواقف کی آخر کس طرح وہ مؤید ہیں ؟ مگر جناب کبھی یہ نہیں بتاتے کہ میرا فلان موقف بالکل غلط تھا ۔ اور اس وقت میں نے جو فلان شخص کے موقف کی تردید کی تھی  ان کی بات درست تھی ۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ جب قران نے اس” شعور ” کے حدود کومتعین نہیں کیا   اوروحی   کا کوئی حکم  اس کے متعلق آگیا ہے تو ہم اس سے یہ سمجھیں گے  کہ  وحی   نے جو تعین اس کا کیا ہے   وہی منشائے قران ہے ۔ وجہ اس بات کی یہ ہے   کہ ہمارے پاس تو اس “شعور ” کا صرف مجہول تصورہے ۔ اس کے حدود کو متعین کرنے کے ہمارے پاس قطعی دلائل تو موجود نہیں ہیں  ۔ اس صورت میں سب سے بہترین اور خطرات سے خالی راستہ یہی ہوسکتاہے جسے بندہ مان لے ۔ کیونکہ خفی  وحی  کا سرچشمہ بھی وہی ہے جو جلی  وحی کا ہے ۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہو سکتے ہیں ۔ صرف اتناسا فرق درمیان میں ہوگا جیسے ایک پٹواری کسی کو صرف یہ بتائے کہ فلان مقام پر آپ کے والد کے نام پر چارایکڑ زمین موجود ہے ۔ اورکچھ عرصہ بعد دوسرا پٹواری آئےاور  اس زمین کے حدود متعین کرکے دے ۔ اب گاؤں کا کوئی بزعمِ خود ملک اس پر یہ اعترض نہیں کرسکتا ہے کہ زمین کا تو فلان پٹواری نے بتایا تھا مگر اس کے حدود کا تعین میں کرونگا ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دونوں پہوایوں کا منبع یعنی قانون اورنقشہ ایک ہی ہے ۔ گاؤں کا ملک تو اس سلسلے میں بالکل اجنبی ہے ۔ اس کا اس معاملے میں ٹانگ اڑانا یا تو اس کی جہالت ہے یا پھر محض ضدوعناد   اور کچھ نہیں ۔ بس ایسا ہی معاملہ ادھر بھی سمجھ لیجئے ۔ (5) پانچویں وجہ اس خلل اورفساد کی یہ ہے کہ وحی  کے جس حکم کو جناب خلافِ منشائے آیاتِ قرانی سمجھ کر رد کردینا چاہتے ہیں   تو اس کی  تردید سے وہ جس اصول کو بچانا چاہتے ہیں   اس کا بھی صفایا ہوجاتاہے ۔وہ اصول بچتا قطعا نہیں ہے ۔ جناب غامدی نے اس کتاب میں آگے اس بات کی تصریح کی ہے کہ سنت قران سے مقدم ہے ۔ ہمیں ان کی اس بات سے اتفاق بالکل نہیں ہے   مگر ان کی بات ان پر تو بہرحال حجت ہے ۔ اس سنت سے مراد اگر جناب غامدی کی یہ ہے کہ   وحی خفی وحی جلی  سے مقدم ہے اوربنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت ونبوت سے قبل  وحی خفی کی بنیاد پر مشرکین عرب میں رائج بعض احکام کو قبول کرکے عملی بنادیتے تھے ۔ تو یہ بات قابلِ فہم ہے اور اگر جناب کی مراد یہ ہے کہ وہ رسوم اوراحکام جو بعثتِ نبوی سے پہلے مشرکینِ عرب میں مروج تھے ۔ وہ بغیر  وحی خفی  کی تایئد کے بھی ہمارے  لیے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سنت کا درجہ رکھتے  تھے اور قران سے مقدم ہیں ۔ تو یہ سراسر جہالت کا کرشمہ ہے کیونکہ وہ رسوم واحکام اس وقت نہ ہمارے لیے قابلِ اتباع تھے اور نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ۔ اور نہ ہی اس بات کے لیے کوئی دلیلِ شرعی موجود ہے ۔ پھراگر ہم جناب کی تحقیق ہی پر اکتفاء کرلیں اور ان کے بیان کردہ اصول کو ہی من وعن تسلیم کرلیں   تو اس سے بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ قران مجید نے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتِ ابراہیم کے اتباع کا حکم کیا تھا ۔اس سے معلوم ہوا کہ قران مقدم ہے ۔ لہذا سنت کو مقدم ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ   وحی خفی   کووحی جلی پر مقدم مان لیا جائے ۔ اگر جناب ایسا کرتے ہیں   تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ  وحی خفی   اصل اوربنیادہے جبکہ   وحی جلی کی مثال اس بنیاد پر عمارت کی سی ہے ۔ پس جب آپ نے  وحی خفی  کو قران کے منشاء کے خلاف کہہ کر رد کردیا   تو اس کامطلب یہ ہوا کہ بنیاد مٹ گئی اورمحو ہوگئی ہے ۔ بنیاد کے ڈھےجانے اورمحو ہوجانے کے بعد اوردرخت کاتنہ کٹ جانے کے بعد صرف احمق لوگ عمارت اور درخت کے قائم ودائم رہنے پرخوشی مناسکتے ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…