محمد حسنین اشرف
نظم:۔
پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔
۔” جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم کی ہدایات ہیں”۔
عمومی طور پر کوئی بھی ایسی شے جو متن کے فہم کو لازم ہو یا متن کو
intelligible
بنانے کے لئے لازم ہو وہ متن کا حصہ ہوتی ہے یعنی قاری کو اسے اخذ نہیں کرنا پڑتا۔ پھر اس میں اور متن میں ایک نوعیت کی پرائیوریٹی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ متن کو
intelligible
بناتی ہے سو ایسی کسی بھی چیز کو متن پڑھ کے اخذ کرنے کی بات نہایت لایعنی ہے۔ ذرا اس بات کو یوں سوچیے:
اگر میں یہ کہوں کہ اس تحریر کو پڑھ کے آپ کو ایک ایسی شے پہلے دریافت کرنی پڑے گی جس کے نتیجے میں یہ تحریر آپ کو سمجھ آنے لگی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ تحریر
intelligible
ہی نہیں ہے کیونکہ پہلی بار جب آپ پڑھیں گے تو وہ بغیر اُس شے کے پڑھیں گے جو اس تحریر کو پڑھ کے سمجھنے کی شرط ہے۔ اس سے آپ کبھی وہ شے دریافت ہی نہیں کرسکیں گے جس سے یہ تحریر سمجھ آ سکے تو کوئی بھی اس نوعیت کی شے یا تو متن کا حصہ ہوگی اس صورت میں کہ وہ
textual property
ہوگی یا متکلم اسے متن کا حصہ بنائے گا اور وہ “فہم” نہیں بلکہ “فہم کی شرط” ہوگی۔ یعنی وہ متن کو قاری کے لیے قابل فہم بنائے گی۔
اچھاآپ اگر یہ کہیں کہ یہ نظم متن کو قابل فہم نہیں صرف اس کے جوہر تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے تو پھر بھی نہایت عجیب صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ اول تو یہ دعوی اپنے آپ تقاضا کرتا ہے کہ اس کو دیکھا جائے بفرض محال اسے جوں کا توں مان لیجیے تو اب جو دعوی کر رہے ہیں وہ متکلم کی
Inability
کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اس سے متن کے ساتھ تعلق کی جو میکانکی صورت پیدا ہوتی ہے وہ بھی دیکھنے کی شے ہے۔