تحت الشعور، تاش کے پتّے اور غامدی صاحب (2)

Published On May 15, 2025

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر اسرار احمد پر طنز اور استہزا کا اسلوب
اب اس باب سے اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جو غامدی صاحب نے ’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر اسرار صاحب پر تنقید میں لکھا۔ یہاں بھی انھیں بقول ان کے شاگردوں کے، کم از کم یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ ڈاکٹر اسرار صاحب عمر میں ان سے بہت بڑے تھے ! غامدی صاحب نے ان تنقیدوں کے لیے جو عنوان منتخب کیا ہے وہ بھی قابل توجہ ہے : ”اہلِ بیعت کی خدمت میں “۔ یہ عنوان قائم کرکے وہ لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے جذبۂ بے اختیار شوق کو کچھ تھام کر رکھیں، بہت سی سعادتیں وہ بیعت سمع و طاعت کے بغیر بھی حاصل کر سکتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ وہ اُنھی پر اکتفا کریں۔۔۔ اِس طرح کی تحقیقات میں اُن کا منبع الہام اگرچہ بالعموم اُن کا شرح صدر ہوتا ہے ، لیکن طوعاً و کرہاً اب اُنھوں نے دلیل و برہان کی راہ اختیار کر لی ہے تو تھوڑی دیر کے لیے اِسی میدان میں ٹھیر کر ہماری یہ معروضات بھی سن لیں۔“
مزید فرماتے ہیں:
”بات اگر دلیل و برہان کی ہوتی تو یہاں ختم ہو جاتی ، لیکن معاملہ اُن لوگوں سے آ پڑا ہے جو آفتاب کے وجود پر حجت کرتے اور مانی ہوئی باتوں کو بھی مان کر نہ دینے پر اصرار کر رہے ہیں۔۔۔ ”ڈاکٹر صاحب کے دوسرے اساطیر کی طرح اُن کے یہ تازہ ارشادات بھی حقیقت یہ ہے کہ بالکل بے بنیادہیں۔“
اگر اب بھی آپ کو غامدی صاحب کے اعلی اخلاق پر ایمان نصیب نہیں ہوا، تو درج ذیل ارشاد دیکھ لیجیے جو غامدی صاحب کے اعلی اخلاقی اسلوب کےلیے برہانِ قطعی کی حیثیت رکھتی ہے:
”یہ حقیقت ہے کہ پچھلے دس سال سے ہم اُن کی خدمت میں یہی عرض کررہے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی جدوجہد کے لیے اگر کو ئی تنظیم قائم کی جائے تو اُس کے قائد اور رفقا کا باہمی تعلق بھائیوں کا ہونا چاہیے ، اوروہ اِس بات پرمصر ہیں کہ وہ اُنھیں بیوی بنا کر رکھیں گے۔“
ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر طنز اور استہزا کا اسلوب
اب اس باب سے اقتباسات ملاحظہ کیجیے جو غامدی صاحب نے’احساسِ ذمہ داری‘ کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری پر تنقید میں لکھا۔ یہاں ان کا قلم بالخصوص کچھ زیادہ ہی رواں ہےاور اس روانی میں انھوں نے صرف ڈاکٹر صاحب کو ہی نہیں بلکہ امام رازی اور دیگر مفسرین اور قاضی عیاض کو بھی تختۂ مشق بنایا ہے۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
”پروفیسر طاہر القادری صاحب کے دینی نقطۂ نظر کے بارے میں کچھ بہت حسن ظن تو مجھے اِس سے پہلے بھی نہیں تھا۔۔۔میں پور ے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی شخص جو عربی زبان سے شد بد واقفیت بھی رکھتا ہو، اِس آیت کا یہ ترجمہ نہیں کرسکتا۔اِس زبان کی کوئی نئی قسم اگر ’’منہاج القرآن‘‘میں ایجاد کرلی گئی ہے یا پروفیسر صاحب پرآسمان سے براہ راست الہام ہوئی ہے تو یہ دوسری بات ہے۔“
اگر آپ غامدی صاحب کے اعلی اخلاق پر مزید دلیل چاہتے ہیں تو درج ذیل عبارت دیکھ لیجیے:
”اس کے بعد اب لے دے کر ایک قاضی عیاض کی’’الشفا‘‘ رہ جاتی ہے جسے یہ حضرات اپنی تائید میں پیش کر سکتے ہیں ،لیکن کیا ’’الشفا‘‘کی یہ عبارت جس کا حوالہ اُنھوں نے دیا ہے ، فی الواقع یہ حیثیت رکھتی ہے کہ اِس کی بنیاد پر قرآن مجید میں یہ تحریف گواراکر لی جائے؟ہم بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کرنے کی جسارت کریں گے کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب کے ترجمے کا ماخذاگر یہی ہے تو پھر یہ عیب کی طرح چھپانے کی چیز ہے۔اِسے یوں سر محفل بیان کرنا پروفیسر صاحب کے لیے کچھ باعث عزت نہ ہو گا۔ پروفیسر صاحب کے بارے میں ہم یہ خیال تو نہیں کر تے تھے کہ وہ اعلیٰ عربیت کے اصول پراور خود قرآن کے اپنے نظائر اوراُس کے نظم کی روشنی میں قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر کی اہلیت رکھتے ہیں ، لیکن اتنا حسن ظن بہرحال اُن کے متعلق ہمیں تھاکہ وہ جو کچھ کہیں گے ،قدما کی کسی محکم رائے کی بنیاد پرکہیں گے۔“
پھر بات ڈاکٹر طاہر القادری تک ہی محدود نہیں رہی، غامدی صاحب نے اپنے اعلی اخلاق کا مظاہرہ قاضی عیاض اور دیگر مفسرین کے بارے میں بھی کیا:
”یہ ’’الشفا‘‘جس کا اُنھو ں نے حوالہ دیا ہے ،یہ کوئی تفسیر کی کتاب نہیں ہے۔ اِس کا موضوع نحو و اعراب کے مباحث بھی نہیں ہیں۔ یہ اہل ایمان پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے بار ے میں ایک کتاب ہے جس کے مصنف کا کمال یہی ہے کہ سیرت طیبہ سے متعلق جس ردی استنباط اورجس واہی روایت کی تلاش ہو ، اُس کے بارے میں بغیر کسی تردد کے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اِس کتاب میں مل جائے گی۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ اِن تفسیر وں کے مطالعہ سے آدمی سوچنے پرمجبور ہوجاتا ہے کہ کیایہی وہ کلام ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ جن وانس اِس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہے اورجو اِس زمین پرحسن بیان اورفصاحت و بلاغت کا ایک لافانی معجزہ قرار پایا؟ ہمارا خیال ہے کہ اِن تفسیروں کو دیکھنے کے بعد تو یہ ماننا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ فی الواقع کوئی بامعنی کلام بھی ہے جس کی طرف انسان ہدایت کے لیے رجوع کرسکتا ہے۔
یہ میں نے صرف چند ہی نمونے پیش کیے ہیں، ورنہ برہان تو ساری ایسی عبارات سے بھری پڑی ہے۔ اگر یہ عبارات پڑھ کر کوئی غامدی صاحب کو 1980ء کی دہائی کا حسن الیاس کہہ دے، تو کیا غلط ہوگا؟
مجھے معلوم ہے کہ اب غامدی صاحب کے مریدانِ باصفا ان عبارات کے متعلق دو طریقے اختیار کریں گے: کچھ وہ ہیں جو کہیں گے کہ یہ پھکڑ پن نہیں ہے، نہ ہی یہ بے ادبی ہے، بلکہ یہ طنز کا بہترین ادبی اسلوب ہے؛ اور کچھ وہ ہیں جو کہیں گے کہ یہ تو غامدی صاحب کی نوجوانی کی تحریر تھی اور اب وہ ایسے نہیں ہیں۔
ان میں پہلی قسم کے لوگ، جو اندھے مقلدین ہیں، کسی جواب کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے حق میں صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے، جنون سے افاقے کی اور اندھے پن کے علاج کی۔
البتہ دوسری قسم کو یہ ضرور یاد دلائیں کہ ان تحریرات پر میں نے خود غامدی صاحب کو اپنے دوستوں کی محفل میں نازاں ہوتے دیکھا ہے اور آج بھی غامدی صاحب ان تحریرات پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ”احساسِ ذمہ داری“ کے ساتھ لکھی گئی ہیں؛ اسی احساسِ ذمہ داری کے ساتھ جس کے ساتھ آج ان کا داماد ہاتھ نچا نچا کر پوچھتا ہے کہ پہلے اسرائیل کو غاصب تو ثابت کرو!

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…