سمیع اللہ سعدی
علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔
و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔
فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں لکھے ہؤئے ہر مسئلے کی جگالی نہ کی جائے ،کیونکہ عوام بہت سارے مسائل میں ملحوظ قیود و شرائط ، پس منظر اور موقع و محل سے واقف ہوئے بغیر اسے لیتے ہیں ،جس سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے ،تراویح سنت ہے یا نفل؟اگر سنت ہے تو سنیت کس درجہ کی؟نفل ہے تو مستقل نوافل میں ہے یا تہجد ہی کی ایک صورت ہے؟نوافل کے عمومی ضابطے سے ہٹ کر اسے مسجد میں ادا کرنا بہتر ہے یا انفرادی؟ باجماعت ادا کرنا افضل ہےیا فردا فردا؟یہ سارے مباحث محض علمی ہیں ،اس لیے دینی احکامات سے تساہل کے اس دور میں ان علمی مباحث کو عوام کے سامنے اس طرح سے بیان کرنا کہ رمضان جیسے مبارک مہینے میں جو چند لوگ مسجد کا رخ کرتے ہیں اور قرآن ذوق و شوق سے سنتے ہیں ،وہ بھی مسجد سے اعراض کرنے لگ جائیں ،کوئی “دینی خدمت” نہیں ،اس کے لیے تو نبوی داعیانہ اسلوب اختیار کرنا چاہیے
من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ کہ جو رمضان کی راتوں میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اللہ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کرتے ہیں ۔
سچ کہا ہے کسی نے “یک من علم را دہ من عقل می باید کہ ایک من علم کے لیے دس من عقل کی ضرورت ہے ۔
افسوس غامدی صاحب پر نہیں کہ انہیں کتابوں میں پڑھی ہوئی چیزوں کی ہر صورت و ہر موقع پر جگالی کی عادت ہے ۔ دل ان “علماء”سے دکھی ہے جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے موطا امام محمد و طحاوی کے حوالے دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ شاید “علم کا کوہ ہمالیہ سر کر لیا “۔
فقہ و فتوی سے مناسبت رکھنے والا شخص بھی اگر فقہاء کی دور بینی نظر انداز کر دے تو یقینا تفقہ کا ماتم کرنا چاہیے۔