تصورِ نظمِ کلام کے مضمرات ( فکرِ غامدی پر نقد)

Published On December 5, 2023
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 92)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 92)

مولانا واصل واسطی لغت وادب پرنظر رکھنا سلفی نوجوانوں کے لیے تو ہرلحاظ سے بہت ضروری ہے ۔ دیکھو فقہ میں وہ کیسے کام آتا ہے ۔ ایک حدیث شریف میں جمعہ کے باب میں  لوگوں کے متعلق وارد ہے " عن عائشة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کان الناس ینتابون یوم الجمعة من منازلہم ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 92)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 91)

مولانا واصل واسطی ایک بات جس کو ہم اپنے احباب کے ساتھ شریک کرنا چاہتے ہیں   اور جو بات آج تک ضروری ہونے کے باوجود نظر انداز ہوتی چلی جارہی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ منکرینِ حدیث کے جواب میں جس طرح تاریخ کی تمام کتابوں کو کھنگالنا ضروری ہے بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 92)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 90)

مولانا واصل واسطی تیسری بات اصل عبارت کے حوالے سے یہ ہےکہ ہمیں اسرائیلی روایات کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ملے ہیں کہ ہم نہ توان روایات کی تکذیب کرتے ہیں اور نہ ہی تصدیق" قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا حدثکم اہل الکتاب فلاتصدقوہم ولاتکذبوہم"...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 92)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 89)

مولانا واصل واسطی آگے جناب ماسبق منزل کتابوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ " سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ۔ یہود ونصاری کی تاریخ ۔ انبیاء بنی اسرائیل کی سرگذشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قران کے اسالیب واشارات کو سمجھنے اور اس کی اجمال کی تفصیل کےلیے قدیم...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 92)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 88)

مولانا واصل واسطی پانچویں بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب نے جوکچھ اوپر مبحوث فیہ عبارت میں لکھا ہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ   ہم اس  فہرستِ سنت میں سے جس کا ذکر قران مجید میں آیا ہے ، اس کے مفہوم کاتعین ان روایات ہی کی روشنی میں کرتے ہیں ۔محض قران مجید پراکتفاء نہیں کرتے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 92)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 87)

مولانا واصل واسطی تیسری بات اس عبارت میں جناب غامدی نے یہ لکھی ہے کہ "قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہواہے ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواترپر مبنی روایت سے متعین ہو ں گی ۔ انہیں قران سے براہِ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں جائے گی " ( میزان ص 47) اس بات پر بھی جناب...

خضر یسین

ہر بامعنی لفظ، ایک اسم ہوتا ہے۔ جس کا مسمی ذہن میں ہو تو معنی یا موضوع اور خارج میں ہو تو مدلول یا معروض کہلاتا ہے۔ لفظ کے بغیر ذہن میں تصور تشکیل نہیں پا سکتا ہے اور نہ تفہیم و تفکر کا عمل ممکن ہو سکتا ہے۔ الفاظ کا مجموعہ کلام نہیں ہوتا، بامعنی الفاظ کی مخصوص لسانی ترتیب و تدوین کلام کہلاتی ہے، گویا لفظ کا بامعنی ہونا جو کردار ادا کرتا ہے، بامعنی الفاط کی لسانی ترتیب و تدوین وہی کردار تشکیل کلام میں کرتی ہے۔ زبان و بیان میں کلام اسی مخصوص ترتیب و تدوین کی وجہ سے موضوع بحث بنتا ہے۔ وہ مخصوص ترتیب و تدوین جس میں بامعنی الفاظ بامعنی ترتیب سے کلام کہلاتے ہیں، ہیئت بیان یا structure     of      expression بھی کہلاتا ہے۔ ہیئت بیان، ایک ایسی حقیقت ہے جو کلام کے وجود میں آنے سے قبل اسی طرح موجود ہوتی ہے جس طرح کائنات کی ہر شے ہمارے موجود ہونے سے قبل موجود ہوتی ہے۔ ہیئت بیان کے طے شدہ سانچے میں اپنے مطالب و مفاہیم، ہم جب ڈالتے ہیں تو وہ دوسروں کے لئے قابل فہم بنتے ہیں۔ ہیئت بیان جس طرح متکلم کے ترسیل معنی کی خواہش سے قبل موجود ہوتی ہے، اسی طرح سامع یا قاری کی اس خواہش سے پہلے موجود ہوتی ہے کہ وہ اس معنی کو سمجھ لے جو متکلم یا مصنف مجھ تک پہنچانا چاہتا ہے۔ گویا ہم جن لفظوں کے سہارے مکالمہ کرتے ہیں اور اپنے نجی شعور میں جنم لینے والے معانی میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں، وہ الفاظ ہی نہیں بلکہ وہ ابلاغی سانچے یا جملے بھی ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے بنائے جا چکے ہوتے ہیں ۔ ہم فقط ان کے استعمال میں اپنی مہارت و کمال کے خدا داد جوہر دکھاتے ہیں۔ نہیں، ہم صرف ان کے استعمال میں اپنی مہارت کے جوہر ہی نہیں دکھاتے بلکہ کام میں لاتے وقت اس شعور سے بھی دست کش نہیں ہوتے کہ ہمارے سامنے موجود انسان ہماری مہارت کی داد دینے کی پوری طرح اہلیت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیئت بیان کا پورا نظم دوسروں کے شعور میں مقدماً اسی طرح موجود ہوتا ہے جیسے ہمارے شعور میں ہوتا ہے۔ نظم کلام اسی ہیئت بیان کا دوسرا نام ہے۔ حقیقت، مجاز، تلمیح، کنایہ و اشارہ وغیرہ اسی ہیئت بیان کی صفات ہیں۔ نظم کلام یا ہیئت بیان کے بغیر کلام قابل فہم نہیں ہوتا اور نہ ابلاغ معنی کا قابل اعتماد وسیلہ متصور ہوتا ہے۔ خود کلامی ہو، مکالمہ ہو، تحریر ہو یا تقریر پہلے نظم کلام کے سانچے میں آتی ہے اور پھر کلام یا بیان بنتی ہے۔ لہذا نظم کلام کو کلام سے الگ شے سمجھنا اور اس کے مستقل بالذات وجود پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنا، کلام اور بیان کی ماہیت و ہیئت نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ نظم کے بغیر کوئی انسان کلام نہیں کرتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح اس کے بغیر انسان دوسروں کا کلام سمجھتا ہے اور نہ سمجھا سکتا ہے۔
متکلم جب اپنے ذہن میں حاصل ہونے والے معنی کو دوسروں تک پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ابلاغ کے لئے نظم کلام کی غیر ارادی پیروی کرتا ہے۔ جب وہ اپنے مدعا کا ابلاغ کر چکتا ہے تو اس کے کلام میں نظم کی سطح کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ متکلم کا کلام نظم کی اتباع میں کس درجے پر فائز ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جائزہ اور جواب دینا، ماہرین فن کا کام ہے۔ ماہرین فن نظم کے درست اور غلط استعمال کا ہی جائزہ نہیں لیتے بلکہ وہ یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی متکلم نے نظم کلام کے محاسن و معائب کو کس حسن و خوبی کے ساتھ برتا ہے اور کس نے غلط اور بے ہودہ استعمال کیا ہے۔
تقریر ہو یا تحریر، نظم ہو یا نثر، نظم کلام کا استعمال غیرارادی عمل ہوتا ہے۔ تقریر کرتے وقت مقرر ، تصنیف کرتے وقت مصنف، شعر کہتے وقت شاعر اپنے کہے کا جائزہ بعد میں لیتا ہے اور اس میں اچھے برے شعر کا انتخاب بعد میں کرتا ہے، پہلے وہ اپنا بیان منظم شکل میں مکمل کر چکتا ہے۔ نظم کلام کا استعمال عامیانہ ہو تو محتاط اور غیرمحتاط میں تقسیم ہوتا ہے۔ ماہرانہ ہو تو تخلیقی اور غیرتخلیقی میں تقسیم ہوتا ہے۔ قادر الکلامی کبھی کسی ایسے طے شدہ منصوبے کا نتیجہ نہیں ہوتی، جس پر پہلے متکلم ہوم ورک کرتا ہو اور پھر جا کر خطبہ دیتا ہو، یہ ایک فی البدیہہ عمل ہے، جس میں ارادہ تکلم میں نظم تکلم کا ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ نظم تکلم، ارادہ تکلم میں بالطبع شامل ہوتا ہے۔ ارادہ تکلم، نظم کلام پر مقدم ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نظم کلام کا پورا نظام پہلے سے موجود ہوتا ہے اور نظم کلام انسان وضع نہیں کرتا ہے۔ اس کے برعکس الوہی کلام میں ارادہ تکلم ہو چاہے ارادہ نظم تکلم ہر دو خالص ارادی عمل ہیں۔ اللہ تعالی کا ہر فعل اس کے ارادے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ الوہی کلام میں تخلیقی قادر الکلامی، ارادی ہوتی ہے اور انسانی یا غیر الوہی کلام میں غیر ارادی ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کے کلام مقدس میں نظم کلام کا ہر نمونہ اس کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے۔ انسان اس اہل نہیں ہے کہ اس کی انتقادی تحسین کا بیڑہ اٹھا سکے۔ وہ صرف اس کی تحسین کر سکتا ہے اور وہ بھی اس عجز کے ساتھ کہ اس درجے کے نظم کلام کی تخلیق پر وہ قادر نہیں ہے۔
بالعموم کلام کی دو انواع مانی جاتی ہیں ایک نظم اور دوسری نثر۔ لیکن نظم کلام، کلام کی نوع نہیں ہے بلکہ یہ وہ ترتیب و تدوین ہے جس کے بغیر الفاظ کا مجموعہ کلام نہیں ہوتا۔ چنانچہ نظم کلام مذکورہ بالا انواع یعنی نظم و نثر سے الگ شے ہے اور نظم و نثرکے لئے مقدم شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ نظم کلام جس طرح نظم میں واجب ہے اسی طرح نثر میں بھی واجب ہے۔ نظم کلام کو اس نظم سے ممتاز کرنا اور رکھنا ضروری ہے جو نثر کے مقابلے میں آتا ہے۔ نظم کلام، کلمات یا الفاظ کی اس مخصوص ترتیب و تدوین کا نام ہے جس سے ابلاغ معنی اور فہم معنی ممکن ہوتا ہے۔ انسانی ذہن کی ساخت ایسی ہے کہ جب تک لفظ نہ ہو، اس کے لئے معنی ممکن نہیں ہوتا اور جب کوئی معنی مفہوم ہو گا تو الفاظ کے وسیلے سے ہو گا۔ لفظ و معنی کے مابین رشتہ یا تعلق اس زمانی تقدم و تاخر کا نہیں ہے جسے علت و معلول کہا جاتا ہے۔ دونوں بیک وقت ذہن میں آتے ہیں، لفظ معنی کے ساتھ اور معنی لفظ کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ وقوعہ آن واحد میں ہوتا ہے، لہذا زمانی تقدم و تاخر کی ہر صورت اس مظہر کی توضیح و تشریح میں بے معنی اور بے کار ہوتی ہے۔ مثلاً احساس کا ہر مہیج شعور کی خارجی دیوار کے ساتھ آ کر چپک جاتا ہے۔ شعور میں صرف اس وقت داخل ہوتا ہے جب اپنے لئے الفاظ کا لباس حاصل کر لیتا ہے۔ یہی صورت حال نظم کلام کی ہے، بامقصد یا مفید کلام ہمارے شعور میں مفید کلام کا منصب حاصل نہیں کر سکتا، جب تک نظم کلام کا لبادہ اوڑہ نہیں لیتا۔ یوں سمجھیئے کہ نظم کلام، کلام کی وجودی شرط ہے۔ لفظ و معنی جس طرح ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح نظم کلام، بامقصد کلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
نظم کلام ایسی شے نہیں کہ جسے بہت زیادہ طویل دورانیے کے کلام میں اختیار کیا جا سکے یا برقرار رکھا جا سکے۔ داستان گوئی کے ایسے دورانیہ میں سامع یا قاری کی توجہ اس وقت منتشر ہو جاتی ہے جب نظم کلام ندرت سے خالی ہو جاتا ہے۔ متکلم اور سامع دونوں کے لئے طویل دورانیے کا نظم کلام صرف تکلف کا سبب ہی نہیں ہوتا بلکہ بے جا تکلیف کا ایسا باعث ہوتا ہے، جسے ذہنی ارتکاز سے پڑھنا اور سننا ناممکن نہ سہی، بے حد مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ کسی ایک موضوع کا بیان، مختصر، درمیانے اور نسبتاً طویل دورانیہ کے نظم کلام کے اجزاء میں منقسم ہوتا ہے۔ نظم کلام کا ایسا ہر تصور جس میں پورا بیان یا ایک مستقل باب ایک ہی نظم میں پرو دیا گیا ہو، ممکن نہیں ہوتا۔ متکلم یا مصنف اپنے سامع یا قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کی غرض سے ایک موضوع کے مختلف پہلووں پر بحث و تمحیص، تصریف کلام اور تطور کلام سے مسلسل کام لیتا رہتا ہے۔ جس میں نظم کا فوری تسلسل منقطع ہوتا رہتا ہے۔ جس سے وہ تحریر و تقریر ایک نظم کلام کا نمونہ بننے سے بچ جاتی ہے ۔ ایک پہلو کے بیان میں مختلف نظم اختیار کئے جا سکتے ہیں بلکہ کئے جاتے ہیں۔ ہر نظم کلام، ایک مطلب کے بیان کے لئے مستقل یونٹ یا وحدت ہوتا ہے۔ قاری کی توجہ کسی ایک موضوع پر مرتکز رہے، یہ ایک خوش آئند خواہش تو ہو سکتی ہے، عملاً ارتکاز توجہ کو بہت طویل دورانیہ کے لئے کسی ایک نقطے پر قائم رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ سنجیدہ متون کے قاری بہت کم ہوتے ہیں۔ فنی نوعیت کے متون میں صرف فن سے وابستہ قاری کے لئے کشش ہوتی ہے۔ علمی متون کی صورت حال بھی یہی ہوتی ہے۔
نظم کلام کی دو شکلیں ہوتی ہیں۔ ایک شکل وہ ہوتی ہے جس میں مکالمہ ممکن ہوتا ہے۔ یہ شکل وہ ہوتی ہے جس میں اظہار و بیان کے وہی معلوم و متداول ہیئت کار فرما ہوتی ہے جس کے بغیر الفاظ کا مجموعہ مفید کلام نہیں کہلا سکتا۔ جب اظہار و بیان اس ہیئت کے بغیر ہو تو نہ کلام کرنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور نہ سننے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا بیان کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے دیوانہ کا وہ اظہار ہے جسے وہ بار بار دہراتا ہے۔ الفاظ چاہے بامعنی ہوں لیکن ان کی ترتیب و تدوین سٹریکچر آف ایکسپریشن کی قید میں مقید نہ ہو تو پڑہنے اور سننے والا ہی نہیں ، بولنے والا بھی ان سے بامقصد کلام کا افادہ نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اظہار و بیان کی خارجی ہیئت میری اور آپ کی بنائی ہوئی نہیں ہے اور نہ ہی الفاظ و کلمات میرے اور آپ کے بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے الفاظ اور ان کے مدلول طے ہو چکے تھے، اسی طرح ہیئت بیان بھی پہلے سے طے ہو چکی تھیے۔ ہم صرف اسے کام میں لاتے ہیں اور اپنی قدرتی یا سیکھی ہوئی مہارت کے جوہر دکھاتے ہیں۔ ہم اظہار کی ہیئت نہیں بناتے اور نہ ابلاغ معنی اور اخذ معنی کے قواعد طے کرتے ہیں۔ ہمارا کام پہلے سے موجود اظہار کی ان ہیئتوں کا بہتر استعمال ہے اور ان کے ذریعے بہتر تفہیم حاصل کرنا ہے۔ بالفرض ہم اظہار کی ان ہیئتوں کی علمی قدر و قیمت طے نہ کر سکیں تو ہماری بے علمی یا کم علمی ان ہیئتوں کے استعمال پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی علمی بحث میں پڑے، ہم ان ہیئتوں کو استعمال میں لاتے ہیں اور انہی کے ذریعے دوسروں کی بات سمجھتے ہیں اور اپنی بات انہیں سمجھاتے ہیں۔ اگرچہ ہم اپنی تفہیم کے دوران میں یہ نہیں جان پاتے کہ فلاں لفظ بطور حقیقت استعمال ہوا ہے یا مجاز ہے، تلمیح ہے یا کنایہ وغیرہ ہے۔ عمل تفہیم مکمل ہو جانے کے بعد جب ہم پلٹ کر ہیئت بیان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان فنی نزاکتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن بالفرض اگر کوئی ان فنی نزاکتوں کے رموز و اوقاف سے واقف نہیں ہے جس سے اظہار و ابلاغ کی ہیئت تشکیل پاتی ہے تو وہ پوری کامیابی کے ساتھ ان سب کو کام میں لا سکتا ہے اور ان سے وہی معنی اخذ کر سکتا ہے جو متکلم اس تک پہچانے کا آرزومند ہوتا ہے۔
وہ ہیئت بیان جو نظم کلام کہلاتی ہے، بیان کی ہیئت کی صفت ہے۔ اس کا پورا نظم قدرتی یا فطری ہوتا ہے۔ جیسے منطق کے اصول و ضوابط ہیں یا ریاضیات کے قوانین ہیں، یہ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ ان فنون سے قدرتی ذہنی مناسبت رکھنے والا انسان ان کی فنی تفصیلات سے آگہی حاصل کرنے اور انہیں بیان کرنے میں آسانی محسوس کرتا ہے۔ اس کے برعکس وہ انسان جس کو اس نوع کے بسیط علوم و فنون سے ذہنی مناسبت نہ ہو وہ ان کا تجزیہ و تحلیل اور دیگر فنی محاسن و معائب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے آسانی محسوس نہیں کرتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بسیط علوم و فنون سے ذہنی مناسبت اور شے اور ان کا استعمال دوسری شے ہے۔ جب ہم نظم کلام کی فنی تفصیلات میں جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے استعمال کے تمام مدارج غیرارادی ہوتے ہیں۔ لیکن جب ان کی فنی تفصیلات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس کے لئے اس فن سے ذہنی مناسبت ضروری ہے اور دوسری اہم بات یہ کہ اس کی تفصیلات اور فنی محاسن و معائب بلاارادہ کبھی نہیں جانے جا سکتے۔ جب کہ ان کے فنی محاسن و معائب کا استعمال بلا ارادہ بھی ممکن ہوتا ہے۔ فنی مہارت بعض اوقات انسان میں ایک متجاوز تعصب پیدا کر دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے متعلقہ فن کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا جیسے گویا پورا نظام عالم اسی کے گرد گھوم رہا ہے۔ نظم کلام ہو یا منطق اور دوسرے بسیط علوم و فنون ہوں، ان میں مہارت بڑی قابل قدر شے ہے۔ لیکن ان فنون کے ماہرین کا یہ خیال حد سے متجاوز ہے کہ ان کے فن سے آگہی کے بغیر زبان و بیان ممکن نہیں ہے اور نہ ہی زبان و بیان سے وابستہ مفادات کار آمد ہیں۔
نظم کلام کا ایک عامیانہ استعمال ہوتا ہے۔ عامیانہ استعمال کی مزید دو صورتیں ہیں۔ ایک غیرمحتاط استعمال ہے اور دوسرا محتاط استعمال ہے۔ علاوہ ازیں نظم کلام کا ایک کا ماہرانہ استعمال ہوتا ہے اور ایک تخلیقی یا قادرانہ استعمال ہوتا ہے۔ ماہرانہ استعمال سو فیصد غیرارادی ہوتو یہ تخلیقی ہوتا ہے۔ شاعر، ادیب اور ماہرین لسانیات اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ شعر و ادب جب تخلیق ہو تو یہ آمد و آورد غیر ارادی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بعض لوگ اسے “تنزیل من رب العالمین” سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شعر و ادب کبھی ارادی عمل نہیں ہوتا۔ جب ارادی عمل ہوتا ہے تو تخلیق کا عمل متاثر ضرور ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ انسانی تخلیق و تصنیف میں ممکن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس “تنزیل من رب العالمین”، رب العالین کی جانب سے سو فیصد ارادی ہوتی ہے جب کہ عالم انسانیت میں اس کا مہبط یعنی نبی علیہ السلام کی ہستی کے ارادے کو اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ کہ جہاں تک الوہی کلام اور اس کے نظم کا تعلق ہے تو وہ الوہی ارادے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جہاں تک انسانی کلام میں موجود نظم اور اس کے ماہرانہ استعمال کا تعلق ہے تو اسے الوہی کلام اور اس میں پائے جانے والے نظم سے ممتاز رکھنا ضروری ھوتا ہے۔ قرآن مجید کا نظم کلام تو اسی ہیئت بیان میں ہے جس میں انسان ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں۔ لیکن اس نظم کا استعمال ایسا تخلیقی ہے جس میں تخلیق کا الوہی ارادہ کار فرما ہے۔ انسان اپنے ارادے سے نظم کلام تخلیق کرے یا غیر ارادی تخلیق پیش کرے، الوہی کلام اور نظم کلام کی مثل، بدل اور ہمسر پیش نہیں کر سکتا۔
بعض لوگ قدرتاً فصیح اللسان ہوتے ہیں، کچھ اس معاملے میں بالکل ہی ناقص ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کا عطیہ ہے، اس کا تعلق تعلیم یافتہ ہونے اور نہ ہونے سے نہیں ہے۔ ایک تعلیم یافتہ نظم کلام کے تمام داخلی و خارجی مسائل اور ان کے حل سے آگاہ ہو کر بھی ان کا استعمال مناسب درجے تک کر لیتا ہے اور دوسرا تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود زبان و بیان پر اپنی قدرت کی دھاک بٹھا دیتا ہے۔ شعلہ بیان مقرر، بہترین ادیب و مصنف کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ، شرط نہیں ہے۔ نظم کلام اور اس کے استعمال پر قادر مقرر، مصنف، شاعر اور ادیب کی مقبولیت کی اصل وجہ اس کی قدرت ہوتی ہے۔ نظم کلام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ کو ایک ایسی جگہ پر بیٹھاتا ہے یا فٹ کرتا ہے کہ مصنف اور قاری باوجودیکہ دو مختلف شخصیات ہوتے ہیں، ان کی پسند و ناپسند بھی اپنی اپنی ہوتی ہے لیکن اس لفظ سے دونوں کے اذہان میں ایک ہی معنی مفہوم ہوتے ہیں۔ نظم کلام ایک زندہ رود ہے، ایک بہاو ہے جس میں الفاظ و کلمات اپنا انفرادی تشخص ختم کر دیتے ہیں اور اس بہاو کے جبر میں آ کر اس معنی کی جانب اشارہ کناں ہوتے ہیں جس طرف مصنف انہیں اشارہ کناں بناتا ہے۔ قاری اگر تربیت یافتہ ہو تو یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی توجہ کو سیاق کلام کے پیدا کردہ نظم سے منحرف کر سکے۔ اسی طرح نظم کلام لفظ کو اس طرح باندھ دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے معنی پر دلالت کا اہل ہی نہ رہتا۔
نظم کلام کی پہلی شکل کلام کے وجود کی ضمانت ہوتی ہے اور اس کے مفید کلام ہونے کی شرط ہوتی ہے۔ یہ نظم کسی معنی میں بھی موضوعی نہیں ہوتا۔ کلام جس طرح ایک خارجی حقیقت ہے بالکل اسی طرح نظم بھی خارجی اور واقعی حقیقت ہے جو اسے قابل فہم بناتا ہے۔ کلام کا وہ نظم جو موضوعی ہوتا ہے وہ کلام کے سیاق سے پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی سیاق کلام اس نظم کا سبب ہوتا ہے۔ موضوعی نظم، نظم کلام کی دوسری شکل ہے۔ خارجی نظم قاری کے ذہن کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے، اس کے برعکس موضوعی نظم تصنیف کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے اور متن کے منہ ہاتھ ڈال کر اس کے جبڑوں سے زبردستی وہ معنی برآمد کر لیتا ہے جو نہ متن کا منشاء ہوتے ہیں اور نہ مصنف کا مقصود ہوتے ہیں۔ موضوعی نظم کو آپ لاکھ بار خارجی نظم قرار دیتے رہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل حقیقت اس وقت سامنے آتی ہےجب آپ متن کے متعلق اپنا وہ موقف پیش کرتے ہیں جو آپ کا امتیازی وصف اور ٹریڈ مارک ہوتا ہے۔
محترم غامدی صاحب جس نظم کا ذکر کرتے ہیں اور اسی نظم سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن مجید سرگذشت انذار ہے، اب قرآن مجید کا نظم کلام جو اس کے مصنف کی جانب سے اختیار کیا گیا ہے، وہ اس کے سیاق میں مستعمل الفاظ کی معنوی جہت طے کرتا ہے اور ہدایت کی معنویت کا مکمل احصاء کرتا ہے۔ ہدایت کس طرح، اساطیر الاولین ہو سکتی ہے؟ آپ جانتے ہیں، سرگذشت انذار کی ترکیب اساطیر الاولین کا بیان ثانی ہے ۔ ان کا یہ تصور قرآن مجید کے اپنے نظم کلام سے تو برآمد نہیں ہوتا، یہ ان کا اپنا وضعی نظم ہے جسے وہ قرآن مجید پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اسے ہدایت بالذات کے بجائے ایک تاریخی کہانی بنا دیتے ہیں۔ دوم ، نظم قرآن سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج کے دور میں پورا قرآن مجید، انسان کے لئے ہدایت نہیں ہے، یہ تصور بھی ایک قبل از تحقیق مفروضہ  ہے۔ قرآن مجید کا نظم کلام تو اس کے برعکس پر دلالت کرتا ہے۔ وہ تو یہ بتاتا ہے کہ وہ رب العالمین کی طرف سے عالم والوں کے لئے ہدایت ہے اور اسی معنی میں ہدایت ہے جس معنی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ہدایت ہے۔ سوم وہ جس نظم کلام کا تذکرہ کرتے ہیں، اسی نظم سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج کے انسان کو قرآن مجید کے بجائے المیزان کی ضرورت ہے جو ان حشو و زوائد کو خارج کرنے میں معاون بلکہ فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جو آج کے انسان کے لئے صرف قرآن مجید پر قناعت کرنے سے پیش آ سکتی ہیں۔ چہارم، قرآن مجید میں سے غامدی صاحب کا دریافت کردہ نظم کلام انہیں فکری طور پر قانون اتمام حجت تک لے آتا ہے وغیرہ وغیرہ، یہ سب کچھ وہ ہے جو قرآن مجید کے نظم کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ وہ تصورات ہیں جن کے ذریعے قرآن مجید سے معنی اخذ کئے جاتے ہیں۔ یہ غامدی صاحب کا موضوعی نظم ہے جو انہوں نے قرآن مجید پر مسلط کیا ہے اور اس سے یہ نتائج اخذ کئے ہیں۔ وہ اپنے اسی موضوعی نظم سے حاصل کردہ نتائج کے متعلق متردد بھی ہیں، وہ کہتے ہیں یہ اللہ کی مراد ہیں یا نہیں ہیں۔ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے بالکل برعکس نظم کلام تو انسان کو فہم معنی میں تیقن کی دولت سے سرفراز کرتا ہے۔ اگر نظم کلام متکلم اور سامع اور مصنف و قاری کے مابین اشتراک فی العلم کو یقینی نہ بنائے تو اس کی حالت بالکل وہی ہو گی جسے فارسی میں کہا جاتا ہے من چہ می سرایم و طنبورہ من چہ می سراید
غامدی صاحب ایک طرف قرآن مجید کو فیصلہ کن حیثیت دیتے ہیں دوسری طرف اس کے معنویت کو معرض شک میں ڈال کر اس کی فیصلہ کن پوزیشن کو صفر کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید کو قطعی الدلالہ بھی کہتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے اپنے ماخوذات ذہنیہ کی نسبت یقین سے بھی محروم نظر آتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قطعی الدلالہ کا مفہوم و مدلول بھی اپنے ذہن میں وہ نہیں رکھتے جو معروف و متعارف ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ جس نظم کلام کی وہ بات کرتے ہیں وہ قرآن مجید کے اندر ہے، دوسری طرف جن نتائج کو وہ برآمد کرتے ہیں، وہ قرآن مجید کا منطوق ہیں اور نہ ومدلول ہیں۔ وہ نظم کلام جس سے وہ اپنے فکری نتائج برآمد کرتے ہیں، اگر قرآن مجید کی صفت ہے تو انہیں اپنے نتائج کی نسبت تردد نہیں ہونا چاہیئے۔ اس لئے کہ نظم کلام تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ مصنف و قاری کے مابین مشترک وسیلہ سے اشتراک فی العلم پیدا کرے۔ اب اگر مصنف اور قاری کے مابین یہ نسبت قائم نہیں ہو رہی تو اس کی وجہ اس کے سواء کچھ نہیں کہ مصنف و قاری کے مابین وسیلہ اشتراک ضائع ہو گیا ہے، جس نے دونوں کے مابین مفید اور بامقصد کلام کو ممکن بنانا ہوتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…