حسن بن علی
غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور ان کے نزدیک تخصیص و تنسیخ بیان کی کیٹگری سے باہر کی چیزیں ہیں لہذا حدیث سے قرآن کی کسی آیت کی نہ تخصیص (آیت کو تمام افراد کی بجائے بعض افراد سے متعلق کرنا) ہو سکتی ہے نہ تنسیخ (آیت کو تمام زمانوں کی بجائے بعض زمانوں سے متعلق کرنا)
اسی اصول کے پیش نظر غامدی صاحب سورۃ نور میں موجود زنا سے متعلق سو کوڑوں کی سزا کو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں کے لیے عام مانتے ہیں بخلاف (اجماع) دیگر جو کہ سورۃ نور میں مذکور سو کوڑوں کی سزا کو صرف غیر شادی شدہ مرد وعورت کے ساتھ خاص مانتے ہیں، رہے شادی شدہ مرد وعورت، اگر وہ اس قبیح فعل کا ارتکاب کریں تو ان کے لیے حدیث میں رجم (سنگسار) کی سزا مقرر کی گئی ہے، جس سے غامدی صاحب انکاری ہیں۔
عرض یہ ہے کہ اگر قران نسخ شریعت (سابقہ شریعت کے نسخ ) کو بھی بیان کی کیٹگری کے اندر شامل کرتا ہے تو غامدی صاحب شریعت کے اندر کسی حکم کی منسوخی کو بیان کی کیٹگری سے باہر رکھنے پر مصر کیوں
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
کہ ہم کوئی آيت (حکم) منسوخ نہیں کرتے یا یا اسے نہیں بھلاتے مگر اس سے بہتر یا اس جیسی (جيسا) لے آتے ہیں۔
نظم كلام (سیاق و سباق) کی رو سے قران کی یہ آیت اس چیز پر دال ہے کہ اہل کتاب (اور مشرکین)، رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر حکم نازل ہونے پر معترض تھے تو جوابا اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ ہم کوئی حکم منسوخ نہیں کرتے مگر اس سے بہتر يا اس جیسا لے اتے ہیں. (اس سے پہلی آیت میں فرمایا کہ اہل کتاب نہیں چاہتے اور نہ مشرکین کہ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے کوئی خیر اترے اور اللہ تعالی خاص کر لیتا ہے اپنی رحمت سے جس کو چاہے)
اور اسی آیت کے لحاق میں اللہ تعالی نے اہل کتاب کی شریعت کو اس خیر سے بدلنا (اہل کتاب کی شریعت کو منسوخ کرنا ) جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو رہا ہے، بیان قرار دیا (من بعد ما تبين لهم الحق)۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ اہل کتاب میں سے اکثر یہ چاہتے ہیں کہ وہ تمہیں ایمان لانے کے بعد کافر بنا دیں اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے، بعد اس کے کہ حق کا بیان ہو چکا۔
نوٹ: واضح رہے کہ صاحب تدبر قرآن (اصلاحی صاحب) نے یہاں شریعت موسوی کوشریعت محمدى سے بدلنا (نسخ شریعت ) ہی مراد لیا ہے۔
اور اگر نظم کلام سے ہٹ کر دیکھا جائے اور آیت کا وہ معنی کیا جائے جو کہ اکثر مفسرین کے ہاں مراد ہے یعنی کہ شریعت کے اندر کسی حکم کی منسوخی تو جب اللہ تعالی نے نہ صرف شریعت کے کسی حکم کی منسوخی کو اپنی طرف منسوب کیا (ما ننسخ من ايه) بلکہ شریعت کے حکم کا بیان بھی اپنی طرف منسوب کيا (ثم انا علينا بيانه) تو اس سے بھی یہی نتیجہ برامد ہوتا ہے کہ نسخ اور بیان کے مابین رشتہ تداخل کا ہے نہ کہ تعارض کا، لہذا رسول کی ذمہ داری بيان (لتبين للناس ما نزل عليهم) کے اندر نسخ بھی شامل ہے۔
اور لفظ بیان کا ایک لغوی مفہوم انفصال کا بھی ہے یعنی ایک شے کا دوسری شے سے جدا ہو جانا. آيت ‘حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر’، اسی طرح حدیث ‘الحلال بين والحرام بين’ سے یہ ظاہر ہے. تو لفظ عام کے حکم کے اطلاق سے بعض افراد کا انفصال جو کہ تخصیص ہے اور اسی طرح حکم کے اطلاق سے بعض زمانوں کا انفصال جو کہ نسخ ہے، بیان کی لغوی تحقیقات سے باہر نہیں۔
مزید براں آيت ‘ان جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا’ کی ایک متواتر قراءت (عن حمزة، الكسائي وخلف) لفظ ‘فتبينوا’ کی جگہ ‘فتثبتوا’ بھی ہے. ٹھیک ہے غامدی صاحب قراءت حفص کے علاوہ دیگر قراءت کے قرآن ہونے کے قائل نہیں لیکن لفظوں کے معنی کی وضاحت میں قراءت کو دخل ہے اسی وجہ سے جامع کتب تفسیر اس سے خالی نہیں. یعنی بیان کا ایک مطلب تثبيت بھی ہے. لہذا کس چیز کو ثابت رکھنا ہے اور کس چیز کو منسوخ کرنا لغوی مفہوم کے اعتبار سے بھی، بیان کی ہی کیٹگری میں شامل ہے۔