حسن بن عل
غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی بیان (وہ بيان جس کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ہے) کی کیٹگری سے باہر کی چیز ہے. اس کے برخلاف مولانا امین احسن اصلاحی بذریعہ حدیث قرآن کے مطلق کی تقيید کے قائل ہیں۔
اس كى ايک مثال اس طرح ہے کہ قرآن نے حالت احرام میں بال منڈوانے کی صورت میں فدیہ لازم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فدیہ روزے میں سے یا کھانے میں سے یا قربانی کی صورت ادا کیا جائے گا. اب قرآن نے نہ روزے کی تعداد مقرر کی ہے نہ خیرات کی مقدار نہ کوئی خاص قربانی كا جانور. لیکن جب ہم حدیث کو دیکھتے ہیں تو حدیث قرآن کے اطلاق میں تقيید پیدا کر رہی ہے یا دوسرے لفظوں میں قرآن میں وارد روزے اور خیرات کی مطلوب صورت اور کم از کم مقدار کا تعین کر رہی ہے اور وہ حدیث (صحیح بخاری ١٨١٥) میں تین روزے، چھ مساکین کو کھانا کھلانا (ایک مسکین کو آدھا صاع) اور قربانی کے جانوروں میں سے کوئی بھی جانور بطور فدیہ دینا بیان کیا گیا. لہذا امتثال امر تب ہی قرار پائے گا جب اس اس بیان کردہ کم از کم مقدار پر پورا اترا جائے گا۔
لیکن غامدی صاحب كا زیر نظر آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو ذکر کرنے (اور ان کا اس حدیث کو ذکر کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک صحيح ہے) کے باوجود یہ کہنا ہے کہ
“اصل میں ’فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْصَدَقَۃٍ اَوْنُسُکٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں. اِن کا یہ اسلوب دلیل ہے کہ فدیے کی تعداد اور مقدار کا معاملہ لوگوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے” (اليان)
جبکہ غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی نے بذریعہ حدیث مطلق كى تقييد کو واضح طور پر قبول کیا ہے اور ان کے الفاظ یہ ہیں۔
“قرآن میں اس کفارے کی تین صورتیں بالإجمال بیان ہوئی ہیں. روزے یا صدقہ یا قربانی. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجمال کی تشریح فرما دی ہے کہ یا تو تین دن کے روزے رکھ دے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا کم از کم ایک بکری کی قربانی دے دے” (تدبر قرآن)
دونوں صورتوں میں واقع فرق کو سمجھنا ہو تو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ قرآن نے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم ديا یعنی بقرة جو کہ اسم نکرہ مطلقہ ہے یعنی وہ کوئی بھی ایک گائے ذبح کر ڈالتے تو امتثال امر ہو جاتا یعنی یہ ایک مکمل حکم تھا لیکن آخركار خدا کی طرف سے اس میں کچھ قيود کا اضافہ کر دیا گیا جو کہ گائے میں پائی جانا ضروری ٹھہریں جیسے خاص عمر اور خاص رنگ. اس سے جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب نکرہ مطلقا آئے تو اس پر عمل کی صورت میں صرف جنس کی قید ہے باقی اوصاف میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں لیکن جب نکرہ کے ساتھ اوصاف بیان کر دیے جائیں تو ان اوصاف کے ساتھ حکم کو پورا کرنا ضروری ٹھہرتا ہے. (غامدی صاحب نے اپنى کتاب برہان میں اپنے تصور بیان کو اسی مثال سے واضح کیا ہے)
اب اگر بذریعہ موسى علیہ السلام اضافی قیود لاگو ہونے کے بعد بھی بنی اسرائیل کوئی سی بھی گائے ذبح کر ڈالتے تو کیا یہ تب بھى حكم كى تعميل قرار پاتا؟ اگر ايسا نہیں تو بالکل اسی طرح جب اللہ کے رسول نے روزے اور صدقے کے حوالے سے اضافی قیود کا تعین كر ديا تو کیا پھرکسی کے لیے ان اضافی قيود سے ہٹ کے کوئی اختیار تسلیم کیا جا سكتا ہے؟
دوسرا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روزوں اور مساکین کی تعداد کا مقرر کرنا اور آیت كو اس کے عموم (روزوں اور خيرات كى كى غير مقررہ تعداد اور مقدار) پر برقرار رکھنے کی بجائے متعین کرنا كيا معنى رکھتا ہے يا دوسرے لفظوں میں اگر خدا نے یہ معاملہ لوگوں پر ہی چھوڑنا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین روزوں اور چھ مساکین کی تعيین کیوں فرمائی۔
تيسرا یہ کہ اس حدیث کی بابت یہ بھی کہا جا سکتا تھا (ليكن غامدی صاحب نے ایسا کوئی احتمال ذکر نہیں کیا) کہ یہ بات خاص ان صحابی سے متعلق ہے جن کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ ہدایت دی نہ کہ عمومی ہدایت لیکن انہی صحابی نے ایک اور روایت (صحیح بخاری ٤٥١٧) میں یہ بیان کر کے اس گمان کی از خود تردید کر دی کہ یہ آیت نازل تو میرے بارے میں ہوئی لیکن اس کا حکم سب کے لیے عام ہے (حدیث کے الفاظ یہ ہیں فنزلت في خاصه ولكم عامه)
لہذا استخفاف حدیث کے حوالے سے فیصلہ كن امر حدیث کو محض اپنی کتاب میں جگہ دینا نہیں بلکہ حدیث کو وہ مطلوبہ جگہ دینا ہے جس کا وه بطور قول رسول تقاضا رکھتی ہے ۔