غامدی صاحب اور انکارِ حدیث (قسط 2)

Published On June 24, 2024
علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف

ابو عمار زاہد الراشدی اول- اس بحث کا پس منظر غالباً عید الفطر کے ایام کی بات ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی نے پشاور پریس کلب میں جہاد، فتویٰ، زکوٰۃ، ٹیکس اور علماء کے سیاسی کردار کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ملک کے جمہور علماء کے موقف اور طرز عمل سے مختلف...

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے اصولوں کا ایک تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر الشریعہ کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھی جانے والی دو تحریریں نظر سے گزریں ، جن کے حوالے سے کچھ گزارشات اہل علم کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ جناب طالب محسن صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے سنت کے متعلق رقم طراز ہے کہ " دوم یہ کہ سنت قران کے بعد نہیں   بلکہ قران سے مقدم ہے ۔ اس لیے وہ لازما اس کے حاملین کے اجماع وتواتر ہی سے اخذ کی جائے گی ۔ قران میں اس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے   ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع وتواتر پر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 84)

مولانا واصل واسطی تیسری وجہ اس بنیاد کے غلط ہونے کی یہ ہے   کہ جناب غامدی نے قران مجید کی جن آیات کو اس کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیاہے اس کو تسلیم کرنے کے بعد بھی انسان یہ سمجھتاہے   کہ اس کو جو  ہدایت   دی گئی ہے اور جو " شعور " عطا کیاگیا ہے وہ محض اجمالی " معرفت...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 83)

مولانا واصل واسطی دوسری بات اس خلل کے متعلق یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ " شعورِخوب وناخوب کو اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں ودیعت کیا ہے اور اسے ان کی فطرت میں رکھا ہے " اس بات تک وہ انسانی فطرت کے براہِ راست مطالعے کے نتیجے میں نہیں پہنچے ۔ نہ ان لوگوں نے براہِ...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 85)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 82)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگے لکھتے ہیں " قران کا یہی پس منظر ہے جس کی رعایت سے یہ چندباتیں اس کی شرح و تفصیل میں بطورِاصول ماننی چاہیئں (1) اول یہ کہ پورا دین خوب وناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتاہے جوانسانی فطرت میں روزِاول سے ودیعت ہیں ۔اور...

محمد رفیق چوہدری

میرے نزدیک غامدی صاحب نہ صرف منکر ِحدیث ہیں۔ بلکہ اسلام کے متوازی ایک الگ مذہب کے علمبردار ہیں ۔ ان کے بارے میں ، سال بھر سے مسلسل میں ماہنامہ ‘محدث’ میں لکھ رہا ہوں اور یہ تمام تحریریں ایک مستقل  کتاب ‘غامدی مذہب کیا ہے؟’ کی صورت میں مطبوعہ شکل میں سامنے آچکی ہیں جس میں دلائل و براہین اور حوالہ جات کے ساتھ اس فتنۂ تازہ کا علمی تعاقب کیا گیا ہے۔

غامدی صاحب کے منکر ِحدیث ہونے کے کئی وجوہ ہیں ۔ وہ اپنے من گھڑت اُصولِ حدیث رکھتے ہیں ۔ حدیث و سنت کی اصطلاحات کی معنوی تحریف کرتے ہیں اورہزاروں اَحادیث ِصحیحہ کی حجیت کا انکار کرتے ہیں ۔

حدیث وسنت کے بارے میں ان کے انوکھے نظریات کی فہرست کافی طویل ہے لیکن ہماری موجودہ گفتگو ‘سنت’ کے اصطلاحی مفہوم تک محدود رہے گی۔ باقی مباحث ان شاء اللہ محدث کے آئندہ شماروں میں بیان کئے جاتے رہیں گے۔

سنت’ کی اصطلاح کا مفہوم بدلتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں
”سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں اس کا حکم آپ کے لئے اس طرح بیان ہوا ہے 
ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٢٣…سورة النحل
پھر ہم نے تمہیں وحی کی کہ ملت ِابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یکسو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔” 1

اسلامی شریعت میں ‘سنت’ کی اصطلاح کا کیا مفہوم ہے؟ یہ اصطلاح چودہ صدیوں سے اُمت ِمسلمہ کے ہاں کن معنوں میں مستعمل ہے؟ اور غامدی صاحب اس اصطلاح سے اپنا کیا مفہوم نکال رہے ہیں اور اس بارے میں قرآنِ مجید کی جس آیت سے وہ دلیل پیش کررہے ہیں ، وہ کہاں تک صحیح دلیل ہے؟ اس پر بعد میں گفتگو کی جائے گی۔ سردست ہمیں ان کے اس اندازِ بیان اور طرز ِ کلام کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہے جو اُنہوں نے سنت کامطلب بیان کرتے ہوئے اختیار فرمایا ہے ۔سنت سے ہماری مراد یہ ہے

غامدی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ‘سنت’ ایک اسلامی شرعی اصطلاح ہے جو اپنا ایک مسلمہ اور متعین مفہوم رکھتی ہے۔ یہ مقدس اصطلاح کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ کوئی شخص اُٹھ کر اپنے جی سے، جو چاہے اس سے مراد لیتا پھرے۔ معاف کیجئے، یہ اندازِ کلام اس طرح کا ہے جیسے کوئی سر پھرا شخص یوں دعویٰ کرے کہ
نماز (اقامت ِ صلوٰة) سے ‘ہماری مراد’ دین ِموسوی کی وہ روایت ہے
روزے (صوم) سے ‘ہماری مراد’ دین عیسوی کی وہ روایت ہے
حج سے ‘ہماری مراد’ دین سلیمانی کی وہ روایت ہے
زکوٰة سے ‘ہماری مراد’ دین داؤدی کی وہ روایت ہے
صحیح حدیث سے ‘ہماری مراد’ وہ خبر یا ا طلاع ہے جو کبوتر یا ہُدہُد کے ذریعے موصول ہو۔
مجتہد سے ‘ہماری مراد’ ایسا شخص ہے جوانتہائی کوشش اور جدوجہد کے بعد ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر چڑھ جائے۔
فقہ سے ‘ہماری مراد’ وہ علم ہے جو کسی شخص کو بگلے کی طرح پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوکر غوروفکر کرنے کے بعد حاصل ہو۔
مفتی سے ‘ہماری مراد’ وہ آدمی ہے جو سرکاری خرچ پر مفت حج کرکے آئے۔
خلیفہ سے ‘ہماری مراد’ لکھنؤ کا حجام ہے۔

کیا ایسے شخص کے ان دعاوی کو کوئی معقول آدمی تسلیم کرسکتا ہے؟ کیا ایک مسلمان معاشرے میں اس طرح کے تَلعُّب بالدین اور اسلامی اصطلاحات سے کھیل مذاق کی اجازت دی جاسکتی ہے ؟ غامدی صاحب! ہوش کے ناخن لیں ۔ آپ یہ لوگوں کو دین سمجھا رہے ہیں یا اپنی ہواے نفس کا اظہار فرما رہے ہیں ؟ ع

تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

دین کی اصطلاحات کے مسلمہ معانی و مفاہیم بدلنا ہمارے ہاں کے منکرین حدیث کی پرانی عادت ہے۔ مشہور منکر ِحدیث پرویز صاحب نے بھی بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے اپنی تحریروں میں یہ حربہ اختیار کیا ہے ۔ اُنہوں نے صلوٰة، زکوٰة، جنت، جہنم، جنات، آدم، ملائکہ، حتیٰ کہ’اللہ و رسول’ کے مسلمہ اصطلاحی مطالب بدل ڈالے جس کے سبب پاکستان بھر کے ڈیڑھ ہزار علماے کرام اپنے دستخطوں کے ساتھ اُن پر کفر کا فتویٰ لگانے پر مجبور ہوئے۔

دینی اصطلاحات کے مسلمہ معنی و مفہوم کو بدل ڈالنا ایک عظیم گمراہی ہے، شرارت ہے، فتنہ ہے اور اِلحاد و زندقہ ہے۔ خود غامدی صاحب کے اُستاد اور اُستاذ الاستاذ جن کا شاگرد کہلانا وہ اپنے لئے باعث ِفخر سمجھتے ہیں اور جن کی فکر کے وہ علمبردار بنتے ہیں ، ایسی شنیع حرکت کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر ‘تدبر قرآن’ کے ‘مقدمہ’ میں لکھتے ہیں 

”اُمت کے جس تواتر نے قرآنِ کریم کو ہم تک منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کا عملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر فرق ہے تو یہ فرق ہے کہ ایک چیز قولی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، دوسری چیز عملی تواتر سے۔ اس وجہ سے اگر قرآنِ مجید کو ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اس عملی صورت کو ماننا بھی واجب ہے جوسلف سے خلف تک بالتواتر منتقل ہوئی ہیں ۔”2

پھر دینی اصطلاحات کے مطالب بدلنے کو مولانا اصلاحی ‘منکرینِ حدیث کی جسارت’ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں
منکرین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم و صلوٰة، حج و زکوٰة اور عمرہ و قربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور اُمت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے، اس میں ہواے نفس کے مطابق ترمیم و تغیر کرنا چاہتے ہیں ، صریحاً خود قرآنِ مجید کے انکار کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ جس تواتر نے ہم تک قرآن کو منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے ان اصطلاحات کی عملی صورتوں کو بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر وہ اُن کو نہیں مانتے تو پھر خود قرآن کو ماننے کے لئے بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ اصطلاحات کے معاملے میں تنہا لغت پر اعتماد بھی ایک بالکل غلط چیز ہے۔” 3

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی کے نزدیک کسی دینی اصطلاح کے معنی بدلنے کا مطلب اس کا انکار ہے۔ اس بنا پر غامدی صاحب کا ‘سنت ‘ کی اصطلاح کے معنی بدلنا ‘سنت’ کا انکار ہے۔ اس لئے وہ اپنے استاد کے اُصول کے مطابق منکر حدیث و سنت قرار پاتے ہیں ۔

آگے چل کر مولانا اصلاحی نے اس بارے میں اپنے اُستاد مولانا فراہی رحمة اللہ علیہ کا یہ مسلک لکھا ہے کہ ”ان دینی اصطلاحات کے بارے میں مولانا فراہی اپنے مقدمہ تفسیر میں فرماتے ہیں
”اسی طرح تمام اصطلاحاتِ شرعیہ مثلاً نماز، زکوٰة، جہاد، روزہ، حج، مسجد ِحرام، صفا، مروہ اور مناسک ِحج وغیرہ اور اُن سے جو اعمال متعلق ہیں ، تواتر و توارث کے ساتھ سلف سے لے کر خلف تک سب محفوظ رہے۔ اس میں جو معمولی جزوی اختلافات ہیں ، وہ بالکل ناقابل لحاظ ہیں … پس جب ایسے اصطلاحی الفاظ کا معاملہ پیش آئے جن کی پوری حدو تصویر قرآن میں نہ بیان ہوئی ہو تو صحیح راہ یہ ہے کہ جتنے حصے پر تمام اُمت متفق ہے، اتنے پرقناعت کرو۔”4

میں نے اس مقام پر دانستہ طور پرمولانا اصلاحی اور مولانا فراہی کی تحریروں کے اقتباسات دیئے ہیں ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب پوری اُمت ِمسلمہ میں سے صرف انہی دو حضرات کو علما سمجھتے ہیں اور اِن کو ‘آسمان’ کا درجہ دیتے ہیں ۔ باقی علماے اُمت کو وہ ‘خاک’ کے برابر سمجھتے ہیں جیسا کہ اُنہوں نے اپنی کتاب ‘مقامات’ میں لکھا ہے

”میں نے بھی بہت عالم دیکھے، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا لیکن امین احسن اور اُن کے اُستاد حمیدالدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ

غالبؔ نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت 5

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غامدی صاحب ان دونوں حضرات کے مسلک کے خلاف بھی اپنے کچھ ذاتی نظریات رکھتے ہیں اور محض مفاد کے حصول کے لئے ان حضرات سے اپنی شاگردی کا دعویٰ کرتے، ان سے نسبت جوڑتے اور ان کا نام غلط طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ ورنہ عورت کے پردہ، مجسمہ سازی ، موسیقی، داڑھی، عورت کی امامت، جہاد، مسئلہ تکفیر، یاجوج ماجوج اور غیر مسلم سے عورت کا نکاح جیسے بیسیوں مسائل و اُمور ہیں جن میں شاگرد کا اپنے اُستادوں سے اختلاف ہے۔ پھرنہ صرف مسائل میں بلکہ اُصول دین میں بھی واضح اختلاف موجود ہے۔

اب اصل بحث کی طرف آئیے
غامدی صاحب نے ‘سنت’ کی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کی ہے جبکہ ‘سنت’ کی ابتدا تمام علماے اُمت کے نزدیک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے، اسی لئے اسے ‘سنت ِرسولؐ’ کہا جاتا ہے نہ کہ دین ابراہیمی کی روایت

سنت کا خود ساختہ مفہوم لینے کے لئے غامدی صاحب سورة النحل کی درج ذیل آیت پیش کرتے ہیں
ثُمَّ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ أَنِ ٱتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٢٣…سورة النحل
پھر ہم نے (اے نبیؓ!) تمہاری طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم ؑ کے دین کی پیروی کریں جویکسو تھے اور شرک کرنے والے نہ تھے۔”

مگر اس آیت سے غامدی صاحب نے جو استدلال کیا ہے، وہ قرآن کی معنوی تحریف کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ مذکورہ آیت میں بلا شبہ مِلَّةَ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ یعنی دین ابراہیم ؑ کا ذکر آیا ہے کیونکہ مِلَّة کے معنی دین کے ہیں ۔ مگر اس آیت سے ‘دین ابراہیم کی روایت’ کیسے برآمد ہوگئی؟ اور یہ کس چڑیا کا نام ہے…؟ یہ روایت کامفہوم آیت کے کس لفظ سے نکلتا ہے؟

مذکورہ آیت میں بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ‘ملت ِابراہیم’ یعنی ‘دین ابراہیمی’ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے مگر اس آیت میں یہ بات کہاں ہے کہ اس کی پیروی کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دین ابراہیم کی تجدید و اصلاح بھی فرمائیں ، اس میں اپنی طرف سے اضافے بھی کردیں ، اور پھر جو کچھ تیار ہوجائے، اسے اپنے ماننے والوں میں ‘دین کی حیثیت سے جاری’ فرما دیں ؟”

یہ سارا مفہوم غامدی صاحب کے اپنے ذہن کی اُپچ ہے جسے اُنہوں نے آیت کی طرف منسوب کردیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے ذاتی خیالات کو قرآنِ مجید کی عبارت میں پڑھنے کی عمدہ مثال قائم کردی ہے جو ٹھیک ٹھیک مذموم تفسیر بالرائے اور قرآن کی معنوی تحریف ہے۔

قرآنی آیات کی معنوی تحریف کرکے ان سے اپنے من پسند نظریات برآمد کرنا دوسرے منکرین حدیث کی طرح غامدی صاحب کی بھی عادت ہے۔ اس حوالے سے ہم نے بہت سی مثالیں اپنی کتاب ‘غامدی مذہب کیا ہے؟’ میں پیش کردی ہیں ۔

آیت میں مِلَّة کا لفظ آیا ہے جس کے معنی دین اور مذہب کے ہیں ۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں ہے
المِلَّة: ‘الدین’ کمِلَّة الإسلام والنَّصرانیة والیهودیة
ملت کے معنی دین کے ہیں جیسے دین اسلام، نصرانیت (عیسائیت) کا دین، یہودیت کا دین۔”6

قرآنِ مجید میں بھی مِلَّة کا لفظ دین اور مذہب کے معنوں میں آیا ہے، مثال کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظہ ہوں
وَلَن تَرْ‌ضَىٰ عَنكَ ٱلْيَهُودُ وَلَا ٱلنَّصَـٰرَ‌ىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ…﴿١٢٠﴾…سورة البقرة
اور یہودی اور عیسائی تجھ سے اُس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک تو اُن کا ‘مذہب’ اختیار نہ کرے۔”

قومِ شعیب ؑ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا

قَالَ ٱلْمَلَأُ ٱلَّذِينَ ٱسْتَكْبَرُ‌وا مِن قَوْمِهِۦ لَنُخْرِ‌جَنَّكَ يَـٰشُعَيْبُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا مَعَكَ مِن قَرْ‌يَتِنَآ أَوْ لَتَعُودُنَّ فِى مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَـٰرِ‌هِينَ ﴿٨٨﴾ قَدِ ٱفْتَرَ‌يْنَا عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِى مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّىٰنَا ٱللَّهُ مِنْهَا ۚ...﴿٨٩﴾…سورة الاعراف
اُس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا: اے شعیب ؑ! ہم تمہیں اور ان لوگوں کو جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ، اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے ‘مذہب’ میں واپس آنا ہوگا۔” شعیب ؑ نے کہا: ”اگر ہم تمہارے ‘مذہب’ سے بیزار ہوں تو کیا پھر بھی تمہاری بات مان لیں ۔ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر ہم تمہارے ‘مذہب’ میں لوٹ آئیں ۔ کیونکہ اللہ ہمیں اس سے بچا چکا ہے۔”

ایک مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوا کہ اپنے بارے میں یہ کہیں :
قُلْ إِنَّنِى هَدَىٰنِى رَ‌بِّىٓ إِلَىٰ صِرَ‌ٰ‌طٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٦١…سورة الانعام
کہہ دیجئے کہ میرے ربّ نے مجھے سیدھا راستہ بتا دیا ہے۔ وہی صحیح دین جو ابراہیم ؑ کا دین تھا جو کہ موحد تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔”

واضح ہوا کہ اس جگہ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ کا بدل ہے: دِیْنًا قِیَمًا اور اُس کا بدل ہے مِلَّةَ اِبرَاھِیْمَاور تینوں کا مطلب ہے ‘دین اسلام’ !
وَمَن يَرْ‌غَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَ‌ٰ‌هِـۧمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُۥ ۚ…﴿١٣٠﴾…سورة البقرة
اور ایسا کون ہے جو ابراہیم ؑ کے ‘دین’ سے منہ موڑے؟ سواے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو احمق بنا لیا ہو۔”

مذکورہ بالا آیات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مِلَّة کے معنی دین اور مذہب کے ہیں مگر غامدی صاحب نے مِلَّةَ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ کے معنی ابراہیم ؑ کا دین، لینے کی بجائے اس کے معنی ‘دین ابراہیم کی روایت’ کرکے دوسروں کو مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح وہ جس آیت سے اپنی ‘سنت’ (دین ابراہیم کی روایت) کا مفہوم کشید کرتے ہیں ، اس میں سرے سے یہ معنی موجود نہیں ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاے کرام کا دین توایک ہی تھا مگر شریعتیں الگ الگ تھیں ، اس کی دلیل خود قرآن مجید میں ہے
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْ‌عَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَ‌ٰحِدَةً…﴿٤٨﴾…سورة المائدہ
ہم نے تم میں سے ہر اُمت کے لئے الگ شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیتا۔”

غامدی صاحب کے اُستاد مولانا امین احسن اصلاحی بھی اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ تمام نبیوں اور اُن کی اُمتوں کے لئے ایک ہی دین تھا لیکن سب کی شریعت الگ الگ تھی۔ چنانچہ وہ مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ”مختلف اُمتوں کی شریعت کے اختلاف کی حکمت” کے عنوان کے ساتھ لکھتے ہیں کہ
”جہاں تک دین کے حقائق کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ سے غیر متغیر ہیں اور غیرمتغیر ہی رہیں گے لیکن شریعت کے ظواہر و رسوم ہر اُمت کے لئے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ مقرر فرمائے تاکہ یہ چیز اُمتوں کے امتحان کا ذریعہ بنے۔”7

قرآن نے یہ حقیقت کئی مقامات پر واضح کی ہے کہ تمام انبیاے کرام کا ایک ہی دین تھا۔ ایک مقام پر ارشاد ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی اُمت کے لئے وہی دین مقرر ہے جو حضرت نوحؑ، ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ کا دین تھا اور اسی دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے
شَرَ‌عَ لَكُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِۦ نُوحًا وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِۦٓ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰٓ ۖ أَنْ أَقِيمُواٱلدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّ‌قُوا فِيهِ ۚ…﴿١٣﴾…سورة الشوری
اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور اے نبیؐ! اسی دین کی وحی ہم نے آپؐکی طرف کی ہے اور اسی پر چلنے کا حکم ہم نے ابراہیم،موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو دیا تھا کہ اسی دین کوقائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔”

ایک اور مقام پر اٹھارہ انبیاے سابقین(نوح،ابراہیم،اسحق،اسمٰعیل،یعقوب،یوسف، موسیٰ، ہارون، داؤد،سلیمان،ایوب، زکریا، یحییٰ، الیاس ، الیسع ، یونس ، لوط اور عیسی علیہم السلام)کا ذکر کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپؐ ان کی ہدایت یعنی دین کی پیروی کریں
أُولَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَـٰهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحُكْمَ وَٱلنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن يَكْفُرْ‌ بِهَا هَـٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَـٰفِرِ‌ينَ ﴿٨٩﴾ أُولَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّهُ ۖ فَبِهُدَىٰهُمُ ٱقْتَدِهْ ۗ…﴿٩٠﴾…سورة الانعام
 یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب دی، حکومت بخشی اور نبوت عطا کی۔ اب اگر یہ لوگ(مکے والے قریش) ہماری نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں تو ہم نے ان کی بجائے ایسے لوگ مقرر کر دیے ہیں جو ان نعمتوں کی ناشکری کرنے والے نہیں ۔(اے نبیؐ!) پہلے نبیوں کو بھی اللہ نے ہدایت بخشی، لہٰذا آپؐ بھی ان کی ہدایت (دین) کی پیروی کریں ۔”

اس سے معلوم ہوا کہ صرف ابراہیم کے دین کی پیروی کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ تمام انبیاے کرام کی ہدایت اور دین کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے،کیونکہ سب کا دین ایک ہی ہے ا ور وہ اسلام ہے جو سراپا ہدایت ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحیح اور سچا دین بھی صرف اسلام ہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَـٰمُ ۗ…﴿١٩﴾…سورة آل عمران
 بے شک اللہ کے نزدیک (سچا) دین صرف اسلام ہے۔”

بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ آخرت میں صرف دین اسلام مقبول دین ہو گا اور اس کے ما سوا کوئی اور دین مقبول نہ ہو گا
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ‌ ٱلْإِسْلَـٰمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى ٱلْءَاخِرَ‌ةِ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِ‌ينَ ﴿٨٥…سورة آل عمران
 اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے دین کو ہرگز قبول نہ کرے گا اوروہ شخص آخرت میں گھاٹے میں رہے گا۔”

تمام انبیاے کرام کا دین اسلام رہا اور سب کی تعلیمات میں درج ذیل اُمور مشترک تھے
وجودِ باری تعالیٰ، عقیدئہ توحید، عقیدۂ نبوت ورسالت، عقیدۂ آخرت، فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتب پر ایمان،ایک اللہ کی عبادت(نماز،روزہ، حج،زکوة ،قربانی وغیرہ)، حقوق العباد (جیسے والدین سے حسن سلوک) اور اچھے اخلاق (جیسے سچ بولنا،جھوٹ نہ بولنا وغیرہ)
گویا سب کے ہاں اسلام کے بنیادی عقائد واعمال یکساں تھے،لیکن سب کی شریعتیں جدا جدا تھیں ۔حتیٰ کہ قبلہ تک مختلف تھا جس کی طرف نماز پڑھنے سے ان کی نماز درست ہو سکتی تھی 
وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَٱسْتَبِقُوا ٱلْخَيْرَ‌ٰ‌تِ ۚ…﴿١٤٨﴾…سورة البقرة
 اور ہر مذہبی گروہ کا اپنا ایک قبلہ ہے جس کی طرف منہ کر کے وہ عبادت کرتا ہے مگر تم لوگ نیکی کی راہ میں ایک دوسرے سے آ گے بڑھنے کی کوشش کرو۔”

ان تمام تصریحات کے بعد یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ سورة النحل کی مذکورہ آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین ابراہیمی کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ وہی دین ہے جو تمام انبیاے کرام کا مشترکہ دین ہے۔ اس میں صرف دین ابراہیمی کی خصوصیت یا تخصیص نہیں ہے بلکہ قرآن میں دوسرے انبیاے کرام کا ذکر کر کے ان کی ہدایت اور دین کی اقتدا اور پیروی کرنے کا حکم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے۔ مگر غامدی صاحب دین ابراہیمی کو جو تمام انبیا کرام کا دین ہے اس کو پہلے ‘دین ابراہیمی کی روایت’ کا نام دیتے ہیں اور پھر اسے ‘سنت’ کا نام دے ڈالتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت مکے میں دین ابراہیمی کی کون سی روایت موجود تھی جس کی پیروی کا حکم آپؐ کو دیا گیا تھا؟ وہاں تو قریش کی وہ حالت تھی جسے دورِ جاہلیت کہا جاتا ہے اور وہ لوگ تو شرک،بت پرستی،گمراہی اور اوہام پرستی میں مبتلا تھے۔جاہلیت کے جو معاشرے توحید کا بنیادی عقیدہ چھوڑ چکے تھے، اس کے ہاتھ دین ابراہیمی کی کون سی روایت سے محفوظ تھی۔اگر دین ابراہیمی کی روایت سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو دین چلا آ رہا تھا تو یہ بات حقیقت کے سراسر خلاف ہے کیونکہ ان کا دین اپنی اصلی صورت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک محفوظ نہیں رہا۔کوئی معقول آدمی بقائمی ہوش وحواس اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبی کا دین جب بگڑ جاتا ہے اور قوم اس کے دین کو فراموش کر بیٹھتی ہے تو اس دین کی یاد دہانی کے لیے نئے نبی کی بعثت ہوتی ہے،لیکن اگر پہلے نبی کے دین کی روایت اپنی اصلی حالت میں موجود اور محفوظ ہو تو پھر کسی نئے نبی کی بعثت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی! اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت نہ صرف ابراہیم علیہ السلام کے دین میں بگاڑ آ چکا تھا بلکہ آپ کے بعد آنے والے انبیا حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السام کے دین کو بھی لوگ بھلا بیٹھے تھے جبھی تو اس کی دعوت وتبلیغ کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا۔

پھر سورة النحل کی مذکورہ آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کی پیرو ی کا حکم نہیں دیا گیا،کیونکہ ایک تو ان دونوں انبیا کی شریعتیں الگ الگ ہیں ، دوسرے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کا عرب میں کوئی وجود نہ تھا جس کی پیروی کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جاتا۔

اس لیے یہ بات قرآنِ مجید سے کہیں ثابت نہیں ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپؐ دین ابراہیمی کی روایت میں پہلے وحی یا اجتہاد سے تجدید واصلاح فرمائیں ، پھر اس میں کچھ اضافے کر دیں اور آخر میں اسے اپنے ماننے والوں پر دین کی حیثیت سے جاری فرما دیں اور اس کا نام ‘سنت ‘ رکھ دیں ۔

غامدی صاحب کو میرا یہ چیلنج ہے کہ وہ ‘سنت’ کی جو تعریف فرما رہے ہیں اور اس کا جو مفہوم مراد لے رہے ہیں ،سنت کی یہی تعریف اور یہی مفہوم وہ پوری اُمت میں سے کسی ایک محدث، فقیہ یا مجتہد کے ہاں دکھا دیں اور اگر ان کی اس ‘نادر فکر’ اور ‘نرالے اجتہاد’سے اُمت کا کوئی صاحب ِعلم متفق نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو وہ اسلامی اصطلاحات کے مفاہیم بگاڑنے کا ٹھیکہ نہ لیں ،خود گمراہ نہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں ۔بلکہ ‘سبیل المؤمنین’ کو اختیار کریں ۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ چونکہ غامدی صاحب
سنت کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ماننے کی بجائے حضرت ابراہیمؑ سے مانتے ہیں ۔
‘سنت’ کو تنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ‘روایت’ قرار دینے کی بجائے دو انبیاے کرام (حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کی مشترکہ روایت قرار دیتے ہیں ۔
‘سنت’ کی اسلامی اصطلاح کی متفقہ اور مسلمہ اجماعی تعریف اور مفہوم … یعنی شریعت کے وہ احکام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول،فعل یا تقریر (خاموش تائید) کے ذریعے ثابت ہوں … کو چھوڑ کر اس کی وہ من گھڑت اور خود ساختہ تعریف کرتے ہیں اور اس سے اپنا من پسند مفہوم نکالتے ہیں ۔
لہٰذا ہمارے نزدیک وہ منکرین حدیث کی صف میں کھڑے ہیں اور ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ بھی ‘منکر حدیث’ ہیں ۔ 


حوالہ جات
1. میزان: ص10، اپریل 2002ء ، لاہور؛ اُصول و مبادی: ص 10، فروری 2005ء، لاہور
2. مقدمہ ‘تدبر قرآن’: جلد اوّل/ ص 29، مطبوعہ 1983ء
3. مقدمہ ‘تدبر قرآن’: جلد اوّل، ص29، مطبوعہ 1983ء
4. مقدمہ ‘تدبر قرآن’: جلد اوّل؍ ص29،30، مطبوعہ 1983ء
5. مقامات: صفحہ 57،58، طبع دسمبر2001ء، لاہور
6. لسان العرب از ابن منظور: زیرمادّہ ‘ملل
7. تدبر قرآن: جلد دوم؍ ص535، مطبوعہ 1983ء، لاہور

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…