غامدی صاحب اور انکارِ حدیث

Published On November 26, 2023
سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

علم کلام پر جناب غامدی صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں محترم غامدی صاحب علم کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک حرف غلط قرار دے کر غیر مفید و لایعنی علم کہتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فلسفے کی دنیا میں افکار کے تین ادوار گزرے ہیں:۔ - پہلا دور وہ تھا جب وجود کو بنیادی حیثیت دی گئی...

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

شریعت خاموش ہے “ پر غامدی صاحب کا تبصرہ”

ڈاکٹر زاہد مغل ایک ویڈیو میں جناب غامدی صاحب حالیہ گفتگو میں زیر بحث موضوع پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین یا شریعت خاموش ہونے سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ شریعت نے اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم ہی نہیں دیا بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ شارع نے یہاں کوئی معین...

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

قرآن کا میزان و فرقان ہونا اور منشائے متکلم کا مبحث

جہانگیر حنیف کلام کے درست فہم کا فارمولہ متکلم + کلام ہے۔ قاری محض کلام تک محدود رہے، یہ غلط ہے اور اس سے ہمیں اختلاف ہے۔ کلام کو خود مکتفی قرار دینے والے حضرات کلام کو کلام سے کلام میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اولا کسی بھی تاریخی اور مذہبی متن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اور...

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں...

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

دوست کا سوال ہے کہ غامدی صاحب کو “منکر حدیث” کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: دیکھیں، اصل یہ ہے کہ آپ کی “انکار حدیث” سے مراد کیا ہے؟ اگر تو انکار حدیث سے مراد کلی طور پر حدیث کا انکار ہے تو ایسا غامدی صاحب نہیں کرتے۔ بہر حال یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ حدیث کے معاملے میں “پرویزی” نہیں ہیں۔

اور اگر آپ کی انکار حدیث سے مراد یہ ہے کہ غامدی صاحب حدیث کو وہ مقام نہیں دیتے جو کہ خود قرآن مجید نے دیا ہے یا جس پر امت نے اتفاق کیا ہے تو یہ بات ایسے ہی ہے۔ عام طور لوگ کہتے ہیں کہ دیکھیں پرویز صاحب تو نماز روزے کے بھی قائل نہیں تھے لیکن غامدی صاحب تو ہیں۔ تو یہ بات درست ہیں کہ غامدی صاحب ارکان اسلام وغیرہ کے قائل ہیں لیکن وہ اسے حدیث سے نہیں، سنت سے مانتے ہیں۔ لہذا یہ ماننے کے باوجود یہ سوال پھر باقی رہ جاتا ہے کہ ان کے ہاں حدیث کا مقام کیا ہے؟

آسان الفاظ میں سوال  یہ   پیدا ہوا کہ کیا “حدیث” دین اسلام کا کوئی بنیادی ماخذ ہے؟

مسلمانوں کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ حدیث بھی بنیادی ترین مآخذ میں شامل ہے اور بنیادی ترین مآخذ دو ہیں یعنی قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ حدیث میں ہے۔ جبکہ غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ حدیث، دین اسلام کا بنیادی ترین ماخذ نہیں ہے۔ اور بنیادی ترین مآخذ ان کے نزدیک بھی دو ہی ہیں لیکن وہ قرآن مجید اور سنت ابراہیمی ہیں۔

اس کو ایک اور طرح سے سمجھ لیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حدیث دین اسلام کا مستقل مآخذ ہے یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ دین اسلام میں کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے سکیں؟ تو مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریع  کا یہ حق اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے جبکہ غامدی صاحب اس کے قائل نہیں ہیں۔

غامدی صاحب کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید میں موجود احکامات کی محض شرح اور تفسیر کر سکتے ہیں، ان میں اضافہ یا ان کے نسخ یا ان کی ایسی تشریح نہیں کر سکتے کہ جس سے وہ قرآنی حکم محدود ہو جائے۔ ان کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے یہ حق نہیں دیا گیا ہے۔ شارع  صرف اللہ کی ذات ہے اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تبعا بھی شریک نہیں ہیں۔

پس وہ حدیث کی حیثیت کو مانتے ہیں لیکن صرف اتنی کہ وہ قرآن مجید کی تفسیر یا شرح بن سکے۔ جہاں جہاں حدیث قرآن مجید کے کسی حکم پر اضافہ، یا نسخ یا اس کی تحدید کا باعث بنے گی، تو وہ اسے بیان شریعت ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ پس ان کے نزدیک حدیث کی حیثیت ایک تاریخی ریکارڈ اور تفسیر کی سی ہے نہ کہ دین اسلام کے کسی بنیادی مصدر  کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…