غامدی صاحب اور خبر واحد

Published On April 25, 2024
حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی قبر

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر

مولانا عند الحمید تونسوی     اہلِ اسلام کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور انہیں سولی پر نہیں چڑھایا گیا، بلکہ زندہ ہی آسمانوں پر اُٹھالیا گیا، قیامت کے قریب وہ آسمان سے زمین پر نازل ہوں...

اسلام اور ریاست

اسلام اور ریاست

مفتی تقی عثمانی صاحب   بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی نبیہ الکریم وعلی آلہٖ وأصحابہٖ أجمعین وعلٰی کل من تبعہم بإحسان إلٰی یوم الدین أمابعد غیر منقسم ہندوستان میں قائد اعظم کی قیادت میں قیام پاکستان کی جو تحریک چلی، اس کی...

ڈاڑھی : غامدی موقف پر نقد

ڈاڑھی : غامدی موقف پر نقد

ناقد :شیخ عثمان ابن فاروق تلخیص : زید حسن ​   غامدی صاحب کا دعوی ہے کہ وہ منکرِ حدیث نہیں ہیں ۔ ان سے ڈاڑھی کی بابت سوال کیا گیا تو فرمایا: یہ ایک اچھی  چیز ہے اور نبی علیہ السلام نے ڈاڑھی رکھی ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس امر کو نبی ﷺ نے امت میں بحیثیت...

مورگیج پر گھر لینا : غامدی موقف پر نقد

مورگیج پر گھر لینا : غامدی موقف پر نقد

ناقد :شیخ عثمان صفدر تلخیص : زید حسن    مورگیج ایک صورت ہے جس میں  گھر کو خریدا جاتا ہے اور اسکی بابت علماء کا موقف یہی ہے کہ یہ حرام ہے لیکن جاوید غامدی صاحب نے اسکی بابت موقف اختیار کیا ہے کہ  نہ صرف یہ کہ یہ سود نہیں بلکہ یہ احسان ہے ۔ انکا موقف ہے کہ "جب پیسہ...

بہتر حوریں : انکارِ حدیث سے انکارِ قرآن تک

بہتر حوریں : انکارِ حدیث سے انکارِ قرآن تک

ناقد :شیخ توصیف الرحمن تلخیص : زید حسن    غامدی صاحب سے کسی نے سوال کیا کہ جنت میں حوریں ہوں گی ؟ جواب میں فرمایا : کہ یہ دنیا ہی کی عورتیں ہوں گی ۔ سائل نے پوچھا کہ انکی تو آنکھیں بڑی ہوں گی ؟ تو فرمایا اللہ آپکی بیویوں ہی کی آنکھیں بڑی کر دے گا ۔ اصل میں جاوید...

نزولِ مسیح کی بابت غامدی اور قادیانیوں کے نظریات

نزولِ مسیح کی بابت غامدی اور قادیانیوں کے نظریات

ناقد :مفتی عامر سجاد صاحب تلخیص : وقار احمد جاوید احمد غامدی ماڈرن لوگوں کے پسندیدہ اسکالر ہیں اور بہت ساری چیزوں کا انکار کرنے والے ہیں ۔ مثلاً معجزات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، ظہور امام مہدی اور نزول عیسی علیہ السلام ۔ حالانکہ 1400 سال سے امت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ...

ابو عمار زاہد الراشدی

علماء کے سیاسی کردار، کسی غیر سرکاری فورم کی طرف سے جہاد کے اعلان کی شرعی حیثیت، علماء کرام کے فتویٰ جاری کرنے کے آزادانہ استحقاق، اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی شرعی ممانعت کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض حالیہ ارشادات کے بارے میں ان کالموں میں کچھ گزارشات پیش کی تھیں۔ ہمارا خیال تھا کہ غامدی صاحب محترم ان مسائل پر قلم اٹھائیں گے اور ہمیں ان کے علم و مطالعہ سے استفادہ کا موقع ملے گا۔ لیکن شاید ’’پروٹوکول‘‘ کے تقاضے آڑے آگئے جس کی وجہ سے غامدی صاحب کی بجائے ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب نے ہماری ان گزارشات پر قلم اٹھایا اور معاصر روزنامہ جنگ میں ’’تکبیر مسلسل‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے مضامین میں انہوں نے ان مسائل پر اظہار خیال کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

اس سلسلہ میں قارئین کی یہ الجھن ہمارے پیش نظر ہے کہ ہماری گزارشات اور خورشید احمد ندیم صاحب کی جوابی توضیحات الگ الگ اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں اور بہت سے قارئین کے لیے دونوں کا مطالعہ کرنا مشکل ہے۔ اس لیے اگر دونوں اخبارات اپنے صفحات میں شائع ہونے والے ان مضامین کے جواب میں سامنے آنے والے مضامین کو بھی اپنے صفحات میں جگہ دے دیں تو اس سے دونوں روزناموں کے قارئین کو پوری بحث سے استفادہ کا موقع مل جائے گا۔ لیکن یہ اخبارات کے منتظمین کا مسئلہ ہے اور وہ اپنی مصلحتوں اور ضرریات کو زیادہ بہتر طو رپر سمجھتے ہیں کہ

رموز مملکت خویش خسروان دانند

بہرحال اب تک خورشید احمد ندیم نے دو نکات پر گفتگو کی ہے۔ پہلے مرحلہ میں انہوں نے توضیحات کے عنوان سے خبر واحد کے حجت ہونے کے بارے میں ہماری گزارش پر تبصرہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے ہاں سنت کا جو مفہوم سمجھا جاتا ہے اسے پیش نظر رکھا جائے تو خبر واحد کے حجت ہونے یا نہ ہونے کی بحث کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ مگر ہمیں خورشید صاحب کے اس ارشاد سے اختلاف ہے جس کا آئندہ سطور میں ہم ذکر کریں گے لیکن اس سے قبل ہم خبر واحد کے بارے میں عام قارئین کے لیے تھوڑی سی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں تاکہ وہ صحیح طور پر اس بحث کو سمجھ سکیں۔

’’خبر واحد‘‘ کا لفظی معنٰی ایک آدمی کی روایت ہے۔ اور محدثین کی اصطلاح میں خبر واحد اسے کہتے ہیں کہ قرون اولیٰ یعنی صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے دور میں کسی حدیث نبویؐ کو روایت کرنے میں ایک ہی بزرگ متفرد ہوں اور دوسرا کوئی ان کے ساتھ اس بات کو بیان کرنے میں شریک نہ ہو۔ ایسی خبر کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف چلا آرہا ہے کہ شرعی احکام کے ثبوت میں یہ خبر اور حدیث حجت ہے یا نہیں۔ جمہور محدثین اور فقہاء کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی ثقہ راوی کی روایت کردہ خبر واحد اگر قرآن کریم کی کسی نص صریح کے خلاف نہیں اور کوئی خبر متواتر یا اجماعی تعامل بھی اس کی نفی نہیں کر رہا تو وہ شرعاً حجت ہے اور اس پر عمل واجب ہے۔ مگر بعض اصولی فقہاء کا موقف یہ ہے کہ خبر واحد کسی شرعی حکم کے وجوب کا فائدہ نہیں دیتی۔

ہم نے ایک سابقہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور جناب جاوید احمد غامدی کے مکتب فکر کا موقف ان اصولی فقہاء کے قریب ہے۔ اسی وجہ سے انہیں شادی شدہ مرد اور عورت کے زنا کا مرتکب قرار پانے پر اس کے لیے سنگسار کرنے کی سزا کو ’’شرعی حد‘‘ کے طور پر قبول کرنے میں تامل ہے۔ اس کے جواب میں خورشید ندیم صاحب کا ارشاد ہے کہ سنت رسولؐ کے بارے میں غامدی صاحب کی وضاحت کو سامنے رکھنے کے بعد خبر واحد کی حجت کا سوال باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ وہ اس ضمن میں غامدی صاحب کے دو ارشادات نقل کر رہے ہیں کہ

اول ۔  ’’سنت سے مراد دین ابراہیمی ؑ کی وہ روایت ہے جسے نبی اکرمؐ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔‘‘

دوم ۔  ’’اس بارے میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں وہ جس طرح صحابہؓ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے یہ اسی طرح ان کے اجتماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے۔‘‘

ہم ان دو اقتباسات کا جو مطلب سمجھ پائے ہیں وہ یہ ہے کہ سنت صرف وہی ہے جو دین ابراہیمیؑ کے سابقہ تسلسل کے ساتھ نقل ہوتی چلی آرہی ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے تجدید و اصلاح کے ساتھ اسے باقی رکھا ہے۔ اس کا لازمی مطلب اگر سامنے رکھا جائے تو جناب نبی اکرمؐ کا ہر وہ عمل اور قول سنت کے دائرہ سے نکل جاتا ہے جس کا دین ابراہیمیؑ کے سابقہ تسلسل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور رسول اکرمؐ نے اپنی طرف سے نئی سنت کے طور پر اس کا اجراء فرمایا ہے۔ اسی طرح کسی سنت کے ثبوت کے لیے غامدی صاحب کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ وہ صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد امت کے اجماع اور قولی تواتر سے ثابت ہو۔ اور جو سنت نبویؐ یا حدیث رسولؐ اجماع اور تواتر کے ذریعہ ہم تک نہیں پہنچی وہ غامدی صاحب کے نزدیک ثابت شدہ نہیں ہے۔

لہٰذا اگر حدیث و سنت کے تعین اور ثبوت کے لیے اس معیار کو قبول کر لیا جائے تو چوہدری غلام احمد پرویز اور ان کے رفقاء کی طرح حدیث و سنت کے انکار کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ بلکہ اس وقت حدیث و سنت کے نام سے روایات کا جو ذخیرہ امت کے پاس موجود ہے اور جس کی چھان پھٹک کے لیے محدثین تیرہ سو برس سے صبر آزما اور جاں گسل علمی جدوجہد میں مصروف چلے آرہے ہیں اس کا کم و بیش نوے فیصد حصہ خود بخود سنت کے دائرے سے نکل کر کالعدم قرار پا جاتا ہے۔ ہمیں تعجب اس بات پر ہے کہ خورشید احمد ندیم صاحب ان اقتباسات کے ذریعہ خبر واحد کے حجت ہونے بلکہ سرے سے اس کے بیشتر کو سنت تسلیم کرنے سے انکار فرما رہے ہیں، مگر انہیں اس بات پر بھی اصرار ہے کہ سنت کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو سامنے رکھنے کے بعد خبر واحد کے حجت ہونے یا نہ ہونے کے اختلاف کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک خبر واحد بلکہ اجماع اور تواتر کے ذریعہ ثابت نہ ہونے والی کسی بھی سنت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مگر امت کے جمہور محدثین اور فقہاء کے نزدیک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وہ ارشاد اور عمل پوری اہمیت رکھتا ہے جو اہل علم کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ثقہ اور مستند راویوں کے ذریعہ امت تک پہنچا ہے اور جسے محدثین صحیح روایت کے طور پر امت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

لطف کی بات یہ ہے کہ غامدی صاحب اور خورشید ندیم صاحب کے نزدیک کسی ایک سنت کے ثبوت کے لیے تو صحابہ کرامؓ اور امت کا اجتماعی تعامل ضروری ہے، لیکن اسی سنت کے مفہوم کے تعین، روایت کے طریق کار، قبولیت کے معیار، اور صحت و ضعف کے قواعد و اصول کے بارے میں امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل اور جمہور محدثین و فقہاء کا طرز عمل ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ امت کے جمہور اہل علم کے طے کردہ اس معیار کو قبول کرنے کی بجائے اپنے ’’جداگانہ اصولوں‘‘ کو حتمی معیار کے طور پر پیش کرنے پر مصر ہیں۔ اور اس معاملہ میں اجتماع و تواتر اور تفرد و توحد کا فرق ان کے ذہن تک رسائی کا راستہ پانے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…