غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

Published On January 12, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

ڈاکٹر خضر یسین

غامدی صاحب نے اپنی دینی فکر میں بہت ساری باتیں، خود سے وضع کی ہیں۔ ان کے تصورات درحقیقت مقدمات ہیں، جن سے اپنے من پسند نتائج تک وہ رسائی چاہتے ہیں۔ “قیامِ شھادت” کا تصور درحقیقت ایک اور تصور کی بنیاد ہے۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے فرق کا مقدمہ بھی ایک اور تصور تک رسائی کا زینہ ہے۔

قرآن مجید میں اللہ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا ہے: “فأما ياتينكم منى هدى فمن تبع هداى”.

خدا کی طرف سے آنے والی ہدایت “نبوت” بھی کہلاتی ہے اور “رسالت” بھی کہلاتی ہے۔ انسانوں میں جو شخص یہ ہدایت لے کر آتا ہے، وہ نبی بھی کہلاتا ہے اور رسول بھی کہلاتا ہے۔ نبی و رسول کی لائی ہوئی “الوہی ہدایت” کا ماننے والا مومن ہے اور نہ ماننے والا کافر ہے۔ اس پر عمل کرنے والا دنیا و آخرت میں ماجور ہے۔ اگر نبی کی طرف سے لائی جانے والی ہدایت کا انکار، اسی طرح کفر نہ ہوتا جس طرح غامدی صاحب کے نزدیک رسالت کے حامل نبی کا انکار کفر ہوتا ہے تو پھر بھی یہ نبوت و رسالت کی تقسیم قابل فہم ہوتی۔ لیکن ایسا کچھ بالکل ناممکن ہے۔ اللہ تعالی کب، کسے، کس طرح اپنی ہدایت کے ابلاغ کے لئے نوازتا ہے، یہ وہی جانتا ہے۔ دنیا میں اہل ایمان “نبوت” کو نظرانداز کر سکتے ہیں اور نہ اس کا استخفاف  کر سکتے ہیں۔

غامدی صاحب “قیامِ شھادت” کے اپنے تصور کی نسبت ایک اور بات کہتے ہیں:”شھادت کا یہ منصب رسولوں کے علاوہ ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بھی عطا ہوا ہے”۔ غامدی صاحب کہتے ہیں:”ذریت ابراہیم علیہ السلام خدا اور بندوں کے درمیان اسی طرح منتخب من اللہ جماعت ہے جس طرح انبیاء و رسل ہیں”۔

غامدی صاحب “ذریت ابراہیم ” کا بالکل وہی تصور یا عقیدہ رکھتے ہیں جو اہل تشیع “آل محمد” کی نسبت رکھتے ہیں۔ ذریت ابراہیم علیہ السلام اللہ کی منتخب جماعت ہے، یہ عقیدہ کہاں سے آیا ہے؟ “منزل من اللہ” خبر بہرحال نہیں ہے۔ یہ قیاسی تفکر ہے، لیکن فقط قیاس سے عقیدہ بنا ڈالنا، بڑی جسارت کی بات ہے۔ اگر آپ اہل تشیع کے عقیدہ امامت کا مطالعہ کریں تو “آل محمد” بالعموم منتخب جماعت ہے اور ان میں بعض ائمہ بالخصوص منتخب من اللہ ہیں۔ آیاتِ قرآنی سے منتزع تصور کو عقیدہ بنا لینا اہل تشیع کا طریقہ ہے، غامدی صاحب بھی اسی طرح دینی عقیدہ بنا لیتے ہیں۔

اللہ تعالی اپنی مشیت سے جسے چاہتا ہے، رسالت و نبوت کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ کسی مخصوص فرد کی ذریت کا وہ محتاج ہے اور نہ اس کا فضل محدود ہے۔

ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، غامدی صاحب دوسرے مذہبی دانشوروں کی طرح پہلے کچھ اعتقادی مفروضات  بناتے ہیں پھر ان پر اپنی مذہبی فکر کا حدود اربعہ طے کرتے ہیں۔ وہ حدود اربعہ چاہے، کتاب و سنت سے بالواسطہ متصادم ہو چاہے بلاواسطہ متصادم ہو، اس کی پرواہ نہیں کرتے۔

وہ “کتاب اللہ” میں آئے ہوئے اخبار کو بے چون و چرا عقائد بنانے کے زیادہ قائل نظر نہیں آتے۔ “منزل اخبار” سے ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور پھر اس نتیجے سے اپنے مذہبی افکار کا انتزاع کرتے ہیں۔ “منزل اخبار” میں ترمیم و تنسیخ سے مذہبی عقائد بنانا، ہمارے مذہبی طبقے کا محبوب مشغلہ چلا آتا ہے۔ غامدی صاحب قرآن مجید کے نزول کی غایت تک خود کو محدود نہیں رکھتے، تمام کتب سماوی کے نزول کی غایت کا سراغ لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غایت کے بجائے تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد تلاش کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مبعوث من اللہ انبیاء کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو منصب رسالت محروم ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو منصب رسالت پر فائز ہوتے ہیں۔ اس تقسیم سے ان کا اصل ہدف مسلمانوں کے شعور سے ایک غلط فہمی دور کرنا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنجناب علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں ہم قرآن مجید کے اسی طرح مکلف و مخاطب ہیں جس طرح خود آنجناب علیہ السلام تھے۔ غامدی صاحب “الأمة من حيث الأمة” کو تنزیلات ربانیہ کے اسی طرح مخاطب و مکلف ہونے کے مضمر ایمان کے بوجھ کے نیچے سے باہر نکالنا چاھہے ہیں جس طرح خود آنجناب علیہ السلام تھے۔ اب “الأمة من حيث الأمة” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع میں منزل من اللہ دین کی مکلف و مخاطب نہیں ہے، یہ صرف ابراہیم علیہ السلام کی ذریت ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے اس فرض کے لئے الوہی انتخاب بن چکی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی ذریت ابراہیم کے آخری فرد ہیں۔ ان کے بعد دین کے متعلق وہ عقیدہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں اللہ کے حکم کی اطاعت کرنے والے، اللہ کی مدد سے، اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنے والے غالب آ سکتے ہیں۔

چنانچہ غامدی صاحب قرآن مجید کے بجائے تمام کتب سماوی کے نزول کا مقصد بیان فرماتے ہیں:تاکہ یہ کتابیں حق و باطل کا میزان قرار پائیں۔ تاکہ لوگ اپنے باہمی اختلافات کا فیصلہ کر سکیں۔ تاکہ انصاف قائم ہو سکے۔

ہماری معروضات یہ ہیں

دنیا کی زندگی ایک حق و باطل وہ ہے، جس کا تعلق ایمان بالغیب سے ہوتا ہے اور ایک حق و باطل وہ جس کا تعلق ایمان بالغیب یا ایمان بالنبوة سے نہیں ہے۔ یہاں پر الکتاب خود “حق” ہے اور اس کے اس منصب کا انکار “باطل” ہے۔ الکتاب جس حق کا معیار ہے، وہ صرف حق نہیں ہے بلکہ “الوہی حق” ہے۔ لہذا جہاں الوہی حق کے مقابل کوئی تصور، عقیدہ یا خیال آ جائے گا وہ باطل ہو گا۔ قرآن مجید میں جن امور پر حکم نازل نہیں فرمایا گیا، اس پر ہم خود سے حکم لگا کر الوہی حق کی فہرست میں اضافہ نہیں کر سکتے۔

الکتاب لوگوں کے جن باہمی اختلاف کا فیصلہ کرتی ہے، وہ معدد اور محدد  ہیں۔ الکتاب کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے، جس پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے اور نہ ترمیم و تنسیخ کی جا سکتی ہے۔ یہود و نصاری کے جن عقائد کی بابت قرآن مجید نے جو حکم بتا دیا ہے، وہی حق ہے۔ اس کے مقابل ان کے عقائد باطل ہیں۔

لوگوں کے مابین انصاف کا ایک معیار انسان ساختہ لاء ہے اور ایک منزل قانون ہے۔ منزل قانون سے جو انسان ساختہ لاء متصادم نہیں، وہ باطل ہے اور نہ انصاف کے منافی ہے۔ اس لئے انصاف کا الوہی معیار صرف “منزل قانون” تک محدود ہے۔

غامدی صاحب اس وضاحت کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوتے۔ ان کا خیال ہے:وحی خداوندی، انسانی فکر و دانش کی برتر قسم ہے، ممتاز و منفرد شے نہیں ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…