غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں

Published On February 15, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

ڈاکٹر زاہد مغل

برادر عمار خان ناصر صاحب نے اپنی کتاب “قرآن و سنت کا باہمی تعلق” کا ایک باب مولانا حمید الدین فراہی و مولانا امین احسن اصلاحی صاحبان اور ایک جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور بیان پر لکھ کر ان کی خصوصیات لکھی ہیں۔ آپ نے امام شافعی کے لسانیاتی منہج بیان کے خلا ظاہر کرنے کا اہتمام تو کیا لیکن غامدی صاحب کے تصور بیان کے پس پشت کارفرما مفروضات و مشکلات پر کلام نہیں کیا۔ یہاں ہم ان پر روشنی ڈالتے ہیں۔

غامدی صاحب نے اصول طے کیا ہے کہ کسی کلام کے بیان سے صرف وہی چیز مراد لی جاسکتی ہے جو ابتدائے کلام ہی سے اس میں مضمر ہو، کلام وجود میں آنے کے بعد کسی بھی قسم کا تغیر تبیین نہیں نسخ کہلائے گا (اور اپنے تئیں اس معاملے میں غامدی صاحب امام شافعی کے اصول پر کار فرما ہیں کہ سنت سے قرآن کی صرف درج بالا معنی میں تبیین جائز ہے نہ کہ نسخ)۔ کسی بات کے ابتدا ہی سے کلام میں موجود ہونے کا علم غامدی صاحب کے نزدیک پانچ طریقوں سے ہوتا ہے

الف)     لفظ کے معنی سے

ب)       جملے کی تالیف سے

ج)        سیاق کلام سے

د)          متکلم کی عادت سے

ھ)         عقل عام کے تقاضوں سے۔

بیان کہلانے کے لئے ابتدائے کلام میں معنی مفہوم یا مضمر ہونے کی جو شرط غامدی صاحب لگا رہے ہیں، “تاخیر البیان عن وقت الخطاب” کی رو سے شعوری یا غیر شعوری طور پر انہوں نے یہ لسانیاتی مفروضہ قائم کیا ہے کہ کلام کے کسی بھی جزو (یا آیت) کی وضاحت کرنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں بلکہ ہر جزو کا بیان اس کے ساتھ یا اس سے قبل نازل ہونا لازم ہے۔ یعنی جب آپ کہتے ہیں کہ صرف وہی چیز بیان ہے جو ابتدائے کلام یعنی اس کی پیدائش کے وقت سے اس میں مفہوم ہو تو مطلب یہ بنتا ہے کہ ہر ہر آیت جب نازل ہوئی تو اس سے ماقبل یا عین اس کے وقت نزول سے ہر آیت میں ایسا قرینہ موجود تھا جو مخاطب کے لیے اس سے متعلق اگلے حکم کی تفہیم کی بنیاد فراہم کررہا تھا۔ جیسے ایک بیج میں ابتدا ہی سے ایک درخت چھپا ہوتا ہے اور ایک ماہر کسان بیج دیکھ کر درخت کی نوعیت کا اندازہ لگا لیتا ہے، بالکل اسی طرح ہر ہر آیت کے نزول کے وقت سے اس کا معنی اس طرح مفہوم ہونا لازم ہیں کہ نبیﷺ سمیت دیگر اہل علم مخاطبین اگلی آیات میں اس سے متعلقہ احکام کو سمجھ سکتے ہوں۔ اسی لئے حدیث سے متعلق اپنے مخصوص تصور بیان کے تحت غامدی صاحب کتاب “مقامات” کے مضون “عام و خاص” میں لکھتے ہیں کہ “رسول اللہﷺ نے کتاب الٰہی (کے بیان) کی یہی خدمت انجام دی ہے اور اپنے ارشادات سے اُن مضمرات و تضمنات کو واضح کردیا ہے جن تک رسائی اُن لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتی تھی جو لفظ و معنی کی اِن نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں”۔ یعنی احادیث میں ایسے ہی امور بیان ہوئے ہیں جنہیں علماء زبان و کلام کے داخلی قرائن کے پیش نظر سمجھ سکتے ہیں۔ اسی نکتے کے پیش نظر عمار صاحب نے امام شافعی کے تصور بیان پر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ امام شافعی متعدد مقامات پر یہ واضح نہیں کرتے کہ آیا خود رسول اللہﷺ نے کلام اللہ میں کن ظاہری و پوشیدہ قرائن سے ان عام احکام کے مبنی بر خصوص ہونے کا علم اخذ کیا جن کے ذریعے زبان کا معیاری ذوق رکھنے والے دیگر اہل علم بھی ان نتائج تک پہنچ جاتے؟

 

تبصرہ

 

ہم کہتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ کسی شے کے بیان کہلانے کے لئے اس لسانیاتی مفروضے کی کوئی لغوی، عقلی و نقلی دلیل موجود نہیں بلکہ یہ ایک مفصل کلام وضع کرنے اور ایسے کلام کو سمجھنے کے معروف اسلوب ہی کے خلاف ہے نیز اسی لئے اسے اپنانے کے نتیجے میں طرح طرح کے تکلفات کرنا پڑتے ہیں۔ یہ بات تاریخی حقائق سے معلوم ہے کہ کلام اللہ یکبار نازل نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس ترتیب پر نازل ہوا تھا جس میں اس کی تلاوت ہوتی ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب کے نظرئیے کی رو سے درج ذیل مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

 

اسمائے شریعہ کے اجمال کا بیان

ان کے نظرئیے کی رو سے کلام اللہ کی کسی بھی آیت میں اجمال کا ایسا پہلو جائز نہیں جس کی وضاحت بعد میں آئے (نوٹ: یہاں اصطلاحی معنی والا اجمال مراد ہے)۔ اگر آیت کسی بھی پہلو سے مجمل ہوئی اور اپنے سے باہر کسی ایسی وضاحت کی محتاج ہوئی جو زمانہ نزول تک موجود نہ تھا تو وہ بیان کی محتاج (یعنی مفتقر الی البیان) ہوگی اور ان کے اصول پر اس کی وضاحت بیان سے خارج ہوگی۔

غامدی صاحب کا ماننا ہے کہ نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسے اسمائے شریعہ سنت ابراہیمی کی روایت میں چلے آنے کی بنا پر مخاطبین کے لئے معلوم تھے، قرآن جب ان کی بات کرتا ہے تو یہ تاریخی تصورات پس منظر میں چلے آرہے تھے اور اس لئے یہ الفاظ مخاطبین کے لئے مجمل نہیں تھے۔ اس بنا پر عمار صاحب کا کہنا ہے کہ سنت کو زمانی طور پر مقدم ماننے کے نظرئیے سے ان امور کا مفتقر الی البیان ہونا جاتا رہا۔ تاہم ہمارے نزدیک ان امور کو ماقبل قرآن فرض کرلینے سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا۔ اس توجیہہ کے مفید مطلب ہونے کے لئے چند مزید مفروضے بھی ماننا ہوں گے کیونکہ یہ بات کہ “فلاں سنت پہلے سے موجود ہونے کے سبب آیت مجمل نہیں رہی” آیت کے مفہوم کو مکمل طور پر غیر مجمل قرار دینے کے لئے کافی نہیں۔ مجمل کا مطلب یہ ہے کہ با اعتبار وضع و استعمال صرف لغوی قرائن سے لفظ کا پورا معنی جاننے کا طریقہ موجود نہیں اور اس لئے شارع ہی کی جانب سے کسی خارجی و اضافی بیان کی حاجت ہے۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ مثلاً نماز و حج وغیرہ کا خاص اصطلاحی شرعی مفہوم جو معین شرائط و ارکان اور دیگر تمام تفصیلات سمیت اسلام میں مشروع ہوا، وہ خاص مشروع تصور نزول آیت سے قبل معاشرے میں مخاطبین کے لئے جانا پہچانا تھا تب جاکر صلوۃ و حج کی آیت غیر مجمل ثابت ہوگی۔ چنانچہ ان کے نظرئیے کے درست ہونے کے لئے ماننا ہوگا کہ جب آپﷺ نے نماز و حج وغیرہ سے متعلق تمام تفصیلات سکھا دیں، اس کے بعد نماز و حج سے متعلق پہلی آیت نازل ہوئی۔ اگر نزول آیت کے وقت شرعی تصور نماز و حج کی بعض تفصیلات ایسی تھیں جن سے مخاطبین اس وقت واقف نہ تھے بلکہ آپﷺ نے ان میں تبدیلی کی اور شارع کو یہ خاص مشروع عمل ہی مطلوب تھا نہ کہ تاریخی طور پر پایا جانے والا عمل، تو آیت میں لفظ نماز و حج مجمل ہی رہا۔ باالفاظ دیگر صرف یہ کہنے سے ان کی مطلب برآوری نہیں ہوتی کہ اہل عرب سنت ابراہیمی سے چلے آنے والے کسی تصور سے چونکہ واقف تھے لہذا آیت مجمل نہ رہی۔ ایسی باتوں سے زیادہ سے زیادہ آیت کے اجمالی مفہوم کو ثابت کیا جاسکتا ہے نہ کہ اس تفصیلی مفہوم کو جو شرعاً مطلوب تھا اور اس تفصیلی بیان کو معلوم کرنے کا لغت میں کوئی طریقہ موجود نہیں اور لامحالہ آپﷺ کی سنت ہی کی جانب رجوع کرنا ہوگا جو نزول آیت سے متاخر بھی ہوسکتی ہے۔ یہی معاملہ دیگر اسمائے شریعہ کے بارے میں بھی فرض کرنا ہوگا کہ جب آپﷺ نے ان کی پوری ھئیت و جمیع تفصیلات واضح فرما دیں تب متعلقہ آیات کا نزول شروع ہوا۔ ظاہر ہے اس قسم کی باتیں تکلف کے سوا کچھ نہیں۔

پس یہاں تین امکانات ہیں

الف)     ابتدائی آیت میں اسی عمل کا تقاضا مراد تھا جس سے اہل عرب اس وقت تک واقف تھے اور آپﷺ کی جانب سے اس میں کوئی ترمیم کبھی نہیں کی گئی۔ اس صورت میں آیت میں کوئی اجمال نہ ہوگا لیکن غامدی صاحب اس کے قائل نہیں۔ خود عمار صاحب نے بھی قبول کیا ہے کہ مال کار کے لحاظ سے ہی سہی مگر سنت نے ان اعمال کی جو حتمی مشروع صورت مقرر کی وہ ان کے تاریخی تصورات سے مختلف تھی، خود غامدی صاحب نے بھی “میزان” میں نماز کی تاریخ میں لکھا ہے کہ “نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم پر بعض ترامیم کے ساتھ اُسے ہی اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا”۔

ب)       ابتدائی آیت میں اسی عمل کا تقاضا مراد تھا جس سے اہل عرب اس وقت تک واقف تھے اور پھر بعد میں آپﷺ کی سنت نے آیت کے مفہوم میں ایسا اضافہ کیا جو لغت بطریق وضع اور استعمال قابل فہم نہیں تھا۔ اس صورت میں نزول کے وقت آیت مجمل اور نتیجتا ایسے بیان کی محتاج رہی جس کا قرینہ کلام کی پیدائش کے وقت موجود نہیں۔

ج)        آیت نے اسی عمل کا تقاضا کیا جو بالاخر آپﷺ نے مشروع کیا۔ اس تکییف پر ان اعمال سے متعلق اہل عرب کے قدیم چلے آنے والے تصورات غیر متعلق ہوجاتے ہیں اور نتیجتاً آیت پھر مجمل ہی رہی

الغرض ان امور کو ماقبل قرآن فرض کرلینے کے باوجود “زیادہ و کم اجمال” کے سوا کوئی فرق نہیں پڑا اور ان امور سے متعلق “مجمل مفتقر الی البیان” کا مسئلہ اپنی جگہ بدستور باقی رہا۔ لیکن آپﷺ کی جانب سے ان ترمیمات کو قبول کرنے کے باوجود حیرت انگیز طور پر عمار صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس سے “مجمل مفتقر الی البیان” کی ضرورت نہ رہی

ہمارے فہم میں جناب غامدی صاحب کی جانب سے سنت کو قرآن پر مقدم فرض کرنے کی ایک وجہ اس سوال سے بچنا ہے کہ جسے یہ سنت کہتے ہیں وہ ان کے نظریہ بیان کی رو سے قرآن کا بیان کیسے ہوئی، یعنی اس کے جواب میں کہا جاسکے کہ یہ امور کسی بیان کے محتاج ہی نہیں۔ تاہم پوری کاوش کے باوجود بھی مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

 

نماز میں قصر کا حکم: بیان مجمل کی مثال

قرآن مجید میں سفر کے دوران نماز قصر کرنے اور غامدی صاحب کے مطابق نمازوں کو جمع کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ غامدی صاحب کے نظرئیے کی رو سے یہاں دو امکان ہیں:

الف)     اس تخفیفی حکم کی ابتداء قرآن نے کی۔ آیت کے الفاظ اور خود غامدی صاحب کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی کے قائل ہیں، اس کا قرینہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کے مطابق آپﷺ نے خوف کے سوا چند دیگر صورتوں میں بھی نماز قصر کرنے کا حکم اس آیت پر قیاس کرتے ہوئے جاری فرمایا۔ مزید یہ کہ قرآنی الفاظ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا کے مفہوم مخالف پر ان کا کہنا ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا بھی جائز ہے۔ نماز قصر کرنے اور انہیں جمع کرنے کا حکم اگر اس آیت ہی سے ثابت ہوا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ آیت نماز کی “تقصیر کے جواز” میں تو ظاہر تھی تاہم “تقصیر کے مفہوم” میں مجمل تھی، یعنی کونسی نماز میں کتنی کمی کرنا ہے نیز کس نماز کو کس کے ساتھ جمع کرنا ہے ان جیسی تفصیلات آیت کے الفاظ اور جملے کی تالیف وغیرہ کسی سے معلوم نہیں ہوسکتی تھیں اور نتیجتاً آیت سے خارج اور متاخر سنت ہی سے یہ معلوم ہوا کہ شارع نے قصر سے کیا مراد لی۔ اسے ہی “تاخیر البیان عن وقت الخطاب” نیز “مجمل مفتقر الی البیان” بذریعہ سنت کہتے ہیں۔

یہاں اگلا سوال یہ ہے کہ یہاں آیت نے سنت سے ثابت مخصوص اوقات کے بجائے دیگر اوقات میں نمازوں کو ادا کرنے کا جو حکم جاری کیا، یہ سنت کی تخصیص تھی، نسخ تھا یا اس کا بیان؟

ب)       دوسرا امکان یہ ہے کہ اس صورت سے متعلق یہ تخفیفی حکم قرآنی آیات کے نزول سے قبل بذریعہ سنت مشروع و معروف تھا۔ اس صورت میں یہ کہنے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا کہ آپﷺ نے عام سفر وغیرہ کی صورت میں نماز میں قصر کو آیت کے مذکورہ حکم پر قیاس کیا جیسا کہ غامدی صاحب نے فرمایا ہے۔ اسی طرح جرابوں پر مسح کو بھی غامدی صاحب نے آپﷺ کا اسے تیمم پر قیاس کرنا قرار دیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قصر صلوۃ کا حکم اس آیت سے قبل بذریعہ سنت مشروع نہ ہوا تھا اور درج بالا تجزیہ درست رہا۔

نماز کی قضا: حکم پر اضافہ

نماز کی ادائیگی خاص اوقات پر مشروع ہے۔ اگر ان اوقات میں کسی وجہ سے نماز ادا نہ ہوسکے تو کیا اسے قضا کرنا ہے یا نہیں؟ “میزان” کتاب میں غامدی صاحب نے ایک حدیث کی بنیاد پر لکھا ہے کہ کوئی شخص جاگتی کیفیت میں نماز چھوڑ دے تو یقیناً قصوروار ہے، اور اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے یا نماز کے وقت سوتا رہ جائے تو اُسے چاہیے کہ متنبہ ہوتے ہی نماز ادا کرے۔ قضا کا یہ حکم قرآن کے مشروع احکام پر ایک اضافی حکم ہے۔ اس اضافے کے لئے غامدی صاحب نے جس حدیث کو دلیل بنایا ہے وہ ابتداء ہی سے موجود کس بات کا بیان ہے؟ نیز بظاہر ایسا لگتا ہے کہ غامدی صاحب صرف بھول چوک سے چھوٹ جانے والی نماز کی قضا کے قائل ہیں نہ کہ جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کے۔ اگر معاملہ یونہی ہے تو اس حکم کے معاملے میں ایک اضافی سوال یہ ہے کہ خود اس فرق کی دلیل کیا ہے کہ اسے بیان کہا جاسکے؟ اور اگر وہ یہ کہیں کہ دونوں پر قضا لازم ہے تو پھر بھی یہ سوال قائم رہا کہ ان کے اصول پر یہ بیان کیسے ہے؟

 

حائضہ کی نماز کا حکم: اصول پر متفرع تکلف کی مثال

غامدی صاحب کے نظریہ بیان سے کس طرح تکلفات جنم لیتے ہیں، اس کے لئے اس جزئی کو لیجئے کہ قرآن مجید میں مرد و خواتین دونوں کو نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم مخصوص ایام میں چھوٹ جانے والی نمازیں حائضہ خواتین پر معاف ہیں، یعنی ان کی قضا بھی واجب نہیں، اور معافی کا یہ حکم قرآن مجید میں مذکور نہیں۔ خواتین کے لئے وجوب صلوۃ کا یہ سقوط تخصیص القرآن بالسنة کی ایک کھلی ہوئی صورت ہے، یعنی قرآن کے عام الفاظ کی رو سے نماز فرض ہے تاہم نبیﷺ کی سنت سے معلوم ہوا کہ خواتین پر بعض ایام میں یہ سرے سے معاف ہے (یہاں معافی پر توجہ رہے، یعنی قضا بھی نہیں کرنی کہ وجوب ساقط ہوگیا)۔

ہم جانتے ہیں کہ ممکنہ طور پر غامدی صاحب کی جانب سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ خواتین کی معافی کا یہ حکم بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور سے چلی آنے والی ماقبل سنت سے معروف تھا، یعنی جب شارع نے نماز کی ادائیگی کا حکم دیا تو مراد وہ نماز تھی جو اس ماقبل سنت سے معلوم ہوچکی تھی اور اس میں خواتین کے لئے یہ معافی ثابت تھی۔ ایک بات واضح ہے کہ ابراہیمی روایت کا کوئی عمل از خود ہمارے لئے حجت نہیں بلکہ اس بنا پر حجت بنتا ہے کہ آپﷺ نے اسے مشروع فرمایا، یعنی دلیل آپﷺ کا اسے دین کہنا ہے۔ چنانچہ اس توجیہہ سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب جسے سنت کہتے ہیں، بسا اوقات وہ بھی قرآن کے ظاہری الفاظ کے ساتھ تخصیص کی کیفیت لئے ہوسکتی ہے، الا یہ کہ دیگر مفروضات سے یہ کہا جائے کہ نماز سے متعلق پہلی آیت نازل ہونے سے قبل آپﷺ خواتین سے متعلق یہ احکام بھی بتا چکے تھے اور کلام سننے والے کو پوری بات ابتدا ہی سے سمجھ آگئی تھی کہ خواتین کے لئے ان ایام میں نماز سرے سے واجب نہیں اگرچہ الفاظ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایسی کسی معافی کو قبول نہ کررہے ہوں۔ اہل علم یہ بات جانتے ہیں کہ حیض و نفاس کا اثر مسائل شریعہ پر پیچیدہ ہے نہ کہ ہر جگہ ایک جیسا۔ نماز کے نفس وجوب میں یہ مانع ہیں لہذا قضا لازم نہیں لیکن روزے میں وجوب ادا کے لیے مانع ہیں اس لئے قضا لازم ہے جبکہ حج کے اندر وجوب اور ادا دونوں میں مانع نہیں لیکن بیت اللہ کے طواف میں کراہت پیدا کرتے ہیں جو دم کو واجب کرتا ہے تاہم صفا و مروہ کی سعی میں کراہت بھی پیدا نہیں کرتے۔ تو کیا یہ سب احکام سنت ابراہیمی سے معلوم شدہ تھے یا بعض؟

اب نفس مسئلہ کی مجموعی صورت پر غور کیجئے جو یوں بن رہی ہے

نماز میں قصر جائز ہے جو کہ حکم میں ایک خاص طرح کی تخفیف ہے اور وہ ابتداءً قرآن سے معلوم ہوئی

  • آپﷺ کی جانب سے عام سفر میں نماز قصر کرنا قرآنی حکم پر متفرع ہے
  • وضو کی جگہ تخفیفی حکم کے طور پر تیمم بھی کیا جاسکتا ہے یہ بھی قرآن سے معلوم ہوا
  • جرابوں پر مسح جیسی رخصت بھی قرآن پر متفرع ہے
  • البتہ خواتین کے حق میں ان سب سے بڑھ کر ثابت تخفیف (یعنی نماز معاف ہونا) آیات صلوۃ کے نزول سے قبل سنت ہی سے ثابت تھی۔

بظاہر اس آخری مفروضے کو اختیار کرنے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ پہلے “تاخیر البیان عن وقت الخطاب” کو ناجائز فرض کرتے ہوئے تخصیص کو بیان سے خارج فرض کر لیا گیا اور پھر مزید اضافہ کر کے بذریعہ سنت اسے ناجائز قرار دے دیا گیا۔ ظاہر ہے غامدی صاحب کے پاس ایسا کوئی معتبر تاریخی ریکارڈ موجود نہیں جس سے وہ تاریخوں کے تعین سے یہ بتا سکیں کہ فلاں فلاں حکم بذریعہ سنت قرآن کی فلاں آیت سے پہلے ثابت ہوچکا تھا، یہاں جو نتائج نکالے جاتے ہیں وہ پہلے سے طے شدہ اصول کی استدلالی مجبور ہوتی ہے جس کی بنا پر ایک تخفیف کو قبل از قرآن سنت فرض کرلیا جاتا ہے اور بعض تخفیفات کو قرآنی حکم پر متفرع کہا جاتا ہے۔ محترم عمار صاحب کو امام شافعی سے یہ شکوہ ہے کہ آپ بعض مقامات پر آیت کے داخلی قرینوں و اسالیب کلام کو دیکھ کر نہیں بلکہ کوئی سنت معلوم ہوجانے کے بعد یہ طے کرتے ہیں کہ آیت محتمل ہے یا نہیں۔ امام شافعی تو اپنے لسانی اصول میں بہرحال ہم آہنگ ہیں کیونکہ آپ تاخیر البیان عن وقت الخطاب کو جائز کہتے ہیں اور تخصیص آپ کے ہاں بیان کی قسم ہے، تاہم انہیں غامدی صاحب کی درج بالا جزیات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ یہاں کس کس چیز کو دیکھ کر آیت و سنت کے بارے میں کیا کیا طے کیا جارہا ہے۔

نیز ہم کہتے ہیں کہ اگر یہاں اس قدر تکلف کرنا جائز ہے تو خود ان کے اصولوں کے اندر مسئلہ رجم کی پوری گنجائش موجود ہے، کیونکہ یہ بات بھی مانی جاسکتی ہے کہ شادی شدہ کو رجم کیا جانا بذریعہ سنت ثابت ہے اور یہ ابراہیمی مذہب کی قدیم سنت تھی جس سے اہل عرب اور اہل کتاب واقف تھے جیسا کہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے۔ پس جب سورۃ نور کی آیت نازل ہوئی تو لوگوں کو ابتدائے کلام ہی سے معلوم تھا کہ شادی شدہ لوگ اس میں مراد نہیں۔ اس کے جواب میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سنت تو عمل کرنے کی چیزیں ہوتی ہیں نہ کہ نظری احکام کیونکہ قرآن کے الفاظ سے علی الرغم حائضہ کے لئے نماز کی معافی کا حکم بھی کرنے کی چیز نہیں بلکہ رجم ہی کی طرح نظری تخصیص ہے۔

 

چند مزید مطلوبہ اصول

غامدی صاحب نے بیان پر جو موقف اختیار کیا ہے اس سے درج ذیل مزید اصول متفرع ہوتے ہیں۔ ان کی کتاب “میزان” کا ان اصولوں کی روشنی میں مطالعہ کرتے ہوئے درج بالا قسم کی مزید مثالیں متعین کی جاسکتی ہیں جہاں کسی چیز کو بیان بنانے کے لئے اضافی مفروضات درکار ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لئے یہاں صرف ان کے تصور بیان سے ابھرنے والے چند متعلقہ اصولوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

 

مطلق حکم کے زمانی تقدم کا لزوم

غامدی صاحب کو ماننا ہوگا کہ کلام اللہ کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں صرف ایسی ہی تخصیص و تقیید جائز ہے جو تاریخی طور پر ابتدائی خطاب کے الفاظ وغیرہ سے مفہوم ہو نیز شارع کے لئے یہ جائز نہیں کہ ابتدائی آیت میں مقید بات کرے اور بعد میں مطلق۔ مقید حکم کے بعد مطلق کو لانا اس کا بیان نہیں بن سکتا کیونکہ اس صورت میں یہ مقید کو ایسے بیان کا محتاج ماننا لازم آتا ہے جو لفظ، جملہ، سیاق کلام وغیرہ سے ماوراء ہو کہ مقید حکم سے مطلق حکم پر استدلال ممکن نہیں ہوتا۔ پس اس اصول پر پورا نہ اترنے والے احکام کو انہیں نسخ وغیرہ قرار دینا ہوگا۔

 

نسخ کے بیان ہونے کی شرط

ان کے نظرئیے کی رو سے نسخ کو ابتدائی حکم کا بیان بنانے کے لئے یہ شرط رکھنا ہوگی کہ متکلم ابتدا ہی سے ایسا کلام لائے جو مخاطب کو یہ بتائے کہ حکم ایک خاص مدت کے بعد اٹھا لیا جائے گانیز وہ انتہائے مدت بتایا جانا بھی ضروری ہے بصورت دیگر اجمال کا پھر ایک پہلو باقی رہ گیا کیونکہ نسخ کا مطلب ابتدائی حکم سے متعلق مخاطب پر ایسے مدعا کو ظاہر کرنا ہے جو ابتدائی کلام میں مفہوم نہیں ہوتا۔

ہم جانتے ہیں اس کے جواب میں غامدی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک نسخ بیان نہیں۔ لیکن اصطلاحات کو ایک طرف رکھ کر انہیں یہ بات بہرحال ماننا ہوگی کہ متکلم کے لئے یہ جائز ہے کہ ابتدائی کلام کے بعد کوئی ایسا کلام لائے جو مخاطب کے لئے ابتدائی کلام کے ایک ایسے مدعا کو واضح کرے جو اس میں مفہوم نہیں تھا، یعنی مخاطب کو یہ بتانا کہ متکلم کو ابتدائی حکم ہمیشہ کے لئے مطلوب نہ تھا اگرچہ ظاہری الفاظ سے مخاطب کے ذہن میں یہ تصور قائم ہو نیز مابعد کلام سے قبل یہ جاننے کا قرینہ بھی کلام میں موجود نہیں ہوتا (یہ فرض نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ نے ابتداء ہمیشہ کے لئے حکم نازل کیا تھا لیکن پھر بعد میں اپنا ارادہ بدل لیا، العیاذ باللہ)۔ اس تناظر میں ہم سمجھ نہیں پائے کہ آخر نسخ بیان کیوں نہیں ہے؟ اور اگر غامدی صاحب یہ کہیں کہ ہر منسوخ ہونے والے حکم کی بھی کوئی لغوی یا معقول بنیاد پہلے سے موجود ہوتی ہے تو پھر نسخ ان کے اصول پر بطریق اولی بیان ہوا اور دونوں میں کوئی فرق نہ رہا۔

 

اصولی احکام کے فروع پر زمانی تقدم کا لزوم

غامدی صاحب شریعت کے مسائل کو جن اصول و فروع میں تقسیم کرتے ہیں، ان کے نظرئیے کی رو سے لازم ہے کہ متکلم پہلے ہر مسئلے کے اصولوں کو لائے تاکہ مخاطبین متعلقہ فروعات کی نوعیت کے بارے میں الفاظ و سیاق کلام وغیرہ سے رائے قائم کرسکیں۔ اس کے لئے شاید یہ فرض کرنا ہوگا کہ قرآن مجید میں مختلف احکام (بشمول عقائد و اخروی احکام) سے متعلق آیات زمانی ترتیب سے غامدی صاحب کی کتاب “میزان” کے ابواب کی داخلی ترتیب پر اتری ہوں جو پہلے متعلقہ باب کے اصول اور پھر فروع بیان کرتے ہیں۔ اب ذرا ایک لمحے کے لئے صحابہ کرام کے مبارک دور کا تصور کیجئے جب وقفے وقفے سے تھوڑی تھوڑی آیات نازل ہورہی تھی اور سوچیں کہ اس نظرئیے کی صحت ثابت کرنے کے لئے کتنے تکلفات کرنا پڑیں گے۔ الغرض کسی چیز کے بیان ہونے کے لئے جس قسم کا سخت معیار انہوں نے مقرر کیا ہے وہ مختلف امور کی رعایت کے پیش نظر طویل دور تک نازل ہونے والے کسی تفصیلی کلام سے مناسبت ہی نہیں رکھتا، بالخصوص کہ جب نبیﷺ کی جانب سے قرآن کے ماسوا احکام بھی جاری ہورہے ہوں۔

 

عوارض اہلیت کے زمانی تقدم کا لزوم

انہیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ جمیع احکام شریعہ کے نزول سے قبل یا ان سے متصل ان کے عوارض اہلیت نازل ہوچکے ہوں کیونکہ اگر احکام سے پہلے مخاطب پر یہ واضح نہ ہو کہ کون سے حکم کی ادائیگی کن عوارض سے کلی یا جزوی طور پر ساقط ہوجاتی ہے تو مطلب یہ ہوا کہ ابتدائی حکم کسی ایسے مؤخر بیان کا محتاج رہا جو یہ بتائے کہ حکم کس پر، کب اور کس حد تک ساقط ہو جائے گا۔ اہل علم یہ بات جانتے ہیں کہ مختلف عوارض و احوال کا مختلف احکام پر الگ طرح کا اثر ہوتا ہے۔ مثلاً سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہوجاتا ہے مگر نماز نہیں، حیض نماز کے نفس وجوب میں مانع ہے لہذا قضا لازم نہیں لیکن روزے میں وجوب ادا کے لیے مانع ہے اس لئے قضا لازم ہے جبکہ حج کے اندر وجوب اور ادا دونوں میں مانع نہیں ہے لیکن بیت اللہ کے طواف میں کراہت پیدا کرتا ہے جو دم کو واجب کرتا ہے تاہم صف مروا کی سعی میں کراہت بھی پیدا نہیں کرتا۔ اسی طرح بھولنے، غیر ارادی غلطی اور جان بوجھ کر کئے گئے اعمال کے اثرات مختلف مسائل پر الگ الگ ہیں، مثلاً جان بوجھ کر روزہ توڑنے پر کفارہ ہے مگر نماز توڑنے پر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر متعلقہ سب عوارض کو زمانی طور پر ماقبل یا متصل فرض نہ کیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ بعض احکام عموم و اطلاق کے ساتھ پہلے نازل ہوئے اور پھر بعد میں ان کے عوارض دوسرے مقامات پر بیان کرکے ان میں تخصیص و تقیید کی گئی جبکہ ایسی تخصیص کو یہ بیان نہیں نسخ مانتے ہیں۔

چنانچہ مکتب فراہی کی جانب سے صرف اتنی بات کہہ دیا جانا کافی نہیں کہ استثناء و تخصیص وغیرہ کی صورتیں کلام کے اندر موجود ہونا چاہئے بلکہ ساتھ یہ بات بھی ملانا ہوگی کہ ہر حکم کے استثناء وغیرہ بیان کرنے والے عوارض متعلقہ احکام کی آیات نازل ہونے سے قبل یا ان کے ساتھ آنا لازم ہیں، ورنہ ایسی تخصیصات “تاخیر البیان” کے ساتھ ماننا ہوں گی جنہیں سمجھنے کی بنیاد ابتدائی کلام میں موجود نہ تھی۔ یہ اسی نوعیت کا مسئلہ ہے جو عام کو قطعی قرار دے کر احناف کو بھی پیش آتا ہے کہ انہیں بھی متعدد مقامات پر ظاہر کلام کے خلاف دلیل عقلی اور مختلف شرعی عوارض سے ثابت ہونے والی تخصیصات کو استدلالاً ابتدائے کلام میں ثابت فرض کرنا پڑتا ہے۔ ایسا اس لئے کہ بعض عوارض اخبار احاد سے ثابت ہیں جو کہ منفصل کلام ہوتا ہے اور ان سے تخصیص (نہ کہ نسخ) ماننے کا مطلب خبر واحد سے تخصیص قبول کرنا بنتا ہے۔ اس کے برعکس جمہور کے لسانیاتی اسلوب میں اس مفروضے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ ان کے ہاں تخصیصی بیان کو وقت حاجت تک مؤخر کرنا جائز ہے۔

 

فائدہ

اس بحث سے مکتب فراہی کے منتسبین کی جانب سے کیا جانے والا یہ استدلال بھی رفع ہوگیا کہ کلام اللہ میں ایسی تخصیص ماننا گویا قرآن کے “کتاب مبین” ہونے کے خلاف ہے جو ابتدائے کلام سے مفہوم نہ ہو۔ جس معنی میں یہ حضرات کلام اللہ کو کتاب مبین مراد لے رہے ہیں، اس معنی پر خود ان کی بات بھی پوری نہیں اترتی کیونکہ انہیں بھی یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ جسے یہ سنت کہتے ہیں جب تک اس کا علم نہ ہو قرآن کتاب مبین نہیں رہتی اور یہ بات انہیں بھی قبول ہے کہ سنت قرآن کے الفاظ سے خارج ہے۔ پس اگر قرآن کے الفاظ کی ایسی تفہیم بذریعہ سنت اس کے کلام مبین ہونے کے خلاف نہیں جو خود الفاظ قرآن سے ابتداء واضح نہیں ہوتی تو پھر ایسی تخصیص بذریعہ سنت کیوں کر اس کے کتاب مبین ہونے کے خلاف ہوگئی جو بعض معاملات میں ابتدائی الفاظ قرآن سے مترشح نہ ہو؟

ھذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…