غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید

Published On July 11, 2025
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

سید اسد مشہدی

ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل سیاق و سباق سے ہٹا کر کچھ اس طور پیش کیا کہ گویا ہمارا اعتراض صرف غامدی صاحب کے اسلوب یا ان کی معاصر بیانی ساخت پر ہے۔ ہم اس وضاحت کے ذریعے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا مقدمہ اس سے کہیں زیادہ اصولی، منہجی اور فکری نوعیت کا ہے، جو درج ذیل سطور میں تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے:

ہمارے تحقیقی تھیسس کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ جاوید احمد غامدی صاحب کی تعبیرِ دین، اپنی فکری اساس، منہجی بنیادوں اور استنباطی اصولوں کے اعتبار سے کسی منفرد یا خالص داخلی علمی روایت کی نمائندہ نہیں بلکہ وہ سرسید احمد خان، غلام احمد پرویز، اور کلاسیکی استشراقی مفکرین کے افکار سے گہری فکری نسبت رکھتی ہے۔ یہ بات ہم محض زمانی معاصرت یا اسلوبی مماثلت کے دعوے کی بنیاد پر نہیں کہتے بلکہ ہمارے نزدیک غامدی فکر کا پورا منہجِ تعبیر انہی فکری و اصولی مصادر سے مستفاد ہے جنہیں وہ خود مختلف مواقع پر قبول کرتے اور علمی بنیاد کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔

یہ امر واضح رہے کہ ہماری تحقیق کا زاویہ نظر اسلوبیاتی یا بیانیاتی سطح پر غامدی فکر کی تنقید نہیں بلکہ اس کی تعبیر دین کے اصول، منہج اور علمی مصادر کی نوعیت کا تجزیہ ہے۔ کیونکہ تعبیراتِ دینیہ کی صحت و عدم صحت کا فیصلہ انہی علمی و اصولی بنیادوں پر ہوتا ہے نہ کہ کسی نکتہ آفرینی، نثر کی چابکدستی یا سماجی و ثقافتی جاذبیت کی بنیاد پر۔

تاہم حسن الیاس صاحب نے اپنی گفتگو میں ہمارے مقدمے کو اس انداز میں پیش کیا کہ گویا ہم صرف غامدی صاحب کی تعبیرات کے معاصر اسلوب یا اظہار کی معاصرت پر سوال اٹھا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری گفتگو اسلوب کے بجائے ماخذاتِ فکر اور تعبیر کے اصولی و استنباطی ڈھانچے پر مرکوز تھی۔ چنانچہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہمارے موقف کو ان کے تبصرے میں تحریف کے ساتھ پیش کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خود حسن صاحب نے اپنے بعض بیانات میں یہ اعتراف کیا کہ غامدی صاحب سرسید، پرویز اور بعض مستشرقین کے علمی کام سے اخذ و استفادہ کو نہ صرف جائز بلکہ مفید سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے دعوے کو ایک خام مفروضہ یا خارجی اتہام قرار دینا علمی دیانت کے منافی ہے کیونکہ یہ امر اب محض ایک دعویٰ نہیں رہا بلکہ خود غامدی فکر کی اندرونی شہادتوں اور ان کے شاگردوں کی تصریحات سے ایک مسلمہ علمی حقیقت بن چکا ہے۔

اس مقام پر اب گفتگو کے منطقی ارتقاء کا تقاضا ہے کہ ہم ان فکری ماخذات، بالخصوص کلاسیکی استشراقی روایت کی خود علمی حیثیت اور منہجی افادیت پر بھی تنقیدی جائزہ لیں کیونکہ اگر کسی تعبیر دین کی بنیاد ایسے افکار پر ہو جو علمی دنیا میں اب خود تنقید کی زد میں ہوں، تو وہ تعبیر کس حد تک معتبر یا قابلِ اعتماد قرار دی جا سکتی ہے؟

یہ بات معروف ہے کہ وہ استشراقی روایت، جس سے سرسید نے متاثر ہو کر قرآن فہمی کا نیا منہج پیش کیا اور جس کے اثرات بعد ازاں پرویز وغیرہ کے ہاں عقلی تعبیر کی صورت میں سامنے آئے، پھر غامدی فکر میں نسبتاً علمی پیرائے میں منتقل ہوئے، وہ خود مغرب کی علمی روایت میں اب نوآبادیاتی (colonial) تنقیدات کا نشانہ بن چکی ہے۔ یعنی جس علمی روایت کو غامدی فکر نے ماخذ کی حیثیت دی، وہ خود مغربی جامعات میں متنازع اور بعض صورتوں میں ترک شدہ بن چکی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ کئی ممتاز اور غیر جانب دار مستشرقین نے پرانی استشراقی تنقیدات، مثلاً حدیث سازی کے مفروضات یا قرآن کی متاخر تدوین جیسے دعووں کو علمی اور تحقیقی سطح پر رد کیا ہے۔ ہارالڈ موٹزکی، گریگور شولر، مائیکل لیکر اور جوزف فان ایس جیسے محققین نے مسلم علمی روایت، بالخصوص حدیث، تفسیر اور فقہ کے مستند مصادر کا تحقیقی مطالعہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ پرانی استشراقی مفروضات نہ صرف منہجی طور پر کمزور تھیں بلکہ خود علمی معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ان کی تحقیقات نے استشراقی علمیت کے کئی بنیادوں کو متزلزل کر کے رکھ دیا۔

اگر کوئی مفکر، جیسا کہ غامدی صاحب، انہی منہدم شدہ بنیادوں پر دین کی تعبیر کرتا ہے تو اس کی فکر نہ صرف اسلامی علمی روایت سے کٹ جاتی ہے بلکہ مغربی علمی روایت میں بھی اس کی کوئی معنویت باقی نہیں رہتی۔ اس طرح ایسی تعبیر نہ علمی استناد کی حامل رہتی ہے اور نہ دینی حجیت کی۔ کیونکہ تعبیر دین کی قبولیت صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وہ علمی روایت کے ساتھ ربط رکھتی ہو، اس کے مصادر و مراجع معتبر ہوں، اور اس کے استنباطات اصولی بنیادوں پر استوار ہوں۔

ہماری تنقید کا مقصد صرف خارجی اثرات کی فہرست سازی نہیں، بلکہ ایک جامع علمی و منہجی تجزیہ ہے جو اسلامی اصولِ تفسیر و اجتہاد اور جدید علمی تنقیدات دونوں کے معیارات پر پورا اترے۔ اس تنقید کی بنیاد کسی داخلی تعصب یا شخصی مخالفت پر نہیں بلکہ علمی دیانت، تاریخی فہم، اور اصولی بصیرت پر ہے۔ غامدی فکر کے مطالعے میں اگر ان بنیادی علمی سوالات کو نظر انداز کر کے محض خطیبانہ دفاع یا تعریفی کلمات پر اکتفا کیا جائے تو نہ دین کی خدمت ہو سکے گی، نہ علمی روایت کی بقا ممکن ہو گی، اور نہ ہی سنجیدہ فکری مکالمہ آگے بڑھ سکے گا۔
ہماری گفتگو اور جناب حسن الیاس صاحب کا رد عمل درج ذیل روابط پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
https://youtu.be/KVJ6nUJ4zPU?si=-5t2xpA5Jndqb8Hc

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…