ناقد :سید سعد قادری صاحب تلخیص : زید حسن ایک صاحب نے استفسار کیا کہ غامدی صاحب کو سننا کیسا ہے ؟ میرے خیال سے غامدی صاحب میں لوگوں کو کشش انکے اندازِ بیان اور پہلے سے چلتے آنے والے مذہبی تصورات کی مخالفت کی وجہ سے محسوس ہوتی ہے کیونکہ طبائع نئی چیزوں کی طرف...
غامدی فکر : ایک اصولی اور منہجی تنقید
غامدی صاحب کی اصل غلطی
ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن غامدی صاحب کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ سلف صالحین سے ہٹ کر خدائی پیغام کی تشریح کرتے ہیں ۔ اسکا لازمی مطلب یہ ہے کہ یا تو قرآن عربیء مبین میں نازل نہیں ہوا ( جو قرآن پر ایک طعن ہے) کہ وہ ہدایت دینے کے لئے واضح پیغام لانے کی بجائے...
کیا کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا؟
محمد رفیق چوہدری دور ِ جدید کے بعض تجدد پسند حضرات نے نبی اور رسول کے درمیان منصب اور درجے کے لحاظ سے فرق و امتیاز کی بحث کرتے ہوئے یہ نکتہ آفرینی بھی فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو تو اُن کی قوم بعض اوقات قتل بھی کردیتی رہی ہے مگر کسی قوم کے ہاتھوں کوئی رسول...
اسلام ميں مرتد كى سزا اور جاويد غامدى
محمد رفیق چوہدری ارتداد كے لغوى معنى 'لوٹ جانے' اور 'پهر جانے' كے ہيں - شرعى اصطلاح ميں ارتداد كا مطلب ہے: "دين اسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كرلينا-" يہ ارتداد قولى بهى ہوسكتا ہے اور فعلى بهى- 'مرتد' وہ شخص ہے جو دين ِاسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كرلے-اسلا م ميں مرتد كى...
پردے کے بارے میں غامدی صاحب کی مغالطہ انگیزیاں
محمد رفیق چوہدری عور ت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید احمدغامدی صاحب کا کوئی ایک موقف نہیں ہے بلکہ وہ وقت اور حالات کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیںکبھی فرماتے ہیں کہ عورت کے لئے چادر، برقعے، دوپٹے اور اوڑھنی کا تعلق دورِنبویؐ کی عرب تہذیب و تمدن سے ہے اور اسلام میں...
غامدی صاحب اور انکارِ حدیث (قسط 4)
محمد رفیق چوہدری غامدی صاحب کے انکارِ حدیث کا سلسلہ بہت طولانی ہے۔ وہ فہم حدیث کے لئے اپنے من گھڑت اُصول رکھتے ہیں جن کا نتیجہ انکارِ حدیث کی صورت میں نکلتا ہے۔ وہ حدیث اور سنت کی مسلمہ اصطلاحات کا مفہوم بدلنے کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ حدیث کو دین کا حصہ نہیں سمجھتے۔ وہ...
سید اسد مشہدی
ہمارا تحقیقی مقالہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کے مصادر فکر کے تجزیے پر مبنی ہے۔ جب ہم نے اسی تناظر میں ایک علمی گفتگو ریکارڈ کروائی تو مختلف حلقوں سے ردعمل موصول ہوئے۔ ان میں ایک ردعمل جناب حسن الیاس صاحب کا تھا، جنہوں نے ہماری گفتگو کو اس کے اصل سیاق و سباق سے ہٹا کر کچھ اس طور پیش کیا کہ گویا ہمارا اعتراض صرف غامدی صاحب کے اسلوب یا ان کی معاصر بیانی ساخت پر ہے۔ ہم اس وضاحت کے ذریعے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا مقدمہ اس سے کہیں زیادہ اصولی، منہجی اور فکری نوعیت کا ہے، جو درج ذیل سطور میں تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے:
ہمارے تحقیقی تھیسس کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ جاوید احمد غامدی صاحب کی تعبیرِ دین، اپنی فکری اساس، منہجی بنیادوں اور استنباطی اصولوں کے اعتبار سے کسی منفرد یا خالص داخلی علمی روایت کی نمائندہ نہیں بلکہ وہ سرسید احمد خان، غلام احمد پرویز، اور کلاسیکی استشراقی مفکرین کے افکار سے گہری فکری نسبت رکھتی ہے۔ یہ بات ہم محض زمانی معاصرت یا اسلوبی مماثلت کے دعوے کی بنیاد پر نہیں کہتے بلکہ ہمارے نزدیک غامدی فکر کا پورا منہجِ تعبیر انہی فکری و اصولی مصادر سے مستفاد ہے جنہیں وہ خود مختلف مواقع پر قبول کرتے اور علمی بنیاد کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔
یہ امر واضح رہے کہ ہماری تحقیق کا زاویہ نظر اسلوبیاتی یا بیانیاتی سطح پر غامدی فکر کی تنقید نہیں بلکہ اس کی تعبیر دین کے اصول، منہج اور علمی مصادر کی نوعیت کا تجزیہ ہے۔ کیونکہ تعبیراتِ دینیہ کی صحت و عدم صحت کا فیصلہ انہی علمی و اصولی بنیادوں پر ہوتا ہے نہ کہ کسی نکتہ آفرینی، نثر کی چابکدستی یا سماجی و ثقافتی جاذبیت کی بنیاد پر۔
تاہم حسن الیاس صاحب نے اپنی گفتگو میں ہمارے مقدمے کو اس انداز میں پیش کیا کہ گویا ہم صرف غامدی صاحب کی تعبیرات کے معاصر اسلوب یا اظہار کی معاصرت پر سوال اٹھا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری گفتگو اسلوب کے بجائے ماخذاتِ فکر اور تعبیر کے اصولی و استنباطی ڈھانچے پر مرکوز تھی۔ چنانچہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہمارے موقف کو ان کے تبصرے میں تحریف کے ساتھ پیش کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود حسن صاحب نے اپنے بعض بیانات میں یہ اعتراف کیا کہ غامدی صاحب سرسید، پرویز اور بعض مستشرقین کے علمی کام سے اخذ و استفادہ کو نہ صرف جائز بلکہ مفید سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے دعوے کو ایک خام مفروضہ یا خارجی اتہام قرار دینا علمی دیانت کے منافی ہے کیونکہ یہ امر اب محض ایک دعویٰ نہیں رہا بلکہ خود غامدی فکر کی اندرونی شہادتوں اور ان کے شاگردوں کی تصریحات سے ایک مسلمہ علمی حقیقت بن چکا ہے۔
اس مقام پر اب گفتگو کے منطقی ارتقاء کا تقاضا ہے کہ ہم ان فکری ماخذات، بالخصوص کلاسیکی استشراقی روایت کی خود علمی حیثیت اور منہجی افادیت پر بھی تنقیدی جائزہ لیں کیونکہ اگر کسی تعبیر دین کی بنیاد ایسے افکار پر ہو جو علمی دنیا میں اب خود تنقید کی زد میں ہوں، تو وہ تعبیر کس حد تک معتبر یا قابلِ اعتماد قرار دی جا سکتی ہے؟
یہ بات معروف ہے کہ وہ استشراقی روایت، جس سے سرسید نے متاثر ہو کر قرآن فہمی کا نیا منہج پیش کیا اور جس کے اثرات بعد ازاں پرویز وغیرہ کے ہاں عقلی تعبیر کی صورت میں سامنے آئے، پھر غامدی فکر میں نسبتاً علمی پیرائے میں منتقل ہوئے، وہ خود مغرب کی علمی روایت میں اب نوآبادیاتی (colonial) تنقیدات کا نشانہ بن چکی ہے۔ یعنی جس علمی روایت کو غامدی فکر نے ماخذ کی حیثیت دی، وہ خود مغربی جامعات میں متنازع اور بعض صورتوں میں ترک شدہ بن چکی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ کئی ممتاز اور غیر جانب دار مستشرقین نے پرانی استشراقی تنقیدات، مثلاً حدیث سازی کے مفروضات یا قرآن کی متاخر تدوین جیسے دعووں کو علمی اور تحقیقی سطح پر رد کیا ہے۔ ہارالڈ موٹزکی، گریگور شولر، مائیکل لیکر اور جوزف فان ایس جیسے محققین نے مسلم علمی روایت، بالخصوص حدیث، تفسیر اور فقہ کے مستند مصادر کا تحقیقی مطالعہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ پرانی استشراقی مفروضات نہ صرف منہجی طور پر کمزور تھیں بلکہ خود علمی معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ان کی تحقیقات نے استشراقی علمیت کے کئی بنیادوں کو متزلزل کر کے رکھ دیا۔
اگر کوئی مفکر، جیسا کہ غامدی صاحب، انہی منہدم شدہ بنیادوں پر دین کی تعبیر کرتا ہے تو اس کی فکر نہ صرف اسلامی علمی روایت سے کٹ جاتی ہے بلکہ مغربی علمی روایت میں بھی اس کی کوئی معنویت باقی نہیں رہتی۔ اس طرح ایسی تعبیر نہ علمی استناد کی حامل رہتی ہے اور نہ دینی حجیت کی۔ کیونکہ تعبیر دین کی قبولیت صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وہ علمی روایت کے ساتھ ربط رکھتی ہو، اس کے مصادر و مراجع معتبر ہوں، اور اس کے استنباطات اصولی بنیادوں پر استوار ہوں۔
ہماری تنقید کا مقصد صرف خارجی اثرات کی فہرست سازی نہیں، بلکہ ایک جامع علمی و منہجی تجزیہ ہے جو اسلامی اصولِ تفسیر و اجتہاد اور جدید علمی تنقیدات دونوں کے معیارات پر پورا اترے۔ اس تنقید کی بنیاد کسی داخلی تعصب یا شخصی مخالفت پر نہیں بلکہ علمی دیانت، تاریخی فہم، اور اصولی بصیرت پر ہے۔ غامدی فکر کے مطالعے میں اگر ان بنیادی علمی سوالات کو نظر انداز کر کے محض خطیبانہ دفاع یا تعریفی کلمات پر اکتفا کیا جائے تو نہ دین کی خدمت ہو سکے گی، نہ علمی روایت کی بقا ممکن ہو گی، اور نہ ہی سنجیدہ فکری مکالمہ آگے بڑھ سکے گا۔
ہماری گفتگو اور جناب حسن الیاس صاحب کا رد عمل درج ذیل روابط پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
https://youtu.be/KVJ6nUJ4zPU?si=-5t2xpA5Jndqb8Hc
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)
مولانا واصل واسطی دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب غامدی صاحب اپنی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 36)
مولانا واصل واسطی جمہورامت اس بات پر متفق ہیں کہ مذکورہ تحریر میں درج...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 35)
مولانا واصل واسطی اب ان مذکورہ سوالات کے بعد ایک اور بات کی طرف ہم دوستوں...