غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 100)

Published On August 12, 2024
ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

سید خالد جامعی ایک سائل نے ایک عالم سے پوچھا ’’جو شخص بحالت احرام شکار کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ‘‘ [شرعاً حج ادا کرنے والے شخص کے لیے شکار کھیلنا منع ہے] اس نیک سیرت اور صاحب عمل عالم نے جواب دیا: ’’آپ کا سوال مبہم اور گمراہ کن ہے، آپ کو بالصراحت بتانا...

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط دوم )

سید خالد جامعی جدیدیت پسند مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقلی دلائل سے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن محدود عقل قدم قدم پر ٹھوکر یں کھاتی ہے۔ عہد حاضر کے جدید ذہن کو، جو علمی موشگافیوں کا ماہر ہے، نت نئے سوالات سوجھتے ہیں یہ سوالات تحصیلِ علم، حصولِ...

غامدی صاحب: تصوف اور غارحرا کی روایات

غامدی صاحب: تصوف اور غارحرا کی روایات

ڈاکٹر خضر یسین کیا غار حرا اور اس سے وابستہ واقعات پر مروی احادیث واقعتا صوفیاء کی وضع کردہ ہیں اور محض افسانہ ہیں جیسا کہ غامدی صاحب کا مؤقف ہے؟کیا واقعی قرآن مجید کی سورہ والنجم کی آیات ان احادیث کی تردید کرتی ہیں جو صحیح بخاری میں “کیف بدء الوحی” کے عنوان کے تحت...

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط اول )

سید خالد جامعی غامدی صاحب اس امت کے پہلے محقق مجتہد اور مفکر ہیں جو ایمان بالغیب کی ایک ایسی توجیہہ پیش کرتے ہیں جو اس امت کی تاریخ تہذیب قرآن و سنت اور اسلامی علمیت کے لیے بالکل اجنبی غلط اور ناقابل قبول ہے غیب پر اور تقدیر پر ایمان کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل...

اشراق کا استشراق

اشراق کا استشراق

حافظ محمد ریحان جاید احمد غامدی اور ان کے مکتبہء فکر سے تقریباً ہر پڑھا لکھااور میڈیا سے آگاہی رکھنے والا شخص واقف ہے۔ اسلام کو جدید دور سے ”ہم آہنگ “ کرنے اور ایک ” جدّتِ تازہ “ بخشنے کے حوالے سے اس مکتبہء فکر کی کوششیں اور اس سلسلے میں ایسے حلقوں کی جانب سے ان کی...

کافروں سے مختلف نظر آنے کا مسئلہ، دار الکفر، ابن تیمیہ اور اپنے جدت پسند

کافروں سے مختلف نظر آنے کا مسئلہ، دار الکفر، ابن تیمیہ اور اپنے جدت پسند

حامد کمال الدین دار الکفر میں "تشبُّہ بالکفار" کے احکام کسی قدر موقوف ٹھہرا دینے کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی ایک تقریر پر پچھلے دنوں کئی ایک سوالات موصول ہوئے۔ بلا شبہہ، شیخ الاسلام کا یہ کلام آپؒ کی تصنیف ’’اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم‘‘ میں وارد...

مولانا واصل واسطی

 جناب غامدی آگے اپنی تائید میں اپنے استاد کی عبارت پیش کرتے ہیں کہ ” استاد امام امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں ” نظم کے متعلق یہ خیال بالکل غلط ہے کہ وہ محض علمی لطائف کی قسم کی ایک چیز ہے جس کی قران کے اصل مقصد کے نقطہ نظر سے کوئی خاص قدروقیمت نہیں ہے ” ہمارے نزدیک تواس کی اصل قدروقیمت یہی ہے کہ قران کے علوم اور حقیقت تک اگر رسائی ہوسکتی ہے تواسی کے واسطے سے ہوسکتی ہے ۔ جوشخص نظم کی راہنمائی کے بغیر قران کو پڑہے گا وہ زیادہ سے زیادہ جوکچھ حاصل کرسکے گا  وہ کچھ منفرداحکام اورمفردقسم کی ہدایات ہیں ۔ اگرچہ ایک اعلی کتاب کی منفرد ہدایات کی بھی قدروقیمت ہوتی ہے لیکن زمین وآسمان کافرق ہے اس بات میں کہ آپ طب کی کسی کتاب المفردات سے چند جڑی بوٹیوں کے کچھ آثرات وخواص معلوم کرلیں اور اس بات میں کہ ایک حاذق طبیب ان اجزاء سے کوئی کیمیا آثر نسخہ ترتیب دےدے۔ تاج محل کی تعمیر میں جومسالا استعمال ہواہے وہ الگ الگ دنیا کی بہت سی عمارتوں میں استعمال ہواہوگا  لیکن اس کے باوجود تاج محل دنیامیں ایک ہی ہے ۔میں بلا تشبیہ یہ بات عرض کرتاہوں کہ قران حکیم بھی جن الفاظ اور فقروں سے ترتیب پایاہے وہ بھرحال عربی لغت اورعربی زبان ہی سے تعلق رکھنے والے ہیں  لیکن قران کی لاہوتی ترتیب نے ان کو وہ جمال وکمال بخش دیاہے  کہ زمین کی کوئی چیز بھی اس ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ جس طرح خاندانوں کے شجرے ہوتے ہیں اسی طرح نیکیوں اوربدیوں کے بھی شجرے ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات ایک نیکی کوہم معمولی نیکی سمجھتے ہیں ۔حالانکہ اس کا تعلق نیکیوں کے اس خاندان سے ہوتاہے جس سے تمام بڑی نیکیوں کی شاخیں پھوٹی ہیں ۔ اس طرح بسا اوقات ایک برائی کوہم معمولی برائی سمجھتے ہیں  لیکن وہ برائیوں کے اس کنبے سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جوتمام مہلک بیماریوں کوجنم دینے والاکنبہ ہے ۔ جوشخص دین کی حکمت سمجھنا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خیروشر کے ان تمام مراحل ومراتب سے اچھی طرح واقف ہو  ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ دق کا پتہ دینے والی بیماری کونزلے کاپیش خیمہ سمجھے اورنزلے کی آمدآمد کودق کامقدمةالجیش قراردےدے ۔ قران کی یہ حکمت اجزائے کلام سے نہیں بلکہ تمام ترنظم سے واضح ہوتی ہے ۔ اگر ایک شخص ایک سورہ کی الگ الگ آیتوں سے توواقف ہو  لیکن سورہ کے اندر ان آیتوں کے باہمی حکیمانہ نظم سے واقف نہ ہو تواس حکمت سے وہ کبھی آشنا نہیں ہوسکتا” ( میزان ص 50) ہم اس حوالے سے چند باتیں احباب واصحاب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔(1) پہلی بات یہ ہے کہ ہردور کے مفکرین ودانشورحضرات اپنے پسندیدہ موضوعات کے متعلق اس طرح کے بے بنیاد دعوے کرتے رہتے ہیں ۔ چند سال قبل ایک دوسرے مشہور مفکر نے اپنے مزعوم ” چاربنیادی اصطلاحات یعنی  الہ ۔ رب ۔ دین اور عبادت” کے متعلق دعوی کیا تھا کہ اگر کوئی اس کا وہ اصل مفہوم نہ سمجھے جو ان کا مقصود ہے  تو قران کے تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم سے وہ لوگ محروم رہ جائیں گے ۔ لکھا کہ ” پس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑجانے کی بدولت قران کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم بلکہ اس کی روح نگاہوں سے مستور ہوگئی ہے ۔ اوراسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائد و اعمال میں جونقائص نظر آرہے ہیں  ان کا بڑاسبب یہی ہے ۔ لہذا قران مجید کی مرکزی تعلیم اور اس کے حقیقی مدعا کو واضح کرنے کےلیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان اصطلاحوں کی پوری پوری تشریح کی جائے” ( چار بنیادی اصطلاحیں ص13) اس سے پہلے” غلط فہمی کا اصل سبب”کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ ” عرب میں جب قران پیش کیاگیا اس وقت ہرشخص جانتاتھا کہ الہ کے کیامعنی ہیں ؟ اور رب کسے کہتے ہیں ؟ کیونکہ یہ دونوں لفظ ان کے بول چال میں پہلے سے مستعمل تھے ۔ انہیں معلوم تھا کہ ان الفاظ کااطلاق کس مفہوم پرہوتاہے ؟ اس لیے جب ان سے کہاگیا اللہ ہی اکیلا الہ اور رب ہے اورالوہیّت وربوبیت میں کسی کا قطعا کوئی حصہ نہیں  تووہ پوری بات کو پاگئے ۔ انہیں بلاکسی التباس و اشتباہ کے معلوم ہوگیا کہ دوسروں کےلیے کس چیز کی نفی کی جارہی ہے ؟ اور اللہ کےلیے کس چیز کوخاص کیاجارہاہے ؟ جنہوں نے مخالفت کی یہ جان کرکی کہ غیراللہ کی الوہیت وربوبیت کے انکار سے کہاں کہاں ضرب پڑتی ہے ۔ اورجوایمان لائے وہ یہ سمجھ کر ایمان لائے کہ اس عقیدہ کوقبول کرکے ہمیں کیاچھوڑنا اورکیاختیار کرناہوگا ؟ اسی طرح عبادت اوردین کے الفاظ بھی ان کی بولی میں پہلے سے رائج تھے ۔ان کومعلوم تھا کہ عبدکس کوکہتے ہیں، عبودیت کس حالت کانام ہے ۔ عبادت سے کون سا رویہ مرادہے ؟ اوردین کاکیامفہوم ہے ؟ اس لیے جب ان سے کہاگیا کہ سب کی عبادت چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کرو اورہر دین سے الگ ہوکر اللہ کے دین میں داخل ہوجاؤ ۔ توانہیں قران کی دعوت سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش نہیں آئی ۔وہ سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ تعلیم ہماری زندگی میں کس نوعیت کے تغیرکی طالب ہے ؟ لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصل معنی جونزولِ قران کے وقت سمجھے جاتے تھے بدلتے چلے گئے یہاں تک کہ ہرایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کرنہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لیے خاص ہوگیا ۔ اس کی ایک وجہ توخالص عربیت کے ذوق کی کمی تھی ۔ اوردوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام کی سوسائٹی میں جو لوگ پیداہوئے تھے  ان کے الہ   اوررب اوردین اورعبادت کے وہ معانی باقی نہ رہے تھے جونزولِ قران کے وقت غیرمسلم سوسائٹی میں رائج تھے ۔ انہی دووجوہ سے دورِاخیرکی کتبِ لغت وتفسیر میں اکثرقرانی الفاظ کی تشریح اصل معانی لغوی کے بجائے ان معانی سے کی جانے لگی جوبعد کے مسلمان سمجھتے تھے “( چار بنیادی اصطلاحیں ص 11) مولانا مودودی کی ان عبارات کے معائب اور نقائص کوہم نے ” چاربنیادی اصطلاحیں کی حقیقت “نامی کتاب میں تفصیل سے واضح کیاہے۔ احباب وہاں اسے دیکھ سکیں گے ۔ یہاں مقصود اس کے نقل کرنے سے یہ تھا کہ برخود عاشق مفکرین ہمیشہ اس طرح کے دعوے کرتے رہتے ہیں کہ جوچیز ہم پیش کررہئے ہیں اس کے بغیر قران کے اصل مطالب ومفاہیم تک پہنچنا ناممکن ہے ۔ لہذا لوگوں کو چاہئے کہ پہلی فرصت میں ہی ہماری لائی ہوئی چیز کو قبول کرلیں ۔ مولانا اصلاحی نے اوپر درج عبارت میں ایسا ہی دعوی کیاہے ۔ البتہ ایک فرق ہے وہ دوسری بات سے واضح ہوجائے گا ۔(2) دوسری بات یہ ہے کہ نظمِ قران کی بات میں اگرچہ مولانا اصلاحی نے بہت غلو کیا ہے   مگراسلام کے صدرِاول میں اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں لگتا ہے ۔ اگر یہ واقعتا قران فہمی کے لیے اتنی اہم اورایسا بنیادی اصول ہوتا   تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ صدرِاول کے مسلمان یعنی خیرالقرون والے اس سے محروم ہوجاتے   بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ پھر تو قران کے نصوص میں اس بات کا تذکرہ ضروری تھا ۔ مگر نہ تو قران مجید میں اس کا کوئی نام ونشان ہے ۔ اور نہ حدیث وسنت میں ۔ ایک حدیث سے یہ لوگ استدلال کرتے ہیں ۔ مگر اس سے استدلال کی حقیقت بھی ہم اگے اپنے احباب کے سامنے واضح کریں گے ان شاءاللہ ۔ یہ بات محض ہمارا دعوی نہیں ہے  بلکہ خودیہ لوگ اس بات کا دبے لفظوں میں اقرارکرتے ہیں ۔ خودمولانا اصلاحی لکھتے ہیں کہ ” نظمِ کلام کسی کلام کاایسا جزولاینفک ہوتا ہے کہ اس کے بغیر کسی عمدہ کلام کاکوئی تصورہی نہیں کیاجاسکتا ۔ لیکن یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ قران جس کو فصاحت وبلاغت کا معجزہ قرار دیاجاتاہے اورجو فی الواقع معجزہ ہے بھی ۔ ایک بہت بڑے گروہ کے نزدیک نظم سے بالکل خالی کتاب ہے ۔ ان کے نزدیک نہ ایک سورہ کادوسری سورہ سے کوئی ربط وتعلق ہے نہ ایک سورہ کی مختلف آیات ہی میں باہم کوئی مناسبت وموافقت ہے ۔ بس مختلف آیات ، مختلف سورتوں میں بغیر کسی مناسبت کے جمع کردی گئی ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسا فضول خیال ایک ایسی عظیم کتاب کے متعلق لوگوں کے اندر کس طرح جاگزین ہوگیاہے جس کے متعلق دوست دشمن دونوں ہی کواعتراف ہے کہ اس نے دنیا میں ہل چل پیداکردی ، اذہان وقلوب بدل ڈالے ، فکروعمل کی نئی بنیادیں استوارکیں ۔ اورانسانیت کوایک نیاجلوہ دیا”( تدبرِقران ج1ص 17) جناب اصلاحی کے پہلے چند فقروں سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے نزدیک ہرکلام میں نظم ضروری ہے کیونکہ وہ ہرعمدہ کلام کاایساجزوِلاینفک ہے کہ اس کے بغیراس کاتصور نہیں ہوسکتا ۔ یہ محض خرافہ ہے ۔ اس کواگر مان لیں تونثر کا بالکل صفایا ہوجائے گا اورجناب اصلاحی کوچاہئے کہ وہ ہر عمدہ کتاب میں چاہے عربی میں ہو یاکسی زبان میں نظم کوثابت کریں حالانکہ وہ اپنی لکھی ہوئی کتابوں میں بھی اس کو ثابت نہیں کرسکیں گے ۔ دوسری بات یہ لکھی ہے کہ ” ایک بڑے گروہ کے نزدیک قران نظم سے خالی ہے “یہ صرف طفل تسلیاں ہیں ورنہ اب تک امت مسلمہ کابڑا حصہ اس کاسرے سے  قائل نہیں ہے اورجوقائل ہیں وہ اصلاحی صاحب کی طرح اسے تفسیر کااصل الاصول نہیں مان رہے ہیں بلکہ اصول تفسیرمیں سے ایک اصول مان رہے ہیں ۔ اور اس کی بنیاد چھٹی ساتویں صدی میں پڑی ہے  جیساکہ خود یہ بات اصلاحی صاحب کی عبارت میں آرہی ہے ۔ تیسری بات یہ لکھی ہے کہ اس کتاب نے چونکہ ہل چل مچادی تھی ، فکرونظر بدلے تھے ، نیاجلوہ دیاتھا  اس لیے اس میں نظم ضرور بالضرور ہونی چاہئے ۔ اس بنیاد پر ممکن ہے اصلاحی صاحب ساری انقلابی کتابوں میں نظم مانتے ہونگے ۔ چاہے وہ کارل مارکس کی داس کیپٹل ہو یاخمینی کی الحکومةالاسلامیہ ۔ مگر مزہ تب ہوگا جب ان کے شاگرد یہ کارنامہ دعوے کے بجائےعملا سرانجام دینگے ۔ آگے جناب اصلاحی لکھتے ہیں ” اس خیال کی انہی کمزوریوں کی وجہ سے ہمارے ہاں علماء کاایک ایسا گروہ بھی رہاہے جوقران میں نظم کابڑی شدت سے قائل رہاہے اوراس گروہ کے بعض اکابر نے اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ علامہ سیوطی اتقان میں لکھتے ہیں کہ ” علامہ ابوجعفرابن زبیرشیخ ابوحیان نے نظمِ قران پرایک خاص کتاب لکھی ہے اوراس کانام ” البرہان فی مناسبة ترتیب سورالقران ” رکھا اور ہمارے ہم عصروں میں سے شیخ برہان الدین بقاعی کی تفسیر ” نظم الدرر فی تناسب الآی والسور ” بھی اسی اصول پرلکھی ہے ۔ علامہ سیوطی نے خود اپنی ایک کتاب کا بھی حوالہ دیاہے جس میں انہوں نے نظمِ قران کے علاوہ قران کے معجزہ ہونے کے پہلو بھی واضح کیے ہیں ۔ اسی سلسلے میں وہ نظمِ قران کی اہمیت کااعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں” ترتیب اورنظم کاعلم نہایت اعلی علم ہے لیکن اس کے مشکل ہونے کے سبب سے مفسرین نے اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے ۔ امام فخرالدین رازی کو اس چیز کاسب سے زیادہ اہتمام رہاہے ۔ ان کا قول یہ ہے کہ حکمتِ قران کا اصلی خزانہ اس کے نظم وترتیب میں ہی چھپاہواہے ۔ امام رازی اپنی تفسیر میں آیت  ولوجعلناہ قرانا اعجمیا لقالوا ( حم السجدہ) کی تفسیرکرتےہوئے کہتے ہیں ” لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے جواب میں اتری ہے جوازراہِ شرارت یہ کہتے تھے کہ اگر قران کسی عجمی زبان میں اتاراجاتا توبہتر ہوتا ۔ لیکن اس طرح کی باتیں کرنا میرے نزدیک کتابِ الہی پر سخت ظلم ہے  اس کے معنی تویہ ہوئے کہ قران کی آیات میں باہم دیگر کوئی ربط وتعلق ہی نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ قران حکیم پربہت بڑااعتراض کرناہے ۔ ایسی صورت میں قران کومعجز ماننا تودرکنار اس کومرتب کتاب کہنا بھی مشکل ہے ۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ شروع سے لے کر آخرتک ایک مربوط کلام ہے” ( تدبرقران ج1ص 18)  دیکھا کہ یہ سارے نام جو مفسرین کےلیے گئے ہیں سب چھٹی ساتویں صدی کے مفسرین ہیں ۔ اس میں قاضی ابن العربی مالکی کی ” سراج المریدین ” بھی شامل کرلیں ۔ اس سے پہلے اس چیز کاتصور بھی نہیں ملتاہے ۔ یہاں سے وہ فرق بھی ظاہر ہوا کہ مولانا مودودی ابتدا میں   چار بنیادی اصطلاحات  کا علم لوگوں کے لیے مانتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ بعد میں اس پرپردہ پڑگیا تھا ۔جبکہ اصلاحی کے اس تصور میں پہلے پردہ ہے  بعد میں اس کا ایجاد ہے ۔ ہم قران کے حوالے سے نئے علوم کے منکر نہیں ہیں   مگر اس بات کے منکر ہیں کہ کوئی شخص قران میں اس  نوپیدا علم کو دین اور قران کا اصل الاصول قراردے ۔ کیونکہ اس کامطلب یہ ہوگا کہ امت بحیثیتِ مجموعی چھ سات صدیاں قران کے اس اصل الاصول سے بے خبر رہی ہے ۔ ایسا دعوی بسلامتئ ہوش وحواس کو عاقل شخص نہیں کرسکتاہے ۔  مگر یہ لوگ پتہ نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں کہ ایسے بے بنیاد دعاوی کرتے رہتے ہیں ۔ باقی رہی سیوطی کی بات کہ مشکل ہونے کیوجہ سے علماء نے اس طرف توجہ نہیں کی ہے توایسی بات خیرالقرون اور سلفِ طیب کے متعلق سیوطی جیسے متساہل لوگ کرسکتے ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…