غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 16)

Published On January 27, 2024
قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟

جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹  قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں...

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی نے دو باتیں پیچھے کہی ہیں جس کاخلاصہ یہ ہے  ،، کہ ایک تو ،، قران کی تحدید وتخصیص قران کے علاوہ کسی چیز سے نہیں ہوسکتی۔ چاہے وہ قولِ پیغمبر علیہ السلام ہی کیوں نہ ہو ،، اور دوسری بات یہ کہی ہے کہ اس( قران ) کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر بالکل قطعی ہے ، یہ جوکہنا چاھتاہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتاہے ، اورکسی معاملے میں اپنا مدعی بیان کرنے سے قاصر نہیں رہتا ،، یہ دونوں باتیں قران کے میزان اور فرقان ہونے کا لازمی تقاضاہے ۔ ان کے بارے میں دورائیں نہیں ہوسکتیں ( میزان ص 25) جناب غامدی کی کتابوں میں احباب نے اکثر دیکھاہوگا کہ وہ جب اپنی رائے  پیش کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی بالعموم کہتے ہیں ،، اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے ،، اس میں دوسری رائے ممکن نہیں ہے ،، اس میں دورائیں ہوہی نہیں سکتیں ،، کوئی بندہ پوچھ لے بھائی کیوں دوسری رائے کیوں ممکن نہیں ہے ؟ یاکیوں دورائیوں کی گنجائش ادہر نہیں ہے ؟ اگر وہ جواب دیتے تو پھر یہی جواب ہوتا کہ میں نے استقراءِتام کیا ہے مشرق ومغرب کوٹٹولاہے  لہذا اس بات کے خلاف کوئی بات نہیں ہوسکتی ۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ اگر ہم یہ بات مان بھی لیں توخود حضرتِ غامدی چند دن بعد اس کے خلاف اور رائے پیش کرینگے۔ تب کیا کرینگے ؟ اور کیا ،، مطلب الشعر فی بطن الشاعر ،، ہی کہیں گے ؟ اچھا اس کے بعد جناب غامدی نے چند سوالات اپنی اس رائے پر مخالفین کی زبانی قائم کیے ہیں ، پھر ان کے بہت ناقص اور انتہائی فاسد جوابات دیئے ہیں ۔ ہم ایک ایک کرکے اس پرتفصیل سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں  ( 1) پہلا سوال جناب غامدی نے یہ قائم کیاہے کہ ،، قران میں بعض مقامات پر قراآت کے اختلافات ہیں ، یہ اختلافات لفظوں کے اداکرنے ہی میں نہیں  ہیں ، بعض جگہ ان کے معنی پربھی اثراندازہوتے ہیں ، اس صورت میں بظاہر اختلافات کے مواقع پر کوئی چیز فیصلہ کن نہیں رہتی ، سورتِ مائدہ کی آیت 6 میں ،، ارجلکم ،،  مثال کے طورپراگر نصب وجر دونوں کے ساتھ پڑھا جاسکتاہے ، توقران کی بنیادپر یہ بات پھر پوری قطعیت کے ساتھ کس طرح کہی جاسکتی ہے کہ وضو میں پاؤں لازما دھوئے جائیں گے ؟ ان پر مسح نہیں کیاجاسکتا ( میزان ص 26) جناب غامدی کا مطلب اس سوال کے قائم کرنے سے یہ ہے کہ قران کا مفہوم لازما ایک ہی ہونا چاہیے ، اس لیے اگر ہم ایسی دو قراءتوں کو مان لیں گے جن سے معنی پر بھی مختلف اثر پڑتا ہے تو پھر فیصلہ کن کوئی چیز نہیں رہتی کہ اس کے ذریعے ہم اس اختلاف کا فیصلہ کریں کہ پاؤں کو لازما دھونا چاھئے ۔حالانکہ یہ ایسا کوئی قوی اشکال یااعتراض نہیں ہے جس پر اتنی بڑی عمارت کو قائم کیا جائے ۔یعنی مختلف قراآت کے وجود کا انکار کیا جائے ۔وجہ اس بات کی یہ ہے کہ اہلِ تشیع بھی دونوں قراءتوں میں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں ، اور اہلِ سنت بھی کوشش تطبیق کی کرتے ہیں ۔ایک مثال ملاحظہ ہو کہ اہلِ سنت کی اکثریت اس قراءتِ جری کو وضو علی الوضو یا پھر بعض دیگر لوگ اسے حالتِ تخفف پرمحمول کرتے ہیں ۔ اورامام ابن جریر طبری قراءتِ جری کو دلک اور نصبی کو غسل پرمحمول کرتے ہیں ( نوٹ ان کے مذہب کوبعض بڑے بڑے مفسرین نے غلط نقل کیاہے ،حافظ اسماعیل بن کثیر نے اس کی الحمدللہ تصحیح کی ہے ) وہ کہتے ہیں کہ پاؤں میں غسل کے ساتھ دلک یعنی ملنا بھی ضروری ہے کیونکہ پاؤں گرد وغبار کے بہت قریب ہوتے ہیں  اور بعض دیگر لوگ ،، ارجلکم ،، مجرور کوجرجوار پربھی محمول کرتے ہیں  گویا یہ چار توجیہات اہلِ سنت کی جانب سے ہوگئی ہیں ، اوراہلِ تشیع کی جانب سے بھی مختلف توجیہات منقول ہیں ۔ سب سے درست توجیہ یہ ہے کہ حالتِ نصب میں ،،ارجلکم ،، محلِ رؤس پر عطف ہے جومنصوب ہے ۔یہ اس لیے درست ہے کہ اس کے لیے نحوی ولغوی شواھد بہت ملتے ہیں ۔ یہ دونوں قراآت متواتر ہیں ، اوراہلِ سنت والجماعت کے ہاں دومتواتر قراتیں دومختلف آیات کے حکم میں ہوتی ہیں لہذا اگراحباب ہماری باتوں پرغور کررہے ہیں تو ہم نے جناب غامدی اور اس کے اہلِ مکتب کو دو جوابات فراہم کیے ہیں ۔پہلا جواب یہ ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ اگر قرآات مختلف ہوں اورمعنی پربھی اثرانداز ہوتی ہوںتو پھر فیصلہ چیز کیا ہوگی کوئی چیز نہیں ہے ؟ ہم نے اس کا جواب اہلِ سنت اوراہلِ تشیع کے مختلف توجیہات کے زریعے فراہم کردیا ہے ، الحمدللہ ، دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ کا یہ اشکال ہی سرے سے غلط ہے ۔ یہ اشکال تب درست ہوتا  اگر آیت ایک ہی ہوتی  لیکن اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک کما قال الالوسی فی الروح دوقراتیں دوآیات کی طرح مختلف حکم رکھتی ہیں ۔ اگر ایک قراءت سے یہ معنی متعین نہ ہو کہ لازما پاؤ ں کو دھونا چاہیے  تو اس سے کیاپریشانی لاحق ہوجائے گی ؟ کوئی نہیں ۔کیونکہ دوسری قراءت سے وہ مفہوم متعین ہورہا ہے ۔ جناب غامدی اگے پھر ،، قراءت کے اختلافات ،، کے زیرِ عنوان اس مسئلے پرایک پرتکلف بحث کرتے ہیں جس کا اس بحث میں درج شدہ آیات سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا مگر جناب نے علمی زور سے اسے متعلق بناکر پیش دیا ہے ، ملاحظہ ہو ،، پہلے سوال کاجواب یہ ہے کہ قران صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبتہھے ، اورجسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑکر پوری دنیا میں امتِ مسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کررہی ہے ۔یہ تلاوت جس قران کے مطابق کی جاتی ہے اس کے سوا کوئی دوسری قراءت نہ قران ہے اورنہ اسے قران کی حیثیت سے پیش کیاجاسکتاہےاس وجہ سے یہ سوال ہمارے نزدیک سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ذیل میں ہم اپنے اس نقطہِ نظر کی تفصیل کیے دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ،، سنقرئک فلاتنسی الاماشاء اللہ انہ یعلم الجھر ومایخفی ( الاعلی 7،6) عنقریب ہم تمھیں پڑھادینگے ، تو تم نہیں بھولوگے مگر وہی جواللہ چاہے گا ، وہ بے شک جانتا ہے ، اس کو بھی جواس وقت ( تمھارے ) سامنے ہے ، اور اسے بھی جو( تم سے ) چھپاہوا ہے ،، (اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ) لاتحرّک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ ، فاذا قراناہ فاتبع قرانہ ثم ان علینا بیانہ ( القیامہ 16، 19) اس (قران )کو جلد پالینے کےلیے ( اے پیغمبر) اپنی زبان کو اس پرجلدی نہ چلاؤ ، اس کو جمع کرنااورسنانا، یہ سب ہماری ذمہ داری ہے اس لیے جب ہم اس کو پڑھ چکے تو ( ہماری ) اس قراءت کی پیروی کرو ، پھر ہمارے ہی ذمہ ہے کہ ( تمہارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو ) اس کی وضاحت کردیں ،،

ان آیتوں میں قران کے نزول اور اس کی ترتیب وتدوین سے متعلق اللہ تعالی کی جواسکیم بیان ہوئی ہے  وہ یہ ہے کہ (1) اولا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایا گیا کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا کرکے یہ قران جس طرح آپ کو دیاجا رہاہے ، اس کے دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے لیکن اس سے آپ کو اس کی حفاظت اورجمع وترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہوناچاہیئے ۔اس کی جو قراءت اس کے زمانہِ نزول میں اس وقت کی جارہی ہے اس کے بعد اس کی ایک دوسری قراءت ہوگی ، اس موقع پر اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت اس میں سے کوئی چیز اگر ختم کرناچاہیں گے  تواسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اس طرح پڑھادیں گے کہ اس میں کسی سہو ونسیان کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا ۔اوراپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کیاجائے گا ( میزان ص 28)  جاوید غامدی اگر بالفرض والتقدیر پیغمبر بھی ہوتے تب بھی انہیں اتنی جراءت ( جو دراصل جھالت ھے) کامظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا ،، کہ مصحف میں ثبت قران کے علاوہ نہ کوئی قراءت قران ہے اور نہ اسے قران کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیئے ،،  سوال یہ ہے کہ دورِصحابہ سے لیکر آج تک جتنی بھی بڑی تفاسیر دنیامیں لکھی ہوئی ملتی ہیں  سب میں دیگر قراآت بھی ازاول تاآخر موجود ہیں ۔ ان کے مطابق آیتوں کی تفسیر کی جاتی ہیں ۔ اب اگر یہ قران نہیں ہے ، تو پھر کیا ہے ؟ جناب غامدی ایک جگہ اگے لکھتے ہیں کہ ،، لہذا یہ بات بالکل قطعی ہے کہ قران کی ایک قراءت ہے جوہمارے مصاحف میں ثبت ہے ، اس کے علاوہ جوقراتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں ، یامدرسوں میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کررکھی ہیں ، وہ سب انہی فتنوں کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی گوشہ افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا ( میزان ص 32) ہم چند باتیں پیش کرتے ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جب جاوید غامدی کو اس بات کا اقرار ہے کہ یہ قراتیں قران مجید نہیں ہیں  تو پھر یہ بات بھی تسلیم کرلیں کہ موجودہ قران مجید محرف کتاب ہے محفوظ ہرگز نہیں ہے  کیونکہ اس میں مختلف قراتیں داخل کی گئی ہیں  جوآپ کے بقول معنی پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں ۔جب کوئی بندہ دس یا پندرہ مختلف قراتیں مختلف الفاظ کے ساتھ قران میں لکھی اور پڑھی جاتی ہوئی مانتا ہو ، اوریہ کہتا ہو کہ یہ نبی علیہ السلام سے قطعا ثابت نہیں ہیں ، بلکہ عجمی فتنوں کی پیداوار ہیں  توپھر بھی اگر اس کے نزدیک قران مجید محرف نہیں ہے بلکہ محفوظ ہے  تو اسے سب سے پہلے اپناعلاج کرانا چاہیے باقی باتیں کل ان شاءاللہ تعالی ہونگی 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…