مولانا واصل واسطی اس مبحث میں ہم ، روزہ ، وغیرہ پر بات کریں گے ۔ جناب غامدی روزے کے متعلق لکھتے ہیں ،، وہ روزہ اسی طرح رکھتے تھے جس طرح اب ہم رکھتے ہیں ( میزان ص 45) یہ بات بھی جناب غامدی نے حافظ محب کی کتاب سے لی ہے ۔مگر اس بات کے لیے حوالہ دینے میں خوب ڈندی ماری ہے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 31)
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 54)
مولانا واصل واسطی جناب غامدی اگلی چیز یعنی سنتِ ابراہیمی نمازِجنازہ کو قرار دیتے ہیں ۔لکھاہے کہ ،، نمازِجنازہ بھی وہ پڑھتے تھے ( میزان ص 45) اس بات کے لیے جناب نے جواد علی کی ،، المفصل فی تاریخ العرب ،، کاحوالہ دیا ہے ۔ یہ کتاب ہمارے پاس نہیں ہے ،نہ ہم نے دیکھی ہے اس...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 53)
مولانا واصل واسطی سنتِ ابراہیمی کے متعلق تیسرے اصول میں جناب غامدی نے یہ بات لکھی ہے ، کہ سنت وہ ہے جو قران کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے شروع ہوجائے ۔ اور وہ عملی چیز ہو ، اس کا ذکر اگر قران میں آتا بھی ہے تو صرف تاکید اورتقویت کےلیے ۔، انہوں نے لکھا ہے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 52)
مولانا واصل واسطی ہم نے گزشتہ تحریر میں جو چند عبارتیں ابن ہشام کے حوالے سے پیش کی تھیں ان میں بعض پرابوالقاسم سہیلی نے جرح کی ہے ۔ ان میں ایک یہ ہے کہ جبریل نے وضو اورنماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی ۔ ممکن ہے کوئی شخص اس سے استفادہ کرلے ۔ تو ہم عرض کرتے ہیں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 51)
مولانا واصل واسطی اب ہم جناب غامدی کے پیش کردہ سنن پر ایک ایک کرکے کچھ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں نماز کو دیکھتے ہیں جس کے بارے میں حافظ محب اور جناب غامدی دونوں کا فرمان ہے کہ ،، اس سے عرب پوری طرح واقف تھے ، بلکہ وہ نماز ادا بھی کرتے تھے جیساکہ سیدنا...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 50)
مولانا واصل واسطی اگے جناب اس ،، اہتمامِ وقوع فعل ، سے چند اصول برآمد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، چنانچہ کوئی بچہ اگر اپنے باپ یاکوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑالیتی ہے یاکوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدروقیمت کی کوئی چیز چرالے جاتاہے یاکسی کے باغ سے کچھ پھل...
مولانا واصل واسطی
تیسری گذارش اس آخری اعتراض کے سلسلے میں یہ ہے کہ ،، لیث بن سعد ،، کے جس خط کا حوالہ جناب غامدی نے دیا ہے اس سے پہلے دوفقروں میں اس کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ،، اس کے ساتھ اگر ان کے وہ خصائص بھی پیشِ نظر رہیں جوامام لیث بن سعد نے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں توان کی کوئی روایت بھی اس طرح کے اہم معاملات میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی ( میزان ص 31) جناب غامدی کی اس بات سے معلوم ہوا کہ ان کا بھی ابنِ شہاب زہری کے متعلق وہی خیال اور مذہب ہے جو ان کے ،،استاد امام ،، امیں احسن کا ہے۔انہوں نے ،، امامِ ابن شھاب زہری ،، کو ،، وضع وتخلیق ،، کا امام کہنے سے مطلب یہی تھا کہ وہ دین کے معاملات میں قطعا بے اعتبار آدمی اور راوی ہیں ۔یہی بات جناب غامدی نے بھی کی ہے ۔ الفاظ کے سواان دونوں کے موقف میں کیا فرق ہوا ہے ؟ کوئی نہیں ۔ امام لیث بن سعد کے خط کا جناب نے تذکرہ کیا ہے ، اس کا سیدھا سادہ مطلب اگرکچھ ہوسکتا ہے تو وہ یہی ہوسکتاہے کہ ان کے مزاج میں شدت سے تلوّن اور رائے کو بدل دینے کا عنصر شامل تھا ۔ مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا جناب غامدی برامنائیں کیونکہ جناب غامدی خود ان سے ہزار درجے بڑھ کر متلوّن مزاج آدمی ہیں ۔ اگر کسی شخص کی ،، علمی حیثیت ،، کو ساقط کرنے کےلیے اس میں تلوّن مزاجی کا ہونا کافی ہوتا ہے تو پھر جناب غامدی سب سے پہلے ضربِ زیرو ہو جائیں گے ۔جن لوگوں نے ان کے رسالہ ،، اشراق ،، کو مسلسل پڑھا ہے اور جانتے ہیں کہ صرف سنت کے متعلق ان جناب کی رائے کیا کیا رہی ہےوہ ھہاری اس بات کی بلا تامل تصدیق کرلیں گے ۔ بلکہ ان کے ،، استادامام ،، کی بھی یہی خاصیت ہے ۔ ان کے آخر زمانے کی تحریرات سے ان کے سابق زمانے کی تحریروں کے جواب میں پوری کتاب تیار کی جاسکتی ہے ۔ توکیا پھر یہ لوگ اسی دلیل کی بنیاد پر اپنے آپ اور اپنے ،، استاد امام ،، کو نامعتبر قرار دینگے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو بسم اللہ ۔ اور اگرجواب نہیں میں ہے تو پھر ابن شہاب زہری نے کیا اور کونسا جرم کیا ہے ؟یاپھر
اذاقلت مااذنبت قالت مجیبة
حیاتک ذنب لایقاس بہ ذنب
والی بات ہے ۔پھر یہی ،، خامی اورکمزوری ،، بعض دیگر آئمہِ کرام میں بھی رہی ہے ۔ مگر ان کے چاہنے والے ان کی اس ،، خامی ،، کو خوبی ہی شمار کرتے ہیں ۔کہتے ہیں یہ ان کے ،، ورع اوراحتیاط ،، کی دلیل وبرہان ہے ۔آپ لوگ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ یعقوب فسوی اور خطیب دونوں حفص بن غیاث سے امام ابوحنیفہ کو ترک کرنے کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ ،، کنت اجلس الی ابی حنیفة فاسمعہ یسال عن مسالة فی الیوم الواحد فیفتی فیھا بخمسة اقاویل فلما رایت ذلک ترکتہ واقبلت علی الحدیث ( فسوی ج 2789 اورخطیب ج 13ص 402) اسی طرح کی بات ان سے دیگر کتابوں میں بھی منقول ہے ۔ امام ابوعوانہ نے کہا ہے کہ ،، اختلفت الی ابی حنیفة حتی مھرت فی کلامہ ، ثم خرجت حاجا فلما قدمت اتیت مجلسہ فجعل اصحابہ یسالونی مسائل کنت عرفتھا وخالفونی فیھا ، فقلت سمعت من ابی حنیفة علی ماقلت ، فلما خرج سالتہ عنھا فاذاھو قد رجع عنھا فقال رایت ھذا احسن منہ قلت ،، کل دین یتحول عنہ فلاحاجة فیہ فنفضت ثیابی ثم لم اعد الیہ ( خطیب ایضا) اوپر درج ایک روایت روزانہ کے جوابات کے متعلق پیش کی ہے ۔ ایک کچھ عرصہ گذرنے کی پیش کی ہے ، یہ روایات بالکل ایسی ہیں جیسے ہمارے ہاں چند نوجوان کسی معترض کے جواب نہ پا کر ،، کہتے ہیں ،، استادگرامی ،، کی یہ رائے بدل گئی ہے ،، اب کیا کوئی یہ کہہ سکے گا کہ امام ابوحنیفہ ایسے اہم معاملاتِ دینیہ میں بالکل قابل اعتبار نہیں ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو ذرا آواز بلند کرکے کہہ دیں کہ ان کے چاہنے والے پاک وہند سب جگہ سن لیں ۔ اور اگر اس حرکت یا خامی سے امام ابوحنیفہ ناقابلِ اعتبار نہیں ٹھہرتےجیسا کہ حق بھی یہی ہے کہ ایسی باتوں سے معتبر علمی اشخاص کو ناقابلِ اعتبار نہیں ٹھہرانا چاہئےتو پھر بتائیں کہ امام ابن شہاب زہری نے آخر کیا جرم کیا ہے ؟ کہ ان کے متعلق جناب غامدی اوران کے ،، استاد امام ،، نے ایسی سخت سزا سنائی ہے ؟ ہم نے اوپر لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ کے محبین و متبعین ان کے اس عمل کو کمالِ ورع اور احتیاط پر محمول کرتے ہیں ، موفق اورکردری دونوں لکھتے ہیں کہ ،، عن حفص بن عبدالرحمن قال قال لی خارجة کیف ترکت اباحنیفہ ؟ قال فقلت یذکراصحابہ انہ یقول الیوم قولا ثم یرجع عنہ غدا قال وصفوہ بالورع من قال ثم رجع دل علی انہ متورع ( مناقب ابی حنیفہ ج1 ص 200) اسی طرح کے دیگر اقوال بھی ہیں ، عن عبداللہ بن عون قال کان ابو حنیفة صحب لیل وعبادة فقیل لہ انہ یقول القول ثم یرجع عنہ فی غد فقال ابن عون ھذا دلیل علی ورعہ لانہ یرجع من خطا الی صواب ولولا ذالک لنصر خطاہ ودافع عنہ ( اخبار ابی حنیفہ ص 72) ہمارے نزدیک اس تلوّن اور رجعی مزاج کے اسباب بہت سارے ہو سکتے ہیں ۔یہ نہ مطلقا خامی اور عیب ہے جیساکہ بعض لوگ باور کراتے ہیں۔ ہم نے انہی معترضین کے بقول اوپر اس کو ،، خامی وکمزوری ،، سے تعبیر کیا ہے ۔اورنہ مطلقا خوبی ہے جیساکہ ان اوپر درج شدہ اقوال سے ظاہر ہوتا ہے ۔ اگر جناب غامدی کو ورع کا یہ قول سن کر اپنے اوراپنے ،، استاد امام ،،کے بارے میں خوشی ہوئی ہے، کہ وہ اور ان کے ،، استاد امام ،، بہت ہی متورع لوگ ہیں تو پھر اس خوشی میں ہمیں بھی شامل کرلیں ۔وہ اس طرح کے امام ابن شہاب زہری کو بھی متورع قراردیں ۔ بارک اللہ فیکم ۔جناب غامدی اگے اسی بحث کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ ،، لہذا یہ بالکل قطعی ہے کہ قران کی ایک ہی قراءت ہے جو ہمارے مصاحف میں ثبت ہے ۔ اس کے علاوہ جو قراءتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں یا مدرسوں میں پڑہی اور پڑہائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کررکھی ہیں وہ سب انہی فتنوں کے کے باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی شعبہ افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا ( میزان ص 32)
جناب غامدی بھی کمال کے آدمی ہیں کہ ان چند واہی اعتراضات کی بنیاد پر اتنا بڑا دعوی کردیا ہے ۔اگر یہ فاسد اعتراضات بغیر کسی جواب کے بھی رہ جاتے تو کسی معقول آدمی کے لائق نہیں تھا کہ اس بنیاد پر اتنا بڑا دعوی کرلیتا ۔ کجا کہ ان اعتراضات کے بخئیے بھی دین کے دفاع کرنے والوں نے ہرطرف سے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں ؟ یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے ہمارے ہاں چند جوانوں کے دماغ مغرب کے الحادی دوئیں سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔پھرجا کر گاوں کے بےعلم مولویوں سے خدا کے متعلق چند سوالات کرلیتے ہیں ۔ جب وہ گاوں والے مولوی حضرات بے چارے لاجواب ہوجاتے ہیں تو یہ اپنا ھجّیرااور عقیرا گاوں اور علاقے میں بلند کرلیتے ہیں کہ کوئی خدانہیں ہے ۔ اب اس بچارے کو یہ پتہ نہیں کہ علمی مسائل اس طرح نہیں جیتے جاتے بلکہ نفی جومتضمنِ اثبات ہو اس کے لیے بھی دلائل چاہئے جیسا کہ قران کی آیت ،، قل ھاتوابرھانکم ،، سے مہھوم ومعلوم ہوتاہے ،، ۔آپ کے اشکالات کے جواب سے کسی کے عاجزی کا یہ مطلب کب ہوا کہ آپ کا مقدمہ ثابت ہوگیا ہے ؟ اگر مسائل اس طرح ثابت ہوتے ، تو ،، تھافة الفلاسفہ ،، آج تک شاملِ نصاب ہوتا ۔ان اعتراضات کی صحت کے بعد بھی آپ کا اگر کوئی ،، علمی موقف ،، بن سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ ،، مجھے متواتر قراءآت کے بنسبت ان متعدد قراءآت کے عدمِ جواز کا قول اور مسئلہ قوی نظر آتا ہے ،،۔ یہ موقف آپ کا آخر کس علمی دلیل کی بنیاد پر اور کیسے وجود میں آیا کہ یہ ساری قراءتیں ان فتنوں کے پیداکردہ ہیں جن سے ہمارا کوئی شعبہِ علم افسوس کہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا،، ؟ اس لیے برا نہ مانیئے آپ کو ہماری طرح علوم پڑھنے کی ابھی سخت ضرورت ہے ۔ بعد میں پھر ،، امام ،، بننے کی کوشش کرلیں گے ، یہ تو ایک جملہِ معترضہ ہوا ۔ اب اصل عبارت کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ جب (1) ان قراءآت کا چودہ سوسال سے تفاسیر میں ذکربھی ہورہاہے اورتفسیرہورہی ہے (2) مدارس میں ابتدا ءاسلام سے لیکر آج تک انہیں پڑھا اورپڑھایا بھی جاتا ہے (3) ان کے متعلق ہزاروں کتابیں بھی لکھی ہوئی موجود ہیں (4) پوری دنیا میں مختلف محفلوں میں ان کے سنانے کا رواج بھی موجود ہے (5) اوران مختلف قراءآت سے امت کے فقہاء مختلف مسائل میں استنباط بھی کرتے رہے ہیں (6) اور بعض علاقوں کے مسلمان لوگ ان میں رائج انہی قراءآت کے مطابق صدیوں سے مستقلا قران پڑھتے اور پڑھاتے بھی ہیں ( 7) انہی قراءتوں کے اثبات کے لیے روایات کا وافر ذخیرہ بھی موجود ہے ، ان سب کے بعد یا توآپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قران میں یقینا تحریف ہوئی ہے ، وہ محفوظ کتاب ہرگز نہیں ہے جیساکہ مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں ۔ اوریاپھر یہ بات ماننی پڑے گی کہ قراءآتِ متواترہ کا ثبوت موجود ہے ۔ان دونوں کے درمیان کوئی راستہ کسی معقول آدمی کےلیے نہیں ہے ،، الا من سفہ نفسہ ،، اگر ہوش وحواس سلامت ہوں تو پھر ان دونوں میں کسی رائے کو درست تسلیم کرنا لازم ہے ۔باقی رہی ،، فتنوں کے اثرات والی بات ،، جو آپ سے پہلے آپ کے مذہب کے پیشرو ،، امام پرویز ،، علیہ ماعلیہ نے بھی کہی ہے تو اس کے اثرات اتنے دیرپا اور عمومی کبھی نہیں ہوتے ۔اور اگر ہوں بالفرض تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ لوگ ان فتنوں کے زیرِاثر نہیں ہیں ۔جب فتنے اتنے قوی دلائل تراش سکتے ہیں ، اتنے کثیر تعداد میں ذہین اورنبیہ اہلِ علم کو گمراہ کر سکتے ہیں ، اتنے دیرپا اثرات چھوڑ سکتے ہیں ، تب تو سب مسلمانوں کو آپ لوگوں سے بچنا چاہیے کہ نہ آپ اتنے قوی دلائل اپنے موقف کےلیے لاسکے ہیں نہ اتنے کبار علماء کرام ہیں جیسے کہ پہلے والے علماء تھے ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط دوم
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر قرآن وسنت کا باہمی تعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ...
کیا قرآن قطعی الدلالۃ ہے؟ : قسط اول
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ہر دور میں انسان اپنے’ ما فی الضمیر ‘ کو دوسروں تک...
کیا غامدی فکر و منہج ائمہ سلف کے فکر و منہج کے مطابق ہے؟ قسط ہشتم
مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ایک اور مغالطہ انگیزی اور علماپر طعنہ زنی ...