غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 33)

Published On February 29, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 11)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 11)

مولانا واصل واسطی احبابِ کرام جناب غامدی کی توجیہِ حدیث سے پہلے اس حدیث کا ترجمہ ان کے قلم سے پڑھ لیں ، جوکل کی پوسٹ میں گذرگئی ہے ۔وہ لکھتے ہیں :عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ رفاعہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس کے ساتھ عبدالرحمن بن الزبیر قرظی نے نکاح کرلیا ، سیدہ عائشہ...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ششم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ششم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب کی دینی فکر اور اس کے پورے تنظیمی ڈھانچے کو سمجھنا خاصہ دشوار کام ہے کیونکہ ان کا بیان ایک منظم فکر کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور نہ دین اور دینی شعور کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ ممکن ہے، میرا یہ تبصرہ بعض احباب کو سخت گیری کا مظہر لگے۔ لیکن...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ششم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)

ڈاکٹر خضر یسین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، خاتم الوحی ہے اور آنجناب علیہ السلام کی ذات، خاتم النبیین ہیں۔ قرآن مجید کے بعد نہ ایسی وحی ممکن ہے جو انسانیت پر واجب الایمان و العمل ہو اور نہ آنجناب علیہ السلام کے بعد کوئی نبی و رسول ممکن ہے۔ آنجناب علیہ...

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور مسئلہ بقرۃ پر ان کی وضاحت پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل کچھ عرصہ قبل ایک تحریر میں متعدد مثالوں کے ذریعے یہ واضح کیا گیا تھا کہ اصولیین جسے نسخ، تقیید و تخصیص (اصطلاحاً بیان تبدیل و تغییر) کہتے ہیں، قرآن کے محاورے میں وہ سب “بیان” ہی کہلاتا ہے اور اس حوالے سے محترم مولانا اصلاحی صاحب اور محترم جاوید احمد...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ششم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط چہارم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے اپنی دینی فکر میں بہت ساری باتیں، خود سے وضع کی ہیں۔ ان کے تصورات درحقیقت مقدمات ہیں، جن سے اپنے من پسند نتائج تک وہ رسائی چاہتے ہیں۔ "قیامِ شھادت" کا تصور درحقیقت ایک اور تصور کی بنیاد ہے۔ اسی طرح نبوت و رسالت کے فرق کا مقدمہ بھی ایک اور...

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ششم)

غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط سوم)

ڈاکٹر خضر یسین غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں "نبوت" اور "رسالت" سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل "پیغمبر" ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر...

مولانا واصل واسطی

دوسری بات اس حوالے سے یہ ہے کہ جناب غامدی نے لکھاہے کہ ،، لہذا یہ بات عام طور پر مانی جاتی ہے کہ ان کی کوئی تعداد متعین نہیں کی جاسکتی  بلکہ ہر وہ قراءتِ قران جس کی سند صحیح ہو ، جومصاحفِ عثمانی سے احتمالا ہی سہی موافقت رکھتی ہو ، اور کسی نہ کسی پہلو سے عربیت کے مطابق قرار دی جاسکے ان میں سے بعض کو لوگ متواتر کہتے ہیں ،، ( میزان ص 32) جناب غامدی نے اس بات کا کوئی حوالہ نہیں دیا ۔  بلکہ اس کو ،، عام طور پرمانی جاتی ہے ،، سے تعبیر کیاہے ۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ جناب نے قراءة کی کتابوں کوبراہِ راست نہیں دیکھا  بلکہ محدثین کی اصطلاح میں ،، تدلیس ،، سے کام لیتے ہیں ۔ زرکشی کی ،، البرھان ،، یا پھر سیوطی کی ،، الاتقان ،، میں کوئی بات دیکھتے ہیں ، اور اس قول کو ،، عام ،، بنانے کی بھی بھرپورکوشش کرتے ہیں ، اب جناب کے اس ،، اوپر درج قول ،، کو ہی ملاحظہ فرمالیں کہ جناب نے سیوطی کی ،، الاتقان ،، سے ابن الجزری کا ہی قول نقل کیا ہے  جس میں یہ تین شرائط موجود ہیں ۔ مگر پھر ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ بعض لوگ اس کو ،، متواتر ،، کہتے ہیں ،، انا للہ وانا الیہ راجعون ،۔ پہلے سیوطی کی نقل کردہ عبارت ملاحظہ کرتے ہیں اور پھر اس کے اپنے قول کو دیکھتے ہیں تاکہ ان مدعیانِ علم ودانش کی تحریف کا خوب اندازہ ہو جائے۔ سیوطی نے پہلے قاضی جلال الدین بلقینی کے قول کو نقل کیاہے کہ قاریوں نے قراءت کو تین قسموں میں تقسیم کیاہے  (1) ایک قسم متواتر ہے جیسے قراءآت سبعہ مشہورہ (2) دوسری قسم ہے آحاد جیسے باقی ثلاثہ قراءتیں جس سے باقی دس بن جاتی ہیں (3) تیسری قسم ہے شاذ جیسے اعمش وغیرہ کی قراءتیں ۔ مگر جناب سیوطی اس تحقیق سے خوش نہیں ہیں اس لیے تو ،، و فیہ نظر ،، اس کے آخر میں لکھا ہے ۔اس کے بعد لکھا ہے کہ واحسن من تکلم فی ھذالنوع امام القراءة فی زمانہ شیخ شیوخنا ابوالخیربن الجزری قال فی اول کتابہ ،، النشر ،، کل قراءة وافقت العربیة ولو بوجہ ووافق احدالمصاحف العثمانیة ولواحتمالا وصح سندھا فھی القراءة الصحیحةالتی لایجوز ردھا ولایحل انکارھا بل ھی من الاحرف السبعة التی نزل بھا القران ووجب علی الناس قبولھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ومتی اختل رکن من ھذہ الارکان الثلاثة اطلق علیھا ضعیفةاوباطلة اوشاذة سواء کانت عن السبعة ام عمن ھواکبر منھم ھذاھوالصحیح عندآیمةالتحقیق من السلف والخلف ( الاتقان ج1 ص 75) اب اس عبارت میں وہ تین شرائط تو موجود ہیں مگر لفظِ ،، تواتر ،، موجود نہیں ہے ۔ بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ صرف اخبار آحاد سے قران کو ثابت کرنا ہے مگر ایسا بالکل نہیں ہے ۔محض اخبارِآحاد کا اگر مسئلہ ہوتا  تو پھر اس میں مصاحفِ عثمانی سے مطابقت رکھنے کو کیوں شرط کیا گیا ہے ؟ وہ اس لیے کہ مصاحفِ عثمانی کے قران ہونے پرصحابہ کااجماع ہوچکاہے ۔یہ بات خود جناب غامدی بھی تسلیم کرتے ہیں ۔اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ہاں مروج مصحف سیدنا عثمان کا ہی ہے ۔اب غامدی صاحب کے الفاظ ملاحظہ ہوں ،، پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ قران صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے ( میزان ص 27) پس جب قران وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے  تو اس کے مطابق جو قراءت ثقات کے ذریعے مروی ہو اور عربیت کے بھی مطابق ہو تو اس کے قران ہونے میں کس کو شک ہوسکتا ہے ؟ مگر پھر بھی یہ امکان تھا کہ کوئی شخص غلط قراءة ،، غتربود ،، کی طرح مصحف سے جہل کی بناپراخذ نہ کرلے ۔ اس لیے تیسری شرط بھی لگائی ہے یعنی عربیت کی موافق ہو ۔ پھر اس کے بعد امام جزری نے ابوشامہ سے نقل کیاہے کہ ،، لاینبغی ان یغتر بکل قراءة تعزی الی احدالسبعة ویطلق علیھا لفظ الصحة اوانھاانزلت ھکذا الا اذادخلت فی ذالک الضابط وحینئذ لاینفردبنقلھا مصنف عن غیرہ ولایختص ذالک بنقلھا عنھم بل ان نقلت عن غیرھم من القراء فذالک لایخرجھاعن الصحة فان الاعتماد علی استجماع تلک الاوصاف لاعلی من تنسب الیہ فان القراءةالمنسوبة الی کل قارئ من السبعة وغیرھم منقسمةالی المجمع علیہ والشاذ ( ایضا) اس عبارت میں ایک بات تو یہ کی گئی ہے کہ ہرمنسوب قراءت الی السبعہ اورمطلق بالصحہ سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ سبعہ میں بھی مجمع علیہ اور شاذ قراءتیں موجود ہیں ۔یہ بات بھی اوپر درج ہے کہ اصل اعتبار شروط کا ہے سبعہ وعشرہ وغیرہ کانہیں ہے ۔ آگے ابن الجزری لکھتے ہیں کہ فقولنا فی الضابط ولو بوجہ نرید وجھا من وجوہ النحو سواء کان افصح ام فصیحا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذا کان القراءة مماشاع وذاع وتلقاہ الایمة بالاسناد الصحیح اذ ھوالاصل الاعظم والرکن الاقوم ( ایضا) آپ نے دیکھا آحاد کی بات نہیں کررہے ، شائع وذائع ہونے کے ساتھ ساتھ اسے آئمہ کی تلقی بالقبول بھی حاصل ہو ۔ اس کے بعدابوشامہ کا ایک اور قول نقل کیا ہے کہ سبعہ سارے متواتر نہیں ہیں ۔ پھر مکی سے قران کے متعلق روایاتِ قراءت کی تین قسمیں بیان کی ہیں ۔ آخر میں سیوطی نے سب کاخلاصہ اپنےالفاظ میں یوں نقل کیا ہے کہ ،، قلت اتقن الامام ابن الجزری ھذاالفصل جدا وقد تحرر لی منہ ان القراءآت انواع ( الاول ) المتواتر ھومانقلہ جمع لایمکن تواطؤھم علی الکذب عن مثلھم الی منتھاہ وغالب القراءآت کذالک ( الثانی) المشھور وھوماصح سندہ ولم یبلغ درجةالمتواتر ووافق العربیة والرسم واشتھرعندالقراء فلم یعدوہ من الغلط ولامن الشذوذ ویقراء بہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( الثالث) الآحاد وھوماصح سندہ وخالف الرسم اوالعربیة اولم یشتھرالاشتھارالمذکور ولایقرابہ ( الاتقان ج1ص 77)  ہم نے ابن الجزری کی ابتدائی مذکور بات کو ،، متواتر ،، علی زعم الخصم فرض کرلیا تھا ۔ لیکن ابن الجزری کی اس مذکور طویل عبارت میں کہیں بھی ،، متواتر ،، کا لفظ موجود نہیں ہے ۔وہ ،، صحت ،، کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس میں قراءتِ مشہور بھی آسکتی ہے کمامر فی عبارةالسیوطی ۔سوائے اس مقام کے جہاں امام جزری ہر لفظ میں ،، تواتر ،، کو شرط کرنے والوں پر رد کرنا چاہتے ہیں ۔

اس بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ قراءآت میں سے بعض متواتر ہیں ، اوربعض مشھور ہیں ، اور بعض دیگر آحاد ہیں ۔ یہ بات غلط ہے کہ سبعہ قراءآت تمام کے تمام متواتر ہیں یا ان تین شرائط پر پورے اترنے والے تمام قرائتیں متواتر ہیں جیسا کہ جناب غامدی نے تاثر دیا اگر اس کو بعض افراد نے نقل کیا ہو تو پھر متواتر نہیں ہوگا۔ اگے جناب غامدی اس بحث میں لکھتے ہیں ،، ان میں بعض کو لوگ متواتر کہتے ہیں درآن حالیکہ ان کی جو سندیں کتابوں میں موجود ہیں انہیں دیکھنے کے بعد اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ یہ محض آحاد ہیں  جن میں اکثر کے راوی آئمہِ رجال کے نزدیک مجروح ہیں ( میزان ص 32) اس مورد میں ہم تین باتیں عرض کرتے ہیں (1) پہلی بات تو یہ ہے رسم مصاحفِ عثمانی ان قراءآت کے لیے مؤید موجودہیں ۔ صرف اخبار آحاد نہیں ہیں ۔ جناب خود بے سروپا روایات بھی قبول کرتے ہیں جب انہیں قران کے مطابق لگ جاتے ہیں۔ اس کتاب میزان میں اس بات کی بہت مثالیں موجود ہیں ( 2) دوسری بات یہ ہے کہ آپ  نے ان روایات کا کما حقہ جائز نہیں لیا ہے ۔ مثلا آپ نے کن کتابوں میں ان اسناد کا جائزہ لیا ہے کہ وہ آحاد ہیں ؟ دیکھئے ایک لفظ مصحف میں ہے ،، یخدعون ،، آپ اس کو کیاپڑہیں گے ؟ وہ مفاعلہ بھی بن سکتا ہے  اور مجرد کاصیغہ بھی بن سکتاہے۔ اس لیے کہ سیدنا عثمان کے دور میں مصاحف میں ایسے حروف پر ،،الف ،، نہیں لگائے جاتے تھے کما قال الدانی فی المقنع قال الالف غیر مکتوبة یعنی فی المصاحفِ فی البقرہ ،، ومایخدعون ،، واذوعدنا ،، ووعدنکم ،،( المقنع ج1ص 357) پھر دوسری جلد میں ،، یا ،، کے حذف ، پھرحذفِ ،، و ،، کےمتعلق  اورحذفِ ،،نقاط ،، کے متعلق وغیرہ میں مصاحفِ عثمانیہ کا تذکرہ کیا ہے  ۔احباب تفصیل اس میں خود دیکھ سکتے ہیں ۔ جناب زاہد الکوثری لکھتے ہیں کہ فالقراءآت الموجودة فی العرضة الاخیرة ھی ابعاض القران فماامکن جمعہ منھابالخط جمعوہ بالخط فی المصاحف المکتوبة حیث لم یکن فی خط الصحابة شکل ولانقط بل کانوا یستغنون عن کتابة الالفات المتوسطة فی الکلمات ( المقالات ص 24) اور تواتر قراءآت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ،، ان شیخ الصناعة الشمس الجزری یسرد اسماء رواة العشر طبقة بعد طبقة فی کتابہ ،، منجد المقرئین ،، بحیث یجلو لکل ناظر امرتواتر القراءآت العشر فی کل طبقات جلاء لامزیدعلیہ فضلا عن السبع وھذامع عدمِ اسقصاءہ رواة العشرفی کل طبقة( المقالات ص 21) ،، منجد ،، للجزری ہمارے پاس موجود نہیں ہے ورنہ احباب کو دیدار کرادیتے (3) تیسری بات یہ ہے کہ عربی ادب کی کتابیں مثلا الاصمعیات ، المفضلیات ،الحماسہ ، السبعہ ، طبقات الفحول ، الامالی ، وغیرہ کو جناب غامدی ،، متواتر ،، مانتے ہیں ۔ذرا ان کے رواة کاجائزہ تو لے لیں۔کیا وہ رواة قراءآتِ متواترہ کے رواة سے زیادہ ہیں    یا پھر ان سے قوی اورثقہ ہیں ؟اگر جواب ہاں میں ہے تومیدان حاضر ہے ،، این گوئے واین چوگان ،، اور اگر جواب نہیں میں ہے  تو پھر ان کو بھی آحاد قراردیں ۔یہ کیا مذاق ہے کہ علم ودانش کے دعوی دار بندہ بھی دو ترازواپنے پاس رکھے؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…