غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 35)

Published On March 5, 2024
جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

الیاس نعمانی ندوی ماہنامہ اشراق (بابت ماہ اپریل ۲۰۰۸ء) کے شذرات کے کالم میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گفتگو پر مبنی ایک تحریر نظر نواز ہوئی ہے۔ عنوان ہے: ’’جمعے کی امامت‘‘۔ اسی کی بابت کچھ عرض کرنے کا اس وقت ارادہ ہے۔ غامدی صاحب کا حاصل مدعا خود انہی کے الفاظ میں...

غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے تصور ’فطرت‘ کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر المورد اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے سرپرست ‘ماہنامہ ’اشراق کے مدیر اور’ آج ‘ ٹی وی کے نامور اسکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے دو اہم اصولوں ’سنت ابراہیمی ‘ اور ’نبیوں کے صحائف ‘ کا تنقیدی اورتجزیاتی مطالعہ ماہنامہ ’الشریعہ ‘ کے صفحات میں پیش کیا جا چکا...

غامدی صاحب کا تصور تاریخ: ایک تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کا تصور تاریخ: ایک تنقیدی جائزہ

محمد حسنین اشرف غامدی صاحب کی میٹافزکس میں جہاں بہت سے تصورات تنقیح طلب ہیں ان میں سے ایک تصورِ تاریخ بھی ہے۔ یہ ایسا تصور ہے جو ان کے الہیاتی اور فقہی، دونوں فریم ورکس کا حصہ ہے۔ غامدی صاحب اس پر بہت سی عمارتیں بلند کرتے ہیں لیکن یہ ابھی تک نہایت بنیادی شکل میں موجود...

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل  اس مضمون میں ہم جاوید احمد غامدی صاحب کے نظریہ اخلاق کا ایک مختصر مگر جامع تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ غامدی صاحب کا نظریہ اخلاق درحقیقت اسلام کے بجائے مغربی ما بعد الطبیعیات پر مبنی ہے اور امت مسلمہ کو اعتزال قدیمہ کی راہوں پر ڈالنے کی مکمل...

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

غامدی صاحب کے تصور سنت کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے انبیا و رسل بھیجے اور ان کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا ۔اس وحی کے نزول کے دو طریقے ہیں  اول ۔  بعض اوقات یہ وحی لفظاً ہوتی ہے یعنی اس میں الفاظ بھی اللہ کے...

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ

ابو عمار زاہد الراشدی جناب جاوید احمد غامدی کا ایک حالیہ مضمون ان دنوں دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے بنیادی طور پر یہ تصور پیش کیا ہے کہ اسلام کا خطاب فرد سے ہے سوسائٹی سے نہیں ہے، اور اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت عالم اسلام میں...

مولانا واصل واسطی

اب ان مذکورہ سوالات کے بعد ایک اور بات کی طرف ہم دوستوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔ اس کےبعد ہم اس دوسرے مسئلے کی طرف متوجہ ہونگے  جو جناب غامدی نے اس ،، قاعدے ،، کی مدد سے حل کیا ہے ۔ وہ بات یہ ہے کہ ہم جناب غامدی سے اس بات میں ( کچھ وقت کےلیے ) متفق ہیں کہ حدیثِ پاک سے قران کی ،، تحدید وتخصیص ،، کے  دعویدار عام علماءِ کرام یا تو ،، قلّتِ تدبّر یا پھر سوءِ فہم ،، کے شکار ہیں۔ اس لیے تو وہ چودہ سوسال میں اس آیت سے اس ،، قاعدے ،، کو سمجھ نہیں سکے اس بات کاثبوت ان کی کتابیں ہیں ۔ اب آپ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ ،، قاعدہ ،، جو سورتِ نساء کی آیت کے ضمن میں ذکر کیا ہے   وہ یا تو قران میں مصرح موجود ہوگا اور یا پھر اس آیت سے مستخرج و مستنبط ہوگا ؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ ،، قاعدہ ،، قران میں مصرح موجود ہے   اور ان مسائل کا حل اس سے ہر عالمِ دین کر سکتاہے ؟ تو ہم عرض کریں گے کہ یہ دعوی ہمارے علم کی حد تک غلط ہے ۔ اگر ایسا ہوتا   تو اس ،، قاعدے ،، اوران مسائل کا حل عام علماء ومفسرین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہوتا   مگر ایسا نہیں ہوا۔ ، تو لازم ہے کہ اس کو آپ کا استنباطی اوراجتہادی ،، قاعدہ ،، سمجھ لیا جائے ۔ اس بات کے دلائل بھی موجودہیں (1) ایک بات تو یہ ہے کہ قران مجید نے ،، لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا ( النساء 11) فرمایا ہے جس سے مثبت طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ ہم ،، اقرب نفعا ،، کے متعلق علم نہیں رکھتے ہیں ۔ لیکن آپ نے اس آیت کو  مفہومِ مخالف پر بھی محمول کردیا ہے جیسا کہ ،، سراسر آذیت ،، والی بات سے ظاہر ہوتا ہے  ( 2) دوسری بات یہ ہے  کہ اس آیت کے اس جملے کا تعلق بظاہر تومحض حصص ورثہ کے مقررکرنے تک محدود تھا  جیسا کہ آپ نے خود اس کی تشریح میں بوضاحت لکھا ہے   لیکن آپ نے اس آیت کے اس حکم  یعنی ،، بچے ہوئے مال وجائیداد کو ،، لاولی رجل ذکر ،، تک بھی متعدی کردیا ہے ، یہ بھی ایک اجتہادی امر ہے (3) تیسری بات یہ ہے کہ اس مفہومِ مخالف میں بھی ہر کافر آدمی کو آپ نے شامل نہیں رکھا  بلکہ ان لوگوں کو رکھا ہے کہ جن پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمامِ حجت آپ کے بقول ہوگئی ہے ،، یہ بھی اجتہادی امر ہے۔ اب آپ کو خوشی تو بہرحال ہوگی   اورہونی بھی چاہئے کہ آپ ماشاء اللہ ،، مجتھد ،، بن گئے  ہیں  لیکن اب ذرا ہمارے سوال کو سن لیں کہ ،، جب آپ نے اس ،، قاعدہ ،، کو قران سے مستنبط ومستخرج کیا ہے   پھر اس کے ذریعے دومشکل مسئلے ( اگرچہ وہ آپ ہی کے ذہن میں مشکل تھے ) حل کیے ہیں ،، اب آپ کے اس اجتہادی عمل سے قران کی اس آیتِ میراث کی تخصیص وتحدید ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی ؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں ہوئی   تو یہ بات بالبداھة غلط ہے  کیونکہ پہلے تمام امت کے نزدیک اس آیتِ مذکورہ کا ظاہر مفہوم یہی تھا کہ ہرمردہ شخص کی میراث ہر قریبی زندہ حقدار رشتہ دار لے جاسکتا تھا   مگر اب وہ کافر اس مسثنی ہوگئے ہیں جن پرحجت تمام ہوگئی ہو ۔ تو یہ ،، تخصیص وتحدید ،،  کس طرح نہیں ہوئی ہے؟ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ اس ،، قاعدہ ،، کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت سے مستنبط کیا تھا اور ان مسائل کو اس پرحل کیا تھا تو ہم اس حوالے سے پھر دو باتیں عرض کرتے ہیں ۔ایک تو یہ ہے کہ ہم اس بات کوان پرافترا جانتے ہیں کہ کسی معتبر کتاب میں اس کاذکرموجودنہیں ہے ورنہ پھر آپ کو اتنے پاپڑ بیلنے کی کیا ضرورت تھی صرف حوالہ دیدیتے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہم آپ کی یہ بات کچھ دیر کےلیے تسلیم کرکے یہ پوچھتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ( النساء 11) سےاس قاعدہ کو نکالاہے تو پھر آپ اس کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے ؟ اگر مانتے ہیں تو ہمارا سوال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد سے یہ قاعدہ قران مجید کی آیات سے مستنبط ومستخرج کیا ہے یا پھر وحی الہی سے ؟ اگر آپ اسے اجتہادِ نبوی سے اسے ماخوذ مانتے ہیں   تو ہم عرض کریں گے  کہ یہ ہے تو آیتِ مبارکہ کی ،، تخصیص وتحدید ،، ہی مگر اس کا مطلب آپ لوگوں نے بدل دیاہے۔ حاصل اس کا یہ ہوا کہ آپ لوگ ،، قران مجید ،، کی تخصیص وتحدید ،، وحی الہی ،، سے تو نہیں مانتے تھے  مگر اجتہادِ نبوی سے اسے مانتے ہیں ؟ یعنی آپ کے نزدیک ،، وحی الہی ،، سے اجتہادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم افضل اور اقوی ہے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔  اور اگر آپ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ،، قاعدہ ،، کا ،، وحی الہی ،، کی بنا پراضافہ کیا ہے  تو ہم کہتے ہیں   کہ پھر آپ کا وہ ،، قاعدہ ،، ٹوٹ گیا ہے کہ ،، قران کی تحدید وتخصیص نہ وحی جلی سے ہوسکتی نہ وحی خفی سے ہو سکتی اور نہ ہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ ہوسکتی ہے ،،(  میزان ص 35)  اس طویل بحث یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ جناب غامدی اور ان کے مقلدین بھی قران کی ،، تخصیص وتحدید ،، کے قائل تو ہیں۔ مگر اپنے مذہب کو بچارے غور وتامل سے نہیں پڑھتے   البتہ اتنا ہم میں اوران میں فرق ہے کہ یہ لوگ  ،، قران کی تخصیص وتحدید ،، اپنے اجتہاد یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد یا پھر ان کی وحی خفی سے کرتے ہیں ،، ہم براہِ راست ثابت شدہ حدیث سے کرتے ہیں ۔پھر یہ بات بھی ہے کہ جب آپ لوگ اجتہادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ،، تخصیص وتحدیدِ ،، قران کے قائل ہوں  تو پھر سب اقوالِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قائل ہو جائیں ۔اور ان کی ہر بات کو قران سے ماخوذ مان لیں  توھہارے اور آپ کے درمیان کوئی نزاع نہ رہے ۔اس سے آپ کا کیا نقصان ہوگا ؟ اگر کہتے ہیں کہ قران کے ،، میزان اورفرقان ،،  ہونے پرحرف آتا ہے تو ہم کہتے ہیں وہ تو اب بھی آپ کے اس ،، قاعدے ،،  سےآگیاہے ۔اس کا کیا کریں گے؟ اب جناب کا دوسرا مسئلہ دیکھتے ہیں  جوانہوں نے اس آیت سے مستنبط کیا ہے ۔لکھتے ہیں کہ ،، اس طرح یہ راہنمائی بھی ضمنا اس آیت سے حاصل ہوتی ہے کہ ترکے کا کچھ حصہ بچاہوارہ جائے اورمرنے والے نے کسی کو اس کا وارث نہ بنایا ہو   تو اسے بھی ،، اقرب نفعا ،، کو ملنا چاہئے ۔ بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات فرمائی ہے کہ ،، الحقواالفرائض باھلھا ، فماترکت الفرائض فلاولی رجل ذکر (ترجمہ) وارثوں کو ان کاحصہ دو ، پھر اگر کچھ بچے تو وہ قریب ترین مرد کےلیے ہے ( میزان ص 523)  ہم نے یہ حدیث تو سنی اور پڑھی ہے  مگر اس ،، قاعدہ ، کے تحت کس طرح آگئی یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی ؟ کیونکہ جناب غامدی نے خود آیت کی تشریح میں لکھا ہے کہ ،، اقرب نفعا ،، کا جاننا محض علم وعقل سے نہیں ہوسکتا  تو پھر سوال یہ ہے کہ ،،ا ولی رجل ذکر ،، کا انتخاب تو بھی اس قانون  ،، اقرب نفعا ،، کے مطابق ہوگا یا کسی قانون کے بغیر ہوگا ؟ اگر اسی قانون کے مطابق ہو گا  توپھر مشکل آگئی ہے کہ وہ کیسے اپنی ناقص عقل اوراپنے محدود علم سے معلوم کر لے گا کہ یہ ،، اقرب نفعا ،، ہے کیونکہ اس کاحصہ تو مقرر نہیں ہے ؟ اوراگر بلاکسی قانون کے وہ بچا ہوا حصہ  ان کی عقل کے مطابق ،، لاولی رجل ذکر ،، کے لیے ہوگا   تب اس آیت کا اس ،، قاعدہ ،، سے کیاتعلق رہ جاتا ہے ؟ کیونکہ آیت  ،، اقرب نفعا ،، کے مطابق تو تقسیم کی بات مذکور ہے جو بندے خود انصاف سے نہیں کرسکتے تھے ۔مگر حدیث میں ایسی عمومی بات موجود ہے کہ اس قانون کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں بنتا ۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ تکلفات سے مسائل کا حل نہیں نکلتا ۔اس مختصر نقد کے بعد ہم اب پھر دوبارہ اپنی بات کی طرف آتے ہیں   کہ بہت سارے مسائل ہیں   جن سے جناب غامدی نے چپ کر  کے گذرنے میں اپنی عافیت سمجھی ہے۔ مثلا ،قران میں واردہے کہ ،، ان الصلوةکانت علی المؤمنین کتابا موقوتا ( النساء 153)  مگر احادیثِ مبارکہ میں نمازوں کا جمع کرنا رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے کثیر روایات میں ثابت ہے ، اس کی مختلف صورتیں ہیں (1) مثلا جمعِ تقدیمی ، اس پر بعض لوگ تنقید بھی کرتے ہیں   (2) جیسے جمع تاخیری ، یہ اکثرعلماء کے نزدیک عندالضرورت جیسے سفر ومرض وغیرہ جائز ہیں (3) جمعِ صوری جس کے حنفی علماء قائل ہیں  مگر مقاماتِ حج جیسے مزدلفہ وغیرہ ہیں وہاں تو بالتواتر وبالاجماع جمع غیرصوری ثابت ہے  جیسا کہ ہم اگے اس کی تفصیل کرلیں گے ان شاءاللہ

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…