غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 36)

Published On March 5, 2024
لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ اول تمہید)

لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ اول تمہید)

مفتی منیب الرحمن دعا بندے اور رب کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو کسی ضابطے کا پابند نہیں ہے‘ نہ نماز کی طرح اس میں عربی زبان کا التزام ہے۔ الغرض بندے کی زبان کوئی بھی ہوحتیٰ کہ گونگا بھی ہو‘ وہ اپنے رب سے براہِ راست التجا کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دعا کی...

تفہیمِ اسلام : دو تعبیرات اتمامِ حجت اور سنت

تفہیمِ اسلام : دو تعبیرات اتمامِ حجت اور سنت

ناقد : کاشف علی تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے جزئیات پر بات نہیں ہو سکتی ۔ دین کی دو تعبیرات ہیں ۔ ایک تعبیر کے مطابق اسلام سیاسی سسٹم دیتا ہے ۔ لیکن غامدی صاحب دوسری تعبیر کے نمائندہ ہیں کہ اسلام کوئی سسٹم نہیں دیتا ۔ دونوں تعبیرات کے مطابق نیچے کی جزئیات مختلف ہو...

منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد

منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد

ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن اول ۔ یہ کہنا کہ جمعہ کا منبر علماء سے واپس لے لینا چائیے کیونکہ اسلامی تاریخی میں جمعہ کے منبر کا علماء کے پاس ہونا کہیں ثابت نہیں ہے ، یہ سربراہِ مملکت کا حق ہے اور علماء   غداری کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ ان ظالموں کی منطق بالکل...

علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ  : قسط دوم

علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ : قسط دوم

مفتی منیب الرحم علامہ غامدی نے کہا: ''میں نے بارہا عرض کیا : جامع مسجد ریاست کے کنٹرول میں ہونی چاہیے ،دنیا بھر میں ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے ،ملائشیا میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،عرب ممالک میں ریاست کے کنٹرول میں ہے ،ہمارے ملک میں نہیں ہے ، ریاست یہ اِقدام نہیں...

علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ  : قسط اول

علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ : قسط اول

مفتی منیب الرحمن ۔13مارچ کومیں نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میںمختصر بات کی ،اُس کے بعد علامہ جاوید احمد غامدی کو اپنی بات تفصیل سے کہنے کا موقع دیا گیا ۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بیانیہ جدید دور کی اصطلاح ہے ۔اصولی طور پر کسی ملک وقوم کا دستور ہی اُس کا اجتماعی...

اسرائیلی خونریزی اور جاوید احمد غامدی

اسرائیلی خونریزی اور جاوید احمد غامدی

تنویر قیصر شاہد اسرائیل کی وحشت اور دہشت کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی ملک، عالمی ادارے یا قانون کو ماننے پر تیار نہیں۔ فلسطین کی ایک چھوٹی سی پٹّی ، غزہ، میں محصور فلسطینیوں کے خلاف صیہونی اسرائیلی افواج کو بروئے کار آئے ہُوئے آج ایک مہینہ اور تین دن ہو چکے ہیں۔ اِس...

مولانا واصل واسطی

جمہورامت اس بات پر متفق ہیں  کہ مذکورہ تحریر میں درج  قرانی آیت مخصوص بالحدیث ہے۔  حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے مقامات میں جمع بین الصلواتین ثابت ہے ، جمع تقدیم بھی ثابت ہے اورجمع تاخیر بھی ۔ ہاں اس میں بحث بہرحال موجود ہے کہ یہ سنت ہے یا مستحب ہے یا پھر فقط جائز ہے۔ جو بھی صورت ہو ان تین میں ،، تخصیص وتحدید ،، قرانی آیت کی اس سے بہرحال ہو گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی جمع بین الصلواتین جائز ہے ، مگر ہم اس کا تذکرہ یہاں اس لیے نہیں کرتے کہ اس میں ،، جمع صوری اور فعلی ،، کااحتمال موجود ہے جس کے احناف قائل ہیں ۔ممکن  ہےکوئی زور زبردستی اسے صوری وفعلی قراردے کہ یہ آیتِ قرانی کے عین مطابق ہے ، کوئی اشکال ہی نہیں ہے ۔مگر عرفات اور مزدلفہ میں اس تاویل کی گنجائش الحمدللہ موجود نہیں ہے  لہذ اجناب غامدی اس کو بھی قران سے ثابت کر  کےدکھا دیں۔ اپنے مبحث سے ہٹ جانے کے دوران ہم نے دوتوجیہات جناب غامدی کے ادھیڑ کررکھ دیئے ہیں ۔ اوردو مزید حل طلب مسائل ان کے سامنے رکھ دیئے ہیں ۔ اب پھر اصل مبحث کی طرف جاتے ہیں ، جناب لکھتے ہیں کہ ،، اس دنیا میں اللہ تعالی نے جو جانور پیدا کیے ہیں ، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں   اور بعض کھانے کے نہیں ہیں ، یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں ( تواس کا چونکہ انسان کے تزکیہ پراثرپڑتاہے ) اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے ، انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح راہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر تردد کے فیصلہ کرلیتا ہے   کہ اسے کیاکھانا چاہئے  اور کیا نہیں کھانا چاہئے ؟اسے معلوم ہے  کہ شیر ، چیتے ، ہاتھی ، چیل ،گدھ ، کوے ، عقاب ، سانپ ، بچھو ، اور خود انسان   کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتاہے کہ گھوڑے ،گدھے دسترخوان کی لذت کےلیے نہیں ہیں بلکہ سواری کےلیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول وبراز کی نجاست سے وہ پوری طرح واقف ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے  لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتاہے  کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی چنانچہ خداکی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت وحرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا   بلکہ صرف یہ بتاکر کہ تمام طیبات حلال اور تمام خبائث حرام ہیں ، انسان کواس کی فطرت ہی کی راہنمائی پرچھوڑ دیا ہے ( میزان ص 36)  ہم اس عبارت کے متعلق چند باتیں پیش کرتے ہیں (1) پہلی بات تو یہ ہے کہ شریعت نے انسانوں کو ماکولات ومشروبات میں صرف یہ بات نہیں بتائی کہ ،، تمام طیبات حلال ہیں اور تمام خبائث حرام ہیں ،، ۔یہ بات جو لوگ کرتے ہیں وہ یاتو قصدا وعمدا قران وسنت میں تحریف کرتے ہیں   یا پھر مغفل ہیں ،تحقیق وتفتیش سے کچھ لگاؤ نہیں رکھتے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ طیبات اور خبائث کے اثرات کا علم انسانوں کو نہیں ہوتا ۔ قران نے یہ بات تو بیان کی ہے کہ ،، احل لکم الطیبات ،، ( المائدہ 5) مگر اس آیت سے اس پر استدلال کرنا کہ قران وسنت نے انسان کو بغیربیانِ طیبات وخبائث کے چھوڑ دیاہے ، قطعا غلط بات ہے۔ یہ تو بالکل اس طرح کا استدلال ہے کہ کوئی کسی سے پوچھ لے  کہ میرے لیے کونسا مال درست ہے؟ تو وہ جواب دیں حلال مال ۔ بس اس جواب سے وہ شخص خود مختار بن جائے کہ مجھے اپنی فطرت پر چھوڑدیا گیا ہے۔، اور اس کے بعد وہ حرام وحلال میں خود اپنی طبیعت سے تمییز کرنے لگ جائے۔ کیا اس جواب سے اس سائل شخص کا یہ مفہوم لینا اور پھراس پر اس طرح خود عمل کرتے چلے جانا درست ہوگا ؟ قطعا نہیں ۔ بالکل اسی طرح جناب غامدی کی یہ مذکور بات غلط ہے کیونکہ قران نے یہ بھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے کہ ،، ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ( الاعراف 157) ( ترجمہ )  یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کوحرام ٹھہراتا ہے ۔،، اگر وہ انسان خود طیبات وخبائث میں اپنی فطرت کی بنا پر تمییز کی صلاحیت رکھتے تھے   تب تو اس آیت کا کوئی مصرف ہی نہیں ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاءِ کرام طیبات اورخبائث میں بھی تمییز کرنےآتے تھے ۔ بعض مدعیانِ علم کی تحریر میں ایک باردیکھا  کہ انھوں نے اس ،، فاسد مدعی ،، کےلیے قران کی دو دیگرآیتوں سے بھی استدلال کیا تھا ۔ ایک یہ ہے کہ ،، وھدینہ النجدین  ،،  اور دوسری آیت یہ تھی کہ ،، فالھمھا فجورھا وتقواھا ،، مگر بندہ ان سے پوچھ لے   کہ ان دوآیات کاماکولات ومشروبات سے کیا تعلق ہے ؟ کیا آیت میں یاپھر اس سورت میں اس بات کا کوئی قرینہ موجود ہے ؟  یاپھرصرف اردو مفسرین سے تاثر گلے پڑگیاہے ؟ ان آیات کا مطلب فقط یہی ہے کہ انسان کی فطرت میں دونوں قسم کی صلاحتیں رکھیں ہیں جیسے آنکھ میں بینائی کی صلاحیت موجود ہے مگر اس کا مطلب یہ تو کبھی نہیں ہوتا کہ وہ سب کچھ ہرحالت میں دیکھ سکتا ہے ؟ تو جیسے اس بینائی کے لیے خارج میں روشنی کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی اس ،، ہدایت ،، اور ،، الہام ،، کے لیے بھی خارجی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے جو ،، وحی الہی ،، ہے۔اس بات کی وجوہات بہت ساری ہیں کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو طیبات اورخبائث کے بارے میں صرف فطرت کی راہنمائی پر کیوں نہیں چھوڑا ؟  مگر ہم چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں ( 1) پہلی وجہ اس کی یہ ہے کہ طیبات اور خبائث انسان کے تزکیہ وتطہیر پراثر انداز ہوتے ہیں ۔  اور تزکیہ کا تعلق قلب وروح سے ہے ، طیبات ان پر مفید اثرات ڈالتے ہیں ، اور خبائث منفی اثرات ڈالتے ہیں ۔اب انسانی فطرت میں ذاتی اتنی تو قوت نہیں ہے کہ وہ قلب وروح میں پڑنے والے منفی اورمثبت اثرات کا علم پائے یا ان کا جامع اندازہ لگاسکے ۔ایسی صورت میں انسان کو محض فطرت کے حوالے کرنا خود اس کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے ،جس کا تصور بھی اللہ تعالی کے متعلق محال لگتا ہے ( 2)  دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ طیبات اورخبائث سارے کے سارے معلوم بالمشاھدہ نہیں ہوتے ، بعض بالمشاھدہ ہوتے ہیں  جیسے بول وبراز اوربعض دیگر چیزیں وغیرہ مگر وہ سارے ایسے نہیں ہوتے  مثلا کتے ، چیتے ، بھیڑئیے  وغیرہ کی خباثت مشاہدہ سے معلوم نہیں ہوتیں، اور کتوں کے لعاب وغیرہ مشاہدہ سے خبیث معلوم نہیں ہوتے  ۔جناب غامدی غالبا بچوں کے لیے قاعدہ لکھ رہے تھے ، کہ ،،  باربرداری اور دسترخوان کی لذت کا ،، بھی کسی اصل کی طرح ذکر کردیا ہے ، تو کیا گھوڑا حرام ہے؟ آپ ہماری تو نہیں مانتے چلو امام ابوحنیفہ وغیرہ سے پوچھ لیں ؟ اورکیااونٹ اوربیل و غیرہ بھی حرام ہیں ؟ کیونکہ وہ بھی تو ،، باربرداری ،،  کرتے ہیں بلکہ ساتھ دوسرا کام بھی کرتے ہیں کہ ہل چلاتے ہیں ؟ اور اسی طرح نہ کھانے والی چیزوں میں بھیڑئیے اور کتے کا ذکر نہیں کیا کہ وہ کھائے جاتے ہیں ۔ ممکن ہے جناب  نے اعتراض کے اندیشہ سے ہی پہلے دوکانام نہ لیا ہو ( 3) اورتیسری وجہ یہ ہے  کہ خباثت اور طیبت معمولی اورنازک دائروں کی شرائط سے بھی ایک دوسرے کے حدود میں داخل ہوجاتے ہیں ۔دیکھئے ایک طیب حیوان ہوتاہے ، اس پر غیر کےلیے آواز کی جائے ،تو خبیث ہوجائے گا ،ما اھل لغیراللہ بہ ،اوراسی طرح ،، مال ،، فی نفسہ حلال ہے ، مگر کسی نے اسے ایسے طریقے سے حاصل کیا کہ وہ خبیث بن گیا ہے   مثلا اجرتِ زانیہ  ہے ، حلوان الکاھن ، ہے ،  چوری اور رشوت کامال ہے ، مالِ مکس ، ہے وغیرہ۔ یہ سارے خبیث اموال ہیں  لیکن ان چیزوں کی خباثت کا ادراک محض فطرت کی قوت سے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے لئے ،، وحی ،، کی آسمانی اورالہی روشنی درکار ہوتی ہے ۔ طیبات وخبائث کی پہچان کو فطرت پر موقوف سمجھنے والے یہ دانشور آخر کس بنیاد پر صوفیا کے الہامات کی حجتیت کو رد کرتے ہیں ؟ آپ لوگوں کے اس دعوی سے تو صوفیا کے الہامات کے حجت ہونے کے دلائل بہت قوی ہیں۔ ان کی شرعی بنیاد بھی کچھ نہ کچھ موجود ہے ، آپ کے اس باطل مسلک کا تو  بس اللہ اللہ خیر صلّا ۔ہمارے نزدیک آپ کے اس دعوی کے لیے نہ تو کوئی عقلی دلیل ہی موجود ہے ، اور نہ کوئی شرعی دلیل ۔ اصل اشکال کا تو سامنا نہ کرسکے  کہ قران نے چند چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ، ان میں چیر پھاڑ کرنے والے پرندے اور حیوانات کا ذکر نہیں ہے ، وہ تو حدیث میں آیا ہے ، تو اس سے ،، تخصیص وتحدیدِ قران ،، لازم آتی ہے لہذا جواب بنا لیا کہ وہ بیانِ شریعت نہیں ہے بلکہ بیانِ فطرت ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…