غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 36)

Published On March 5, 2024
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

مولانا واصل واسطی تیسری گزارش جناب غامدی کے اس قول کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی صرف معما ہے ۔کوئی بھی اس معما کو امت کی تاریخ میں حل نہیں کرسکا بلکہ وہ حدیث بے معنی ہے ۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ امت نے اس کا مفہوم سمجھ لیا تھا   تب ہی تو انھوں اس کے متعلق ،، اجماع...

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور لونڈیوں کی سزا پر ان کی وضاحت پر

غامدی صاحب کا تصور تبیین اور لونڈیوں کی سزا پر ان کی وضاحت پر

ڈاکٹر زاہد مغل تبصرہ محترم جناب غامدی صاحب کے تصور تبیین کی قرآن کے محاورے میں غلطی واضح کرنے کے لئے دی گئیں چھ میں سے آخری مثال بدکار مرد و عورت کی سزا سے متعلق تھی۔ سورۃ نور کی آیت 2 میں ان کی سزا 100 کوڑے بیان ہوئی تاہم سورۃ نساء آیت 4 میں ارشاد ہوا کہ بدکار لونڈی...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 26)

مولانا واصل واسطی دوسری گذارش اس اعترض کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی ومفہوم بھی اہلِ علم کو معلوم ہے اورانھوں نے اس مسئلے کا حل نکالا بھی ہے۔ بہت سارے محققین نے امام ابن جریر الطبری کی اس رائے کو اختیار کیا ہے ، کہ ،، سبعةاحرف ،، سے مراد مختلف قبیلوں کے لہجے...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 27)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)

مولانا واصل واسطی جناب غامدی نے اسی مبحث میں اگے ،، سبعةاحرف ،، والی روایت کو تختہِ مشق بنایا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، یہاں ہوسکتاہے کہ ،، سبعة احرف ،، کی روایت بھی بعض لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بنے ، موطا میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے ،، عن عبدالحمن بن عبدالقاری...

نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

ڈاکٹر تزر حسین غامدی صاحب اور حسن الیاس جب نیشن سٹیٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نشین سٹیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے دینی فکر میں موجود اصظلاحات جدید دور میں قابل عمل نہیں اور اس چیز نے دینی فکر کو جمود کا شکار کردیا ہے۔ انکی...

غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں

غامدی صاحب کے تصور بیان کی اصولی مشکلات: “تاخیر البیان” کی روشنی میں

ڈاکٹر زاہد مغل برادر عمار خان ناصر صاحب نے اپنی کتاب "قرآن و سنت کا باہمی تعلق" کا ایک باب مولانا حمید الدین فراہی و مولانا امین احسن اصلاحی صاحبان اور ایک جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے تصور بیان پر لکھ کر ان کی خصوصیات لکھی ہیں۔ آپ نے امام شافعی کے لسانیاتی منہج بیان...

مولانا واصل واسطی

جمہورامت اس بات پر متفق ہیں  کہ مذکورہ تحریر میں درج  قرانی آیت مخصوص بالحدیث ہے۔  حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے مقامات میں جمع بین الصلواتین ثابت ہے ، جمع تقدیم بھی ثابت ہے اورجمع تاخیر بھی ۔ ہاں اس میں بحث بہرحال موجود ہے کہ یہ سنت ہے یا مستحب ہے یا پھر فقط جائز ہے۔ جو بھی صورت ہو ان تین میں ،، تخصیص وتحدید ،، قرانی آیت کی اس سے بہرحال ہو گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی جمع بین الصلواتین جائز ہے ، مگر ہم اس کا تذکرہ یہاں اس لیے نہیں کرتے کہ اس میں ،، جمع صوری اور فعلی ،، کااحتمال موجود ہے جس کے احناف قائل ہیں ۔ممکن  ہےکوئی زور زبردستی اسے صوری وفعلی قراردے کہ یہ آیتِ قرانی کے عین مطابق ہے ، کوئی اشکال ہی نہیں ہے ۔مگر عرفات اور مزدلفہ میں اس تاویل کی گنجائش الحمدللہ موجود نہیں ہے  لہذ اجناب غامدی اس کو بھی قران سے ثابت کر  کےدکھا دیں۔ اپنے مبحث سے ہٹ جانے کے دوران ہم نے دوتوجیہات جناب غامدی کے ادھیڑ کررکھ دیئے ہیں ۔ اوردو مزید حل طلب مسائل ان کے سامنے رکھ دیئے ہیں ۔ اب پھر اصل مبحث کی طرف جاتے ہیں ، جناب لکھتے ہیں کہ ،، اس دنیا میں اللہ تعالی نے جو جانور پیدا کیے ہیں ، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں   اور بعض کھانے کے نہیں ہیں ، یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں ( تواس کا چونکہ انسان کے تزکیہ پراثرپڑتاہے ) اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے ، انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح راہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر تردد کے فیصلہ کرلیتا ہے   کہ اسے کیاکھانا چاہئے  اور کیا نہیں کھانا چاہئے ؟اسے معلوم ہے  کہ شیر ، چیتے ، ہاتھی ، چیل ،گدھ ، کوے ، عقاب ، سانپ ، بچھو ، اور خود انسان   کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتاہے کہ گھوڑے ،گدھے دسترخوان کی لذت کےلیے نہیں ہیں بلکہ سواری کےلیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول وبراز کی نجاست سے وہ پوری طرح واقف ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے  لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتاہے  کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں بالعموم غلطی نہیں کرتی چنانچہ خداکی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت وحرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا   بلکہ صرف یہ بتاکر کہ تمام طیبات حلال اور تمام خبائث حرام ہیں ، انسان کواس کی فطرت ہی کی راہنمائی پرچھوڑ دیا ہے ( میزان ص 36)  ہم اس عبارت کے متعلق چند باتیں پیش کرتے ہیں (1) پہلی بات تو یہ ہے کہ شریعت نے انسانوں کو ماکولات ومشروبات میں صرف یہ بات نہیں بتائی کہ ،، تمام طیبات حلال ہیں اور تمام خبائث حرام ہیں ،، ۔یہ بات جو لوگ کرتے ہیں وہ یاتو قصدا وعمدا قران وسنت میں تحریف کرتے ہیں   یا پھر مغفل ہیں ،تحقیق وتفتیش سے کچھ لگاؤ نہیں رکھتے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ طیبات اور خبائث کے اثرات کا علم انسانوں کو نہیں ہوتا ۔ قران نے یہ بات تو بیان کی ہے کہ ،، احل لکم الطیبات ،، ( المائدہ 5) مگر اس آیت سے اس پر استدلال کرنا کہ قران وسنت نے انسان کو بغیربیانِ طیبات وخبائث کے چھوڑ دیاہے ، قطعا غلط بات ہے۔ یہ تو بالکل اس طرح کا استدلال ہے کہ کوئی کسی سے پوچھ لے  کہ میرے لیے کونسا مال درست ہے؟ تو وہ جواب دیں حلال مال ۔ بس اس جواب سے وہ شخص خود مختار بن جائے کہ مجھے اپنی فطرت پر چھوڑدیا گیا ہے۔، اور اس کے بعد وہ حرام وحلال میں خود اپنی طبیعت سے تمییز کرنے لگ جائے۔ کیا اس جواب سے اس سائل شخص کا یہ مفہوم لینا اور پھراس پر اس طرح خود عمل کرتے چلے جانا درست ہوگا ؟ قطعا نہیں ۔ بالکل اسی طرح جناب غامدی کی یہ مذکور بات غلط ہے کیونکہ قران نے یہ بھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے کہ ،، ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ( الاعراف 157) ( ترجمہ )  یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کوحرام ٹھہراتا ہے ۔،، اگر وہ انسان خود طیبات وخبائث میں اپنی فطرت کی بنا پر تمییز کی صلاحیت رکھتے تھے   تب تو اس آیت کا کوئی مصرف ہی نہیں ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاءِ کرام طیبات اورخبائث میں بھی تمییز کرنےآتے تھے ۔ بعض مدعیانِ علم کی تحریر میں ایک باردیکھا  کہ انھوں نے اس ،، فاسد مدعی ،، کےلیے قران کی دو دیگرآیتوں سے بھی استدلال کیا تھا ۔ ایک یہ ہے کہ ،، وھدینہ النجدین  ،،  اور دوسری آیت یہ تھی کہ ،، فالھمھا فجورھا وتقواھا ،، مگر بندہ ان سے پوچھ لے   کہ ان دوآیات کاماکولات ومشروبات سے کیا تعلق ہے ؟ کیا آیت میں یاپھر اس سورت میں اس بات کا کوئی قرینہ موجود ہے ؟  یاپھرصرف اردو مفسرین سے تاثر گلے پڑگیاہے ؟ ان آیات کا مطلب فقط یہی ہے کہ انسان کی فطرت میں دونوں قسم کی صلاحتیں رکھیں ہیں جیسے آنکھ میں بینائی کی صلاحیت موجود ہے مگر اس کا مطلب یہ تو کبھی نہیں ہوتا کہ وہ سب کچھ ہرحالت میں دیکھ سکتا ہے ؟ تو جیسے اس بینائی کے لیے خارج میں روشنی کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی اس ،، ہدایت ،، اور ،، الہام ،، کے لیے بھی خارجی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے جو ،، وحی الہی ،، ہے۔اس بات کی وجوہات بہت ساری ہیں کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو طیبات اورخبائث کے بارے میں صرف فطرت کی راہنمائی پر کیوں نہیں چھوڑا ؟  مگر ہم چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں ( 1) پہلی وجہ اس کی یہ ہے کہ طیبات اور خبائث انسان کے تزکیہ وتطہیر پراثر انداز ہوتے ہیں ۔  اور تزکیہ کا تعلق قلب وروح سے ہے ، طیبات ان پر مفید اثرات ڈالتے ہیں ، اور خبائث منفی اثرات ڈالتے ہیں ۔اب انسانی فطرت میں ذاتی اتنی تو قوت نہیں ہے کہ وہ قلب وروح میں پڑنے والے منفی اورمثبت اثرات کا علم پائے یا ان کا جامع اندازہ لگاسکے ۔ایسی صورت میں انسان کو محض فطرت کے حوالے کرنا خود اس کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے ،جس کا تصور بھی اللہ تعالی کے متعلق محال لگتا ہے ( 2)  دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ طیبات اورخبائث سارے کے سارے معلوم بالمشاھدہ نہیں ہوتے ، بعض بالمشاھدہ ہوتے ہیں  جیسے بول وبراز اوربعض دیگر چیزیں وغیرہ مگر وہ سارے ایسے نہیں ہوتے  مثلا کتے ، چیتے ، بھیڑئیے  وغیرہ کی خباثت مشاہدہ سے معلوم نہیں ہوتیں، اور کتوں کے لعاب وغیرہ مشاہدہ سے خبیث معلوم نہیں ہوتے  ۔جناب غامدی غالبا بچوں کے لیے قاعدہ لکھ رہے تھے ، کہ ،،  باربرداری اور دسترخوان کی لذت کا ،، بھی کسی اصل کی طرح ذکر کردیا ہے ، تو کیا گھوڑا حرام ہے؟ آپ ہماری تو نہیں مانتے چلو امام ابوحنیفہ وغیرہ سے پوچھ لیں ؟ اورکیااونٹ اوربیل و غیرہ بھی حرام ہیں ؟ کیونکہ وہ بھی تو ،، باربرداری ،،  کرتے ہیں بلکہ ساتھ دوسرا کام بھی کرتے ہیں کہ ہل چلاتے ہیں ؟ اور اسی طرح نہ کھانے والی چیزوں میں بھیڑئیے اور کتے کا ذکر نہیں کیا کہ وہ کھائے جاتے ہیں ۔ ممکن ہے جناب  نے اعتراض کے اندیشہ سے ہی پہلے دوکانام نہ لیا ہو ( 3) اورتیسری وجہ یہ ہے  کہ خباثت اور طیبت معمولی اورنازک دائروں کی شرائط سے بھی ایک دوسرے کے حدود میں داخل ہوجاتے ہیں ۔دیکھئے ایک طیب حیوان ہوتاہے ، اس پر غیر کےلیے آواز کی جائے ،تو خبیث ہوجائے گا ،ما اھل لغیراللہ بہ ،اوراسی طرح ،، مال ،، فی نفسہ حلال ہے ، مگر کسی نے اسے ایسے طریقے سے حاصل کیا کہ وہ خبیث بن گیا ہے   مثلا اجرتِ زانیہ  ہے ، حلوان الکاھن ، ہے ،  چوری اور رشوت کامال ہے ، مالِ مکس ، ہے وغیرہ۔ یہ سارے خبیث اموال ہیں  لیکن ان چیزوں کی خباثت کا ادراک محض فطرت کی قوت سے نہیں ہو سکتا ۔ اس کے لئے ،، وحی ،، کی آسمانی اورالہی روشنی درکار ہوتی ہے ۔ طیبات وخبائث کی پہچان کو فطرت پر موقوف سمجھنے والے یہ دانشور آخر کس بنیاد پر صوفیا کے الہامات کی حجتیت کو رد کرتے ہیں ؟ آپ لوگوں کے اس دعوی سے تو صوفیا کے الہامات کے حجت ہونے کے دلائل بہت قوی ہیں۔ ان کی شرعی بنیاد بھی کچھ نہ کچھ موجود ہے ، آپ کے اس باطل مسلک کا تو  بس اللہ اللہ خیر صلّا ۔ہمارے نزدیک آپ کے اس دعوی کے لیے نہ تو کوئی عقلی دلیل ہی موجود ہے ، اور نہ کوئی شرعی دلیل ۔ اصل اشکال کا تو سامنا نہ کرسکے  کہ قران نے چند چیزوں کو حرام قرار دیا ہے ، ان میں چیر پھاڑ کرنے والے پرندے اور حیوانات کا ذکر نہیں ہے ، وہ تو حدیث میں آیا ہے ، تو اس سے ،، تخصیص وتحدیدِ قران ،، لازم آتی ہے لہذا جواب بنا لیا کہ وہ بیانِ شریعت نہیں ہے بلکہ بیانِ فطرت ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…