غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 37)

Published On March 5, 2024
فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال

فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب کے شاگرد محترم ساجد حمید صاحب نے کسی قدر طنز سے کام لیتے ہوئے اصولیین کے اس تصور پر تنقید کی ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بگاڑ کی اصل وجہ امام شافعی ہی سے شروع ہوجاتی ہے جس میں اصولیین، فلاسفہ و صوفیا نے بقدر...

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 1)

غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 1)

مولانا واصل واسطی ہم نے یہ بات اپنی مختلف پوسٹوں میں صراحت سے بیان کی ہے ، کہ جناب جاوید غامدی، غلام احمدپرویز کی طرح  بالکل منکرِحدیث ہیں ۔البتہ ان کا یہ فلسفہ پیچ درپیچ ہے ، وہ اس لیے کہ انھوں نے پرویز وغیرہ کا انجام دیکھ لیا ہے ، اب اس برے انجام سے وہ بچنا چاھتے...

قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ

قطعی و ظنی الدلالۃ: امام شافعی پر جناب ساجد حمید صاحب کے نقد پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل جناب ساجد حمید صاحب نے اپنی تحریر “قرآن کیوں قطعی الدلالۃ نہیں؟”میں فرمایا ہے کہ امت میں یہ نظریہ امام شافعی اور ان سے متاثر دیگر اصولیین کی آرا کی وجہ سے راہ پا گیا ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت قطعی نہیں۔ آپ نے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ سے یہ تاثر دینے...

امام رازی اور قانون کلی کی تنقید پر تبصرہ

امام رازی اور قانون کلی کی تنقید پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل اہل علم متکلمین و اصولیین کے ہاں “قانون کلی ” کی بحث سے واقف ہیں۔ اس بحث کو لے کر شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے امام غزالی رحمہ اللہ کو ضمناً  جبکہ امام رازی  رحمہ اللہ  کو بالخصوص  شد و مد سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امام رازی پر اعتراض یہ ہے کہ ان کے...

تصورِ نظمِ کلام کے مضمرات ( فکرِ غامدی پر نقد)

تصورِ نظمِ کلام کے مضمرات ( فکرِ غامدی پر نقد)

خضر یسین ہر بامعنی لفظ، ایک اسم ہوتا ہے۔ جس کا مسمی ذہن میں ہو تو معنی یا موضوع اور خارج میں ہو تو مدلول یا معروض کہلاتا ہے۔ لفظ کے بغیر ذہن میں تصور تشکیل نہیں پا سکتا ہے اور نہ تفہیم و تفکر کا عمل ممکن ہو سکتا ہے۔ الفاظ کا مجموعہ کلام نہیں ہوتا، بامعنی الفاظ کی...

نظمِ قران، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت

نظمِ قران، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت

جہانگیر حنیف نظمِ قرآن، تاویلِ واحد اور قطعی دلالت کا نظریہ ایک ہی پراجیکٹ کا حصہ ہیں۔ وہ پراجیکٹ قرآن مجید کے متن کو ایک نئی ہرمیونیٹکس دینا ہے۔ یہ خیال اس احساس سے پیدا ہوا کہ روایتی اور مروج و متداول اصولِ تفسیر قرآن مجید میں اپنی بنیاد نہیں رکھتے۔ ان کا اطلاق قرآن...

مولانا واصل واسطی

دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ  جناب غامدی صاحب  اپنی  باتیں اس طرح پیش کرتے ہیں  جیسے وہ دنیا کے مسلمہ حقائق ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ،، انسانوں کی عادات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد اس معاملے   یعنی طیبات اور خبائث کے پہچاننے کے معاملے ،، میں بالعموم غلطی نہیں کرتی ،، ۔اب آپ ان کی اس بات کو ذرا عقل کی میزان پر تول لیں کہ مسلمان مثلا کتے کا گوشت نہیں کھاتے ہیں ۔ ان کی تعداد دنیا میں کتنی ہیں ؟ دنیا میں کتے کھانے والے لوگوں کی کتنی تعداد ہے ؟ اگر اس مسئلہ میں صرف چینی قوم کو لیا جائے   تب بھی کہنا پڑے گا  کہ بڑی تعداد کو اس مسئلے میں غلطی بلکہ سخت غلطی لگی ہے ۔پھر مسلمان جو  کتوں کو نہیں کھاتے وہ اپنی فطرت کے مطالعے کی بنیاد پر ایسے نہیں کرتے ہیں جیساکہ جناب غامدی تاثر دینا چاہتے ہیں  بلکہ وہ شرعی علم اوراحکام اور شرعی ماحول کی وجہ سے اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ اگر انہیں بغیر شریعت کے علوم کے چھوڑ دیا جاتا   تب آپ کو پتہ چلتا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور کتنے لوگ فطرت پر قائم رہتے ہیں ؟ انسان اگر دیگر غیر اسلامی قوموں کے ماکولات کے متعلق صرف کتابوں سے ہی معلومات حاصل کر لے   تب بھی وہ جناب غامدی کی اس بات سے اتفاق نہیں کرسکتا ۔جناب غامدی نے چونکہ ادھر ،، قاعدہ ،، بنایا ہے کہ ،،  حدیث سے قران کی تحدید وتخصیص نہیں ہو سکتی ،، تو اب جہاں ان پراس باب میں قوی اشکالات وارد ہوتے ہیں اور ان کے جوابات وہ نہیں دے پاتے تو وہاں وہ نئی نئی باتیں بنانے لگ جاتے ہیں  جیسے یہاں اس ،، حدیث ،،  کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ،، ذی ناب وذی مخلب ،،  کی حرمت میں وارد ہے اسے جناب نے ،، فطرت کا بیان ،، قرار دیا ہے حالانکہ انبیاء کرام بیانِ فطرت کےلیے نہیں بلکہ بیانِ احکامِ شریعت کے لیے تشریف لاتے ہیں ۔پھر بیانِ فطرت سے اگر آپ یہ مراد لیتے ہیں کہ نہ اس فعل کے ارتکاب سے گناہ ہوتا ہے اور نہ عدمِ ارتکاب سے گناہ ہوتا ہے ،صرف بدنی نقصان ہوتاہے ۔ تویہ قران کی صریح تحریف ہے ۔ اور اگر گناہ وثواب میں شریعت کے بالکل مطابق ہے   تو پھر فرق کیا رہا ؟،، ایک اور مثال سے اس بات کی مزید وضاحت ہوجائے گی ، قران میں سورتِ النور کی آیت ،، الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منھما ماة جلدة (النور 2 ) وارد ہے ۔ علماء کرام اس کو غیرشادی  شدہ افراد کے لیے مانتے ہیں ۔ شادی شدہ کےلیے ،، رجم ،، کی سزا تجویزکرتے ہیں   جیساکہ آحادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کیاگیا ہے ۔ اب  یہ لوگ اگر ،، رجم ،، کی آحادیث کو عام علماء کی طرح شادی شدہ زانی کے لیے بطورِ سزا قراردیتے ہیں   تو پھر ان کا مقرر کردہ وہ قانون ٹوٹ جاتا ہے جس کا ابھی ہم نے تذکرہ اوپر کیا ہے ۔جناب غامدی لکھتے ہیں ،، فقہاء کی  یہ رائے ( کہ آیتِ سورتِ نور کنواروں تک خاص ہے ) اگر درست تسلیم کرلی جائے  تو پھر سورتِ نور کی اس آیتِ مذکورہ کی تاویل میں صرف دوباتیں کہی جاسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ،، الزانیة والزانی ،، سے قران مجید کی مراد صرف کنواری زانیہ اور کنوارا زانی ہیں ۔ قران مجید کے یہ الفاظ شادی شدہ زانیہ اور زانی کو شامل ہی نہیں ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی ،، تبیین ،، فرمائی ہے  اور اس کا وہ مدعا جس پر خودآیت کے الفاظ دلالت کرتے ہیں   اپنے اقوال وافعال سے واضح کیا ہے ۔دوسری یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ مردوعورت کے جرمِ زنا کو اس آیت کے دائرہِ اطلاق سے خارج قرار دیا ہے ۔ اوراس طرح قران مجید کاوہ مفہوم جو اس کے اپنے الفاظ سے ثابت ہے اسے متغیرکردیا ہے ( برھان ص 54) پھر اس کے بعد جناب غامدی نےان دونوں آراء پر تفصیل سے تنقیدی تحریر لکھی  ہے ۔پہلی رائے کے بارے میں لکھا ہے  کہ قران کے طرز واسالیب میں اس کے لیے کوئی گنجائش موجود ہی نہیں ہے ۔ پھردوسری رائے کےمتعلق لکھاہے کہ فقہاء کی رائے کی بھی کوئی گنجائش یہاں نہیں ہے ۔ بلکہ کسی تیسری رائے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے  ۔ ہم نے ان کی اس رائے کی وجہ پہلے اوپر بیان کی ہے  کہ فقھاء کی رائے سے ان بے چاروں کا مذکورہ ،، قاعدہ ،، ٹوٹ جاتاہے ۔ان لوگوں نے پھر اس مشکل کا کیا علاج کیا ہے؟ وہ یہ علاج کیا ہے کہ ،، رجم ،، کو انہوں نے آیتِ محاربہ یعنی سورتِ مائدہ کے تحت رکھا ہے   تاکہ نہ قران کی ،، سورتِ نور ،، والی آیت منسوخ ہو اور نہ مخصوص ہو ۔  اگے جناب غامدی نے روایاتِ رجم کے متعلق تفصیل سے بات لکھی ہے ، پھر ،، رجم کا ماخذ ،، ایک عنوان لگایا ہے  اور اس کے تحت لکھتے ہیں کہ” یہ ہیں وہ روایتیں اورمقدمات جن کی بنیاد پر ہمارے فقہاء قران مجید کے حکم میں تغیر کرتے اور زنا کے مجرموں کے لیے ان کے محض شادی شدہ ہونے کی بناپر رجم کی سزاثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس سارے مواد پر جو تبصرہ ہم نے کیا ہے اس کی روشنی میں پوری دیانت داری کے ساتھ اس کا جائزہ لیجئے ۔ اس سے زیادہ سے زیادہ کوئی بات اگر معلوم ہوتی ہے تو بس یہ ہے   کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین نے زنا کے بعض مجرموں کو رجم اور جلاوطنی کی سزا بھی دی ہے ، لیکن کس قسم کے مجرموں کےلیے یہ سزادی ہے ؟ اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین نے کس طرح کے زانیوں کو یہ سزادی ؟ اس سوال کے جواب میں کوئی حتمی بات ان مقدمات کی رودادوں اوران روایات کی بیاد پر نہیں کہی جا سکتی ( برھان ص 88) جناب غامدی شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ فقہاء کے مسلک کا انھوں نے اس تحریر سے صفایا کیا ہے   مگر سمجھ نہیں سکے کہ اپنا بھی خانہ خراب کیا ہے ۔جب ان روایات اورمقدمات میں سرے سے یہ باتیں مذکور نہیں ہیں کہ کس قسم کے مجرموں کو یہ سزائیں دی گئی ہیں ؟ تو آپ نے کس بنیاد پھر ان سب کو آیتِ محاربہ کے تحت رکھا ہے ؟ کیا انہوں نے اسلامی حکومت سے محاربہ اور اعلانِ جنگ کیا تھا ؟ یاپھرمجرموں نے آپ کے بقول لاء اینڈآرڈر کا مسئلہ اس وقت کی حکومت کے لیے پیدا کیا تھا ؟ کچھ بھی اس حوالے سے موجود نہیں ہے ۔ بالفرض اگر ایک آدمی کے متعلق مان بھی لیں کہ وہ عورتوں کا پیچھا کرتا تھا جیساکہ آپ کے ،، استادامام ،، کاقول ہے   تو اس سے یہ کب معلوم ہوا کہ اس نے ایسی مشکل اس وقت کی حکومت کےلیے  پیداکی تھی کہ جس کو محاربہ کہاجاسکتا ہے ؟ کیا ایسے مسائل پیداکیے بغیر  عورتوں کاپیچھاکرنے والے اس وقت موجود نہیں ہیں ؟ اگر اور یقینا ہیں   تو پھر اس کو ،، محاربہ ،، سے آخر کس طرح تعبیر کیا جاسکتا ہے ؟ پھر ہم جناب غامدی سے کہتے ہیں ،، کہ آپ پہلے یہ مسئلہ عربی لغت اور شرعی نصوص سے ثابت کریں  کہ عادی یا جبری زنا کار کے لیے ،، محاربہ ،، کا لفظ استعمال ہوتا ہے   اور وہ لوگ حقیقتا اس آیت کے مصداق ہیں ؟ حالانکہ سورتِ مائدہ کی آیت 20 سے لیکر آیت 32 تک صرف قتال ومحاربہ ہی کا بیان ہے ۔ درمیان میں ،، زنا ،، کی بات مع الفاظ ،، یحاربون اللہ ورسولہ ،، آخر کس طرح سے آئی ہے ؟ ،،اور جو لوگ فقہاء امت اورمحققین کی اس رائے کی تردید کرنا چاہتے ہیں   ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہ ،، یحاربون اللہ رسولہ ،، والے الفاظ قران وسنت اور عربی لغت سے ،، زنا ،، کے لیے مستعمل ثابت کردیں ۔ اس کے بعد انہیں اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے اتنے زیادہ سیاہی اوراوراق جمع اور استعمال کرنے کی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی ۔ پھر اگر  وہ ایک روایت بھی پیش کریں گے تو ہم ان  کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کےلیے تیار ہونگیں ، ان شاءاللہ ، مگر جب تک وہ ان مقدمات کو ثابت نہیں کریں گے   ان کی تمام تحریریں سب عقلاء کے لیے نقش برآب ثابت ہوجائیں گی

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…