غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 4)

Published On December 12, 2023
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی صاحب آگے اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ  ” دین لاریب انھی دوصورتوں میں ہے ۔ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتاہے ( میزان ص15)”

ہم عرض کرتے ہیں کہ جناب غامدی نے دین کو بہت مختصر کر دیا ہے  کیونکہ جن 25 سنن کو انھوں  نےابراھیمی سنن اور متواتر قرار دیاہے (1) ان میں ماشاء اللہ نمازِجنازہ کا بھی ذکر نہیں ہے اور قران میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے ۔ تو یہ اس خود ساختہ دین سے خارج ہوگیاہے (2) ان مذکورہ سنن میں ڈاڑھی کا بھی ذکرنہیں ہے ۔ اور قران میں بھی اس کے رکھنے کا ذکر نہیں ہے ۔ اگر چہ حدیث میں ہے مگر وہ توجناب کے مطابق دین نہیں ہے لہذا اس سے بھی فارغ ہوگئے ہیں  (3) پردے اورحجاب کا حکم ان 25 سنن میں نہیں ہے ۔ اور قرآن میں جوفرمان موجود ہے وہ بقولِ جناب غامدی امہات المومنین تک خاص ہے ۔ دوسرے مسلمان اس کے مخاطب ہی نہیں ہیں  (4) عورت کی مردوں کے لیے امامت کی ممانعت ان مقررہ 25 سنن میں بھی نہیں ہے اور قران میں  بھی نہیں ہے ۔البتہ ان مذکورہ چیزوں کا ذکر حدیث میں ہے  مگر وہ تو دین ہی نہیں ہے۔ (5) عورت کی حکمرانی کی نفی نہ ان 25 سنن میں ہے اور نہ قران میں ہے  لہذا وہ بھی جائز ہوگئی ہے (6) اختلاطِ مردِ وزن اورایک دوسرے سے مصافحہ وغیرہ کی ممانعت نہ ان 25 سنن میں ہے  اور نہ قران میں ہے  تو وہ بھی جائزہوگئے ہیں (7) عید کی قربانی نہ ان سنن میں بیان ہوئی ہےاورنہ قرآن میں اس کا کوئی ذکر ہے لہذا وہ بھی دین نہیں ہے  ۔ (8)قیام رمضان نہ ان 25 سنن میں موجود ہے اور نہ قران میں اس کا ذکر ہے  لہذا اس سے بھی فارغ ہوگئے ہیں ۔قران میں قیام اللیل کا نبی علیہ السلام کےلیے ذکر ہے (9) نبی علیہ السلام کے میراث کا تقسیم نہ ہونا ، نہ ان مذکورہ 25 سنن میں موجود ہے  اور نہ قرآن میں موجود ہے لہذا تمام صحابہِ کرام نے بالکل غلطی کی ہے جو سیدہ فاطمہ اوران کے آل وعیال کو میراثِ نبی علیہ السلام سے محروم کیاتھا  (10) چار سے زیادہ بیویوں کے نکاح کا منع ہونا نہ ان 25 سنن میں موجود ہے اور نہ قران میں ثابت ہے  اس لئے وہ بلامضایقہ جائز ہیں ۔آیتِ قرانی ،، فانکحوا ماطاب لکم مثنی وثلاث ورباع فان خفتم الاتعدلوا فواحدة ،،( النساء ) میں چار کی حد بندی کی کوئی بات موجود نہیں ہے  (11) پھوپھی اور بھتیجی کونکاح میں جمع کرنے کی ممانعت نہ ان مقررہ 25 سنن میں کوئی بات موجود ہے  اور نہ قران میں ثابت ہے لہذاوہ بھی جائز ہے(12) قبروں پر مساجد بنانے کی ممانعت کا نہ ان مقررہ سنن میں کوئی ذکرہے اونہ قران میں اس کی ممانعت ہے لہذا ان پر مسجد بنانا جائز ہے ۔اگر کوئی شخص کہے کہ احادیث میں اس کا ذکر ہے ، ہم عرض کرینگے کہ جناب غامدی نے صاف لکھا ہے ،، کہ ،، حدیث ،، ان دوصورتوں یعنی سنتِ ابراھیمی اور قران کے علاوہ دین قطعا نہیں ہے ،، آگے بھی ان کی عبارت میں یہ بات آئے گی ۔

یہ چند مثالیں ہم نے بیان کردی ہیں ، جو اس ،، خود ساختہ دین ،، میں موجود ہونی چائیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ چیزیں دین نہیں ہیں توحرام بھی نہیں ہیں ۔پوری تفصیل اب نہیں کرسکتے پھر کبھی سہی ۔ لہذا جولوگ پرانے دین سے بیزار ہیں اور  آزادی چاہتے ہیں   ان لوگوں کے لیے اس ،، خود ساختہ دین ، میں داخل ہونے کا بہترین موقع ہے۔ جناب غامدی آگے لکھتے ہیں کہ ،، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارِآحاد جنھیں بالعموم ،، حدیث ،، کہا جاتاہے ان کے بارے میں یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ ان کی تبلیغ وحفاظت کے لیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑدیا  کہ چاہیں تو انھیں آگے پہنچائیں ، اورچاہیں تو نہ پہنچاہیں ( میزان ص 15) ہم اس حوالے سے چند گزارشات پیش کرتے ہیں  (1) پہلی گذارش یہ ہے کہ جناب غامدی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی ہے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ،لہذا وہ اپنی کسی بات کے لیے دلیل دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔حالانکہ ایسی باتوں کو معقول اورجہان دیدہ لوگ بغیر دلیل کے نہیں مانتے ۔ممکن ہے کچھ نادیدہ نوجوان جناب غامدی کے ان دعاوی پر بغیردلیل کے بھی مطمئن ہوجائیں  مگر اہلِ فکرونظر کاخالی خولی دعوی پر مطمئن کرنا ازبس متعذر ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو کس نے کھا ہے کہ نبی علیہ السلام نے ،، حدیث ،، کے جمع کرنے کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا تھا ؟ یہ بات کیسی ناقابلِ تردید حقیقت بن گئی ہے ؟ یہ بات درحقیقت مستشرقین کی پھیلائی ہوئی ہے ۔  ورنہ محققین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہِ کرام کو آحادیث کا املاء کرانا اور صحابہِ کرام کا اس کو لکھنا درجہِ تواترکو پہنچا ہوا ہے  ۔ڈاکٹر مصطفی اعظمی مرحوم لکھتے ہیں کہ ،، املاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکذالک کتابة الصحابة للاحادیث النبویة التی وصلت درجة التواتر ( دراسا ت فی الحدیث ج1ص 79) اگر اس مسئلہ میں صرف تین آحادیث ہی موجود ہوتیں  تب بھی کوئی مسلمان جناب غامدی کے اس خرافے کو قبول نہیں کرسکتا تھا ۔ کجا کہ بے شمار روایات اس سلسلہ میں الحمدللہ وارد ہیں  جن کا استقصاء حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مدافعین نے بطریقِ احسن کیا ہے ۔ احباب ان کتابوں کی طرف رجوع کریں ۔ ہم صرف تین روایات پیش کرتے ہیں ۔جو درج ذیل ہیں ۔(1) ایک روایت یہ ہے کہ خطبہِ حجةالوداع کے بعد ایک شخص نے صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خطبہ کے لکھنے کا سوال کیا   تو نبی علیہ السلام نے فرمایا ،، اکتبوا لابی شاہ (بخاری) دوسری روایت سیدنا عبداللہ بن عمرو کے متعلق ہے کہ ان کو دیگر صحابہِ کرام نے ہرحدیث کے لکھنے پر ملامت کی کہ نبی علیہ السلام کبھی غصہ میں ہوتے ہیں اور کبھی درست حال میں ہوتے ہیں ۔انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی  تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، اکتب فوالذی نفسی بیدہ ماخرج منی الاحق ( حم) اور تیسری مشہور روایت سیدالحفاظ سیدناابوھریرہ کی چادر والی ہے جس میں ،، دعالہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بالحفظ (بخاری) سیدنا ابوھریرہ فرماتے تھے صرف عبداللہ بن عمروبن العاص مجھ سے زیادہ روایات بیان کرتے تھے کہ وہ لکھتے تھے میں لکھتانہ تھا ،، ۔اسی طرح  دعا والی حدیث ہے اس شخص کے لیے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت کو محفوظ رکھا ،  ، نضر اللہ امرءا سمع مقالتی فوعاھا واداھا کما سمعھا ،، اور حدیث ،،الا لیبلغ الشاھد الغائب ،، یہ ہم نے صرف چند صحیح روایات کا تذکرہ کیا ہے ۔ ورنہ محققین نے اس موضوع پر پوری پوری کتابیں مرتب کی ہیں ۔ کیا(1) احادیث کے حفظ کرنے والے کے لیے مختلف الفاظ میں دعا کرنا  (2) اور مختلف اشخاص کو حدیث لکھنے کا حکم کرنا (3) لوگوں کے سامنے یہ بیان کرنا کہ تم میں سے حاضر لوگ غائب لوگوں کو یہ حدیثیں  پہنچائیں ۔ کیا یہ ترغیب واہتمام نہیں ہے ؟ یہ باتیں ان صحیفوں سے الگ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لکھے گئے تھے ۔ اگر یہ بھی ترغیب واہتمام نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتائے کہ نبی علیہ السلام نے قران کو جمع کرنے کا اس سے زیادہ کیا اہتمام کیا تھا ؟ ہاں مگر اتنی بات یاد رہے کہ جواب میں ،، حدثنا واخبرنا ،، ہم نہیں سنیں گے ۔کیونکہ آپ کایہ ،، خود ساختہ دین ،، ان دولفظوں کا بقولِ شما محتاج نہیں ہے۔ ان اوپر ذکرکردہ روایات کے بعد کیا کوئی شخص بسلامتئ ہوش وحواس یہ دعوی کرسکتاہے کہ ،،  اسے( حدیث) دیکھنے اور سننے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں توانھیں اگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں ،  اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا ( میزان ص15)  مگر اس بزعمِ خویش دانشور صاحب نے یہ دعوی کردیا ہے ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ پھر سیدنا ابوبکرصدیق اور سیدنا عمرِفاروق وغیرھم کے دورمیں صحابہِ کرام سے وہ حدیثیں کیوں تلاش کرتے تھے جو نہ قران کی تفسیر کے تحت آتی تھیں اور نہ آپ کے سننِ مقررہ کے تحت ، مثلا وبا کے مقام میں داخل  ہونا یا اس سے چلا جانا ، اسی طرح اکسال وانزال کا مسئلہ وغیرہ ۔بے شمار دلائل دورِ صحابہِ کرام کے موجود ہیں  جو آپ کے نزدیک دین نہیں ہیں ۔مگر صحابہِ کرام بہت دن تک اس کے لیے انتظار کرتے تھے  کہ کسی شخص کے پاس کوئی حدیث موجود ہو  تو وہ اسے ہمارے سامنے پیش کرے اورہم اس پر عمل کریں۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالاکالا ہے ۔ کمال تویہ ہے کہ انہیں اپنی تحریرات میں تضاد کا بھی احساس نہیں ہوتا اس لیے تو آگے لکھتے ہیں کہ ،، دین کے متعلق جوچیزیں ان ( آحادیث)میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفھیم وتبیین اوراس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے ، حدیث کا دائرہ یہی ہے ، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے ، اورنہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے ( میزان ص15) حدیث کا دائرہ اگر واقعتا یہی ہے  کہ صرف ان پچیس سنت اور قران کا بیان کریں   تب ، میتہ ، دم ، خنزیر ،اور مااھل لغیراللہ کے سوا سب حیوانات آپ کے ،، خود ساختہ دین ،، میں جائز ہونگے کیونکہ آپ کے مقرر کردہ 25 سنن اور قران میں ان چیزوں کی حرمت بیان نہیں ہوئی ۔اور آپ نے دین کو انہی دو میں منحصر کرکے بیان کیاہے لہذا آپ کے اس ،، خود ساختہ دین ،، میں کتا ، گدھا ، گیڈڑ ، بھیڑیا ،  بلی ، درند وچرند سب ہی حلال ہونگے بلکہ ہونے چاہئیں حالانکہ آپ نے کہاتھا کہ گدھا گدھوں کےلیے حلال ہے۔آپ کی اس عظیم فکر سے بعض ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بہت خوشی ہوگی جو دینِ الہی کی مشقت اورمولوی کی قیادت سے دور بھاگتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…