مقرر : مفتی منیر اخون تلخیص : زید حسن سائل : ہمارے ہاں عموما سمجھا جاتا ہے کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور قربِ قیامت تشریف لائیں گے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں ۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں انکے زندہ موجود ہونے کا ثبوت نہیں ہے ۔ مفتی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 7)
وجہِ تخلیقِ کائنات نبیﷺ کی ذات یا عبادت؟
مقرر : مفتی منیر اخون تلخیص : زید حسن سائل : ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وجہ تخلیقِ کائنات ہیں لیکن ایک اسکالر کا کہنا ہے کہ آپ نہیں بلکہ خدا کی عبادت وجہِ تخلیقِ کائنات ہے ۔مفتی منیر اخون : اسکالر صاحب کو مقصد اور علت میں فرق نہ کرنے سے شبہہ ہوا...
ڈاڑھی سنت یا نہیں ؟
مقرر : مفتی منیر اخون تلخیص : زید حسن سائل : ڈاڑھی کے بارے میں غامدی صاحب کہتے ہیں کہ وہ دین کا حصہ نہیں ہے اور انکا استدلال یہ ہے کہ اسکا قرآن میں تذکرہ نہیں ہے ۔ مفتی منیر اخوان : قرآن شرعی قانون کی کتاب ہے جس میں اصول بیان ہوتے ہیں ، جزئیات و فروعات نہیں ۔ وحی صرف...
واقعہ اسری و معراج : غامدی کو جواب
مقرر : مفتی منیر اخوان تلخیص : زید حسن سائل : غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اسری اور معراج کا واقعہ منامی ہے اور بیداری میں حضور ﷺ نے یہ سفر نہیں کیا ۔ اس پر وہ قرآن کے " رؤیا" سے استدلال کرتے ہیں کہ اسکا معنی غیر معروف نہیں ہے اور کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں ہے کہ...
کیا بخاری سو فیصد صحیح ہے ؟ غامدی صاحب کو جواب
مقرر : محمد علی مرزا تلخیص : زید حسن سائل : غامدی صاحب اور انکی پیروی میں قاری حنیف ڈار صاحب بخاری اور مسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جتنے بھی گستاخانِ رسول ہیں وہ انہی کتابوں کی روایات کا حوالہ دیتے ہیں ۔ انہی کتب میں خدا کے جہنم میں پنڈلی ڈالنے ، حضرت عائشہ رض کے...
غامدی ازم کی گمراہی
مقرر : ساحل عدیم تلخیص : زید حسن جب انسان کو اپنا آپ پورا حوالہ کرنے کا کہا جاتا ہے تو وہ اسکے لئے مشکل کام ہوتا ہے جبکہ نبیوں کی دعوت یہی تھی ۔ غامدی ازم کی طرف کوگوں کا شدت سے میلان اسی وجہ سے ہے کیونکہ ڈاکٹر اسرار صاحب کے بالکل برعکس انکی دعوت اجتماعی جد و...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی نے قرآن مجید کے متعلق بھی مختصر سی بحث کی ہے ۔جس پر بہت کچھ کہنے کے لیے موجود ہے مگر ہم اس کی تفصیل کرنے سے بقصدِ اختصار اعراض کرتے ہیں ۔ جناب نے قرآن کے اوصاف میں ایک وصف ،، فرقان ،، ذکر کیاہے ۔اور دوسرا وصف ،، میزان ،، ذکرکیاہے ۔پھراس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں یوں لکھتے ہیں کہ ،، اس آیت میں ،، والمیزان ،، سے پہلے ، و ، تفسیر کےلیے ہے ۔اس طرح ،المیزان ، درحقیقت یہاں الکتاب ہی کا بیان ہے ۔آیت کا مدعی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حق وباطل میں امتیاز کے لیے قران اتاراہے جو دراصل ایک میزانِ عدل ہے ۔اور اس لیے اتاراہے کہ ہرشخص اس پر تول کردیکھ سکے کہ کیا چیز حق ہے اور کیاباطل ۔چنانچہ تولنے کےلیے یہی ہے ۔اس دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر اسے تولا جاسکے ( تبرک الذی نزّل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا ،، الفرقان 1،،) بڑی ہی بابرکت ہے وہ ہستی جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اتارہے۔اس لیے کہ وہ دنیاوالوں کےلیے نذیرہے ۔یہ ،، الفرقان ،، بھی اس مفہوم میں ہے ، یعنی ایک ایسی کتاب جو حق وباطل میں امتیاز کے لیے حجتِ قاطع ہے ( میزان ص 24) جناب غامدی نے اس طویل عبارت میں تین باتیں کہی ہیں۔ لیکن تیسری بات کو آگے جاکرکھول دیا ہے (1) ایک بات یہ کہی ہے کہ قرآن حق وباطل کے پہچاننے اور الگ الگ کرنے میں معیار ہے ۔ہم اس حوالے سے صرف اتنی بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ،، میزان ،، کسی چیز کو تب قرار دیا جاسکتاہے جب وہ ترازو کی طرح چیزوں میں ایسا فرق بتاسکے جو خواص توچھوڑئیے عوام بھی اس کے قائل ہوجائیں ۔جناب غامدی نے بعد میں اپنی بات کی مزید وضاحت کی ہے ،، کہ اشعری وماتریدی ، جنید وشبلی ، ابوحنیفہ وشافعی ، سب کے افکار کو اسی ،، میزان ،، پر تولاجائے گا ۔ہم گذارش کرتے ہیں کہ آپ چونکہ قرآن کو ،، میزان ،، قرار دیتے ہیں ، درست ہے مگر اب اس ،، میزان ،، پر ذرا یہ فیصلہ کرکے بتادیں کہ صفاتِ الہی سات ہیں یا آٹھ ؟ یا پھر زیادہ ہیں ؟ اور وہ صفات پھر صرف نفسیہ وذاتیہ ہیں یا پھر خبریہ بھی اس میں شامل ہیں ؟ رؤ یتِ باری تعالی بروزِ قیامت ہوگی یانہیں ہوگی؟ کلام لفظی یعنی حرف وصوت ہے یاپھر محض نفسی ہے ؟ پھر مخلوق ہے یاغیر مخلوق ؟ مسلسل گناہ کرنے والے کے لیے ابدی جھنم ہے یا پھر عارضی طورپر ؟ شراللہ تعالی کا مخلوق ہے یا نہیں ہے ؟ بندے اپنے افعال کے خالق ہیں یانہیں ہیں ؟ بندہ مختار ہے یامجبور ہے ؟ اگر مختار ہے تو کس حدتک مختار ہے ؟ آپ چونکہ اس ،، میزان ،، کے اس وقت سب سے بڑے عالم اپنے حلقے میں سمجھے جاتے ہیں لہذا کچھ وقت ان مسائل کے لیے وقف کردیں کہ مختلف فرقے تاریخ میں انھی مسائل کی بناپر بنے ہیں ۔آپ جب اس گھتی کو سلجھائیں گے تو امت کو اتفاق واتحاد نصیب ہوجائے گا ۔ہاں مگر اپنی عادتِ مالوفہ کے مطابق ان مسائل سے جان چھڑانے کےلیے انھیں متکلمین کے بکھیڑے نہ قرار دیں (2) دوسری بات یہ کہی ہے کہ “آیت کا مدعی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حق وباطل کے امتیاز کے لیے قرآن اتاراہے جو دراصل ایک میزانِ عدل ہے ۔ اور اس لیے اتارا ہے کہ ہرشخص اس پر تول کر دیکھ سکے کہ کیاچیز حق ہے اور کیا باطل “۔سوال یہ ہے کہ کیاہرآدمی کے بس میں یہ ہے کہ قران پر لوگوں کے افکار کو تول کر حق وباطل کو معلوم وممیزکرسکے ؟ اس وقت دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہونگے جو اس ،، میزان ،، پر مختلف افکارو نظریات کوتول کر ان کے حق وباطل کو الگ الگ کرسکتے ہیں؟ ہمارے نزدیک تو آپ کی عظیم علمی شخصیت بھی اس فھرست میں شامل نہیں ہے ۔ تو جب صورتِحال ایسی ہے تو آپ کا ،، ہر شخص ،، کو اس ،، میزان ،، کا ماہر قرار دینے کی کیاحیثیت رہ جاتی ہے ؟ معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی جوشِ تحریر میں خطیبوں کی طرح زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ۔اور آپ کے مقلدین آپ کو سمجھانے بجھانے کےبجائے آپ کے ہرہرحرف پرواہ واہ کے ڈونگرے برساتے ہیں ۔امتِ مسلمہ میں کس قدوکاٹھ کے دانشورہوگذرے ہیں وہ بھی اس معرکہ کو سرنہیں کرسکے تو ہمارے زمانے کا ،، ہرشخص ، کیسے اس گھاٹی کو پار کر سکے گا ؟ ہماری اس بات کا اعتراف جناب غامدی کے ،، استاد امام ،، نے بھی اپنی تفسیر میں کیا ہے کہ ،، ہرشخص جانتاہے کہ اس ملتِ مسلمہ کی شیرازہ بندی قرآن مجید کی حبل اللہ المتین ہی کے ذریعے ہوئی ہے اور تمام مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سب مل کر اس رسی کو مضبوطی سے پکڑیں اور متفرق نہ ہوں ۔اس ہدایت کا یہ فطری تقاضا ہے کہ ہمارے درمیان جتنے بھی اختلافات پیداہوں ہم ان کے فیصلے کےلیے رجوع قرآن کی طرف کریں لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ خود قرآن کے بارے میں ہماری رائیں متفق نہیں ہیں ۔ ایک ایک آیت کی تاویل میں نہ جانے کتنے اقوال ہیں اور ان اقوال میں سے اکثر ایک دوسرے کے متناقض ہیں ۔ لیکن کوئی چیز ہمارے پاس ایسی نہیں ہے جو یہ فیصلہ کرسکے کہ ان میں سے کون ساقول حق ہے ؟ کسی کلام کی تاویل میں اختلاف واقع ہو تو اس اختلاف کو رفع کرنے کے لیے سب سے اطمینان بخش چیز اس کا سیاق وسباق اور نظام ہی ہوسکتاہے ۔لیکن قرآن کے معاملے یہ مصیبت ہے کہ لوگ اس کے اندر کسی نظام کے قائل ہی نہیں ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ہاں جواختلاف بھی پیدا ہوا اس نے اپنا مستقل علم گاڑدیا ( تدبرِقران ج1ص 22) جنابِ غامدی نے قران کے ،، میزان ،، اور ،، فرقان ،، ماننے کو اختلافات کاحل بتایا تھا اوران کے ،، استادامام ،، نظامِ ربط بین الآیات والسور کو اس کاحل بتارہے ہیں ایسے ہی موقع پرشاعرنے کہاہوگا کہ کس کایقین کیجیے کس کایقین نہ کیجیے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یارخبر الگ الگ
ہمارے نزدیک امت کے درمیان اختلاف کاحل نہ شاگردِرشید کے قول میں ہے اور نہ ہی ،، استادامام ،، کے قول میں ۔بلکہ قرآن وسنت کی طرف کلی رجوع کرنے میں ہے جیساکہ قران مجید میں وارد ہے کہ ،(فان تنازعتم فی شئ فردوہ الی اللہ والرسول ) باقی رہی نظام والی بات تو اس میں ضروری نہیں ہے کہ صرف عبدالحمید فراہی کانظام ہی آخری ہو ۔اس کے اور بھی بہت سارے طریقے وضع ہوتے ہیں اور ہو سکتے ہیں ۔ایک تنویری مثال دیکھو ،، الکافیہ ،، جو ابن الحاجب مالکی کی نحو میں مختصر سی کتاب ہے ۔عام لوگ اسے نحو ہی سمجھتے ہیں ۔مگر میر عبدا لواحد بلگرامی نے اسے تصوف کی کتاب قراردے کر اس کی تشریح کی ہے ۔بالکل اسی طرح نظام کے ایجاد کا مسئلہ بھی ہے ، وہ مختلف ہوسکتے ہیں ۔بلکہ اپنے بعض محترم احباب نے توقرآن کے لیے فراہی کے نظام سے بالکل الگ نظام کا ایجاد کیا ہے ۔ اورپوری کتاب چھاپی ہے اگرچہ بعض مقامات میں ان سے توافق یاتوارد بھی ہواہے ۔پس جب صورتِحال یہ ہو ، تو اس سے اختلافات کس طرح مٹ سکتے ہیں ؟ حلِ نزاع کا ایک ہی طریقہ ہے جوقرآن نے بتایا ہے اورجس کی صراحت ہم نے اوپر کردی ہے ۔ صرف قرآن یانظامِ قران کو نزاع کاحل بتانا اس قران کے ذکرکردہ نص کے خلاف ہے جو بقولِ جناب غامدی ،، میزان ،، ہے ،۔ جناب غامدی آگے لکھتے ہیں کہ ،، یہاں بھی وہی بیان کرنا پیشِ نظر ہے کہ ہرمعاملے میں یہی کتاب قولِ فیصل اور یہی صحیفہ معیارہے ۔تمام اختلافات میں یہی مرجع قرار پائے گی ، اس پرکوئی چیز حاکم نہیں ہوسکتی بلکہ علم وہدایت کے قلم رومیں ہرجگہ اسی کی حکومت ہوگی ، اورہر شخص پابند ہے کہ اس پرکسی چیز کو مقدم نہ ٹھہرائے ( وانزلنا الیک الکتب بالحق مصدقا لمابین یدیہ من الکتب ومھیمنا علیہ فاحکم بینھم بماانزل اللہ ولاتتبع اھواء ھم عماجاءک من الحق ،،المایدہ 48 ،،) ،، اور اے پیغمبر ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے ، اس کتاب کی تصدیق میں جو اس سے پہلے موجود ہے ،اور اس کےلیے مھیمن بناکر ،اس لیے تم ان کے درمیان اس ہدایت کے مطابق فیصلہ کرو جواللہ نے نازل کی ہے ،اور اس حق کو چھوڑ کر جوتمہارے پاس آچکاہے ، ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو ،، یہ وہ تیسری بات ہے جس کاہم نے اوپر ذکرکیاتھا ۔ اس بےجا استدلال کی حقیقت ہم اگے واضح کرینگے ان شاءاللہ
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط چہارم )
سید خالد جامعی ایک سائل نے ایک عالم سے پوچھا ’’جو شخص بحالت احرام شکار...
ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط پنجم )
سید خالد جامعی عصر حاضر کا مسئلہ یہ ہے کہ فقہا، متکلمین واعظین علماء نے...
ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )
سید خالد جامعی ایک سائل نے ایک عالم سے پوچھا ’’جو شخص بحالت احرام شکار...