غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 86)

Published On August 5, 2024
غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كی مستند احادیث كى بنا پر علماے امت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے،  كتب ِاحاديث اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ،  ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدوں کیخلاف...

قرآن اور غامدی صاحب

قرآن اور غامدی صاحب

ایک تحریر میں ہم غامدی صاحب کی قرآن کی معنوی تحریف کی چند مثالیں پیش کرچکے مزید ایک تشریح ملاحظہ فرمائیں۔غامدى صاحب 'اسلام كے حدود و تعزيرات' پر خامہ سرائى كرتے ہوئے لكھتے ہيں: "موت كى سزا قرآن كى رو سے قتل اور فساد فى الارض كے سوا كسى جرم ميں نہيں دى جاسكتى- اللہ...

رجم کی حد اور غامدی صاحب

رجم کی حد اور غامدی صاحب

اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے  اس پر دس سے زائد صحیح احادیث موجود ہیں  جن سے  واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ ۔ غامدی صاحب اسکے انکاری ہیں ۔ وہ...

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔ جمعے کی نماز کی عدمِ فرضیت پر جناب کا استدلال ہے کہ مسلم ریاست میں خطبہ سربراہِ ریاست یا اسکے حکم سے اسکے نمائندے کا حق...

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے عورت کی امامت کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ اور دلیل یہ ہے کہ ایسی باقاعدہ ممانعت کہیں بھی نہیں ہے کہ عورت امام نہیں بن سکتی ۔ لیکن ایسا استدلال درست نہیں ہے ۔ ہم انہیں اجماعِ امت سے منع کریں گے کہ صحابہ میں ایسا کبھی...

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن اول - جاوید احمد غامدی نے رجم کا انکار کیا ہے ۔ رجم کا مطلب ہے کہ شادی شدہ افراد زنا کریں تو انہیں سنگسار کیا جائے گا ۔انکا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں زنا کی سزا رجم نہیں ہے بلکہ کوڑے ہیں ۔ " الزانیۃ الزانی فالجلدوا کل...

مولانا واصل واسطی

اب دوسری مستثنی صورت کو دیکھتے ہیں: جناب غامدی لکھتے ہیں” دوم یہ کہ کسی معاشرے میں اگرقحبہ عورتیں ہوں توان سے نمٹنے کے لیے قران مجید کی روسے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں ۔ جو اس بات پر گواہی دیں کہ فلان عورت فی الواقع زنا کی عادی ایک قحبہ عورت ہے ۔ وہ اگرعدالت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم اسے قحبہ کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ اور عدالت نقد وجرح کے بعد ان کی گواہی پرمطمئن ہوجاتی ہے تو وہ اس عورت کو سزادے سکتی ہے ۔اللہ کاارشاد ہے” والتی یاتین الفاحشة من نساءکم فاستشہدوا علیہن اربعة منکم فان شہدوا فامسکوہن فی البیوت حتی یتوفہن الموت اویجعل اللہ لہن سبیلا” ( النساء 15) یعنی “اورتمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں ۔ ان پر اپنے اندر سے چارگواہ طلب کرو ۔ پھراگروہ گواہی دے دیں ۔ توان کو گھروں میں بندکرو یہاں تک کہ موت انہیں لےجائے یاللہ ان کے لیے کوئی راہ نکال دے ” ان دومستثنیات کے سوا اسلامی شریعت ثبوتِ جرم  کےلیے عدالت کو ہرگز کسی خاص طریقے کاپابند نہیں کرتی ۔ ( البرہان ص 27) اس عبارت سے ہمارادعوی  تو ثابت ہوگیا کہ قران مجید نے کسی فیصلے کے ثبوت کے لیے بھی تواتر کو شرط نہیں قرار دیا ۔ تو یہ لوگ سنت کے ثبوت کے لیے تواتر کی شرط کو کہاں سے لےکرآگئے ہیں ؟ اس بات کےلیے شرعی ثبوت ودلیل فراہم کرنا ان کے ذمہ لازم ہے ۔ اب جناب غامدی کی اس عبارت کا دوسری جہت سے جائزہ لیتے ہیں ۔ جناب نے جو بات اوپر لکھی ہے وہ اپنی تفسیر میں بھی ایک اورانداز سے لکھی ہے کہ یہ آیت قحبہ عورتوں سے متعلق ہے ۔ اصل الفاظ جناب کے  ہیں” والتی یاتین الفاحشة ۔ ان میں ۔ الفاحشہ ۔ سے مراد زنا ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ اس معنی کےلیے معروف ہے ۔ اس کے ساتھ  جو فعل اس جملے میں آیا ہے   وہ بیانِ مداومت کے لیے ہے ۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیاہے ۔ اس سے واضح ہے کہ یہ قحبہ عورتوں کا ذکر ہے ۔ اس صورت میں اصل مسئلہ چونکہ عورت ہی کا ہوتا ہے اس لیے مرد زیرِبحث نہیں آئے ( البیان ج1 ص 462)  ہم اس تحقیق کے حوالے سے چند باتیں  احباب کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔(1) پہلی بات یہ ہے کہ سورہِ النساء مدنی سورت ہے ۔ مدینہ میں اسلامی حکومت کو قائم ہوئے چار پانچ سال ہوچکے تھے ۔ اس دور کے متعلق قحبہ گری کی عادی عورتوں کے وجود کو ثابت کرنے کےلیے دلیل وبرہان درکارہے ۔ محض کسی فعل   کوبلاقرینہ مداومت کے معنی میں لے لینے سے ان جیسی چیزوں کا اثبات نہیں ہوتا  ۔ پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ قحبہ گری کی عادی عورتوں کے لیے چارگواہ مطلوب ہوں ؟ خود جناب غامدی کی عبارت پہلے گذرچکی ہے کہ معاشرے میں شریف اور عرفی حیثت سے مسلمہ شخصیت کے متعلق چارگواہ ضروری ہیں ۔ تو کیا آپ لوگوں کے نزدیک قران قحبہ عورتوں اورمسلمہ شخصیات کے حدود میں فرق نہیں کرتا  ؟ اگر کرتا ہے توکہاں کرتا ہے ؟ جبکہ دونوں کے لیے چارگواہوں کا ہوناضروری ہے ؟ اور جب بات ایسی ہے تو پھر آپ نے اس کو الگ الگ کیوں بیان کیا ہے ؟ یہ کہتے کہ جو عورتوں پر ( چاہے وہ صالح ہو یاطالح ) الزام لگاتا ہے   اس کو چار گواہ لانے ضروری ہوں گے  ۔ کیونکہ آپ کے ہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے ۔ اگر کوئی شخص ہمارے جواب میں کہے کہ وہاں الزام لگانے والے کو کوڑے لگائے جاتے ہیں ۔ یہاں کوڑوں کا کوئی ذکر نہیں ہے تو یہ فرق ہے ۔ ہم جوابا عرض کریں گے کہ وہاں الزام لگانے کا مبحث ہے اس لیے وہ بات موجود ہے ۔ یہاں وہ مبحث نہیں ہے ۔ گواہوں کی تعداد میں کوئی فرق بہرحال دونوں کے درمیان موجود نہیں ہے ۔ (2)  دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مسئلے  کوثابت کرنے اور اپنی بات کی پچ رکھنے کےلیے قران کے ادبیات کابھی کچھ خیال نہیں کیا ہے ۔ اگر یہ آیت قحبہ عورتوں سے متعلق ہے تو خطاب تو صحابہِ کرام سے ہے ۔ کیا یہ تصوربھی کیاجاسکتاہے کہ ان کی عورتیں قحبہ گری میں اسلام کے مدینہ میں چارپانچ سال آنے کے بعد بھی مبتلا رہی ہوں گی ؟ این خیال است ومحال است وجنون ۔ قران مجید نے اسی سورہِ نساء میں جگہ جگہ ” من النساء ” کالفظ استعمال کیا ہے ۔ مثلا آیت 3 میں ہے ” فانکحوا ماطاب لکم من النساء ” اورآیت 22 میں ہے ” ولاتنکحوا مانکح اباؤکم من النساء “آیت 24 میں ہے” والمحصنت من النساء ”  تو کیا اس مبحوث فیہا آیت میں اس طرح نہیں کہاجاسکتا تھا کہ ” والتی یاتین الفاحشة من النساء ” ؟ اگر کہاجاسکتا تھا   تو کیوں اللہ تعالی نے ایسا نہیں کہا ؟ جبکہ اس لفظ ” من نساءکم ” سے صحابہِ کرام کی بھی بے عزتی ہوتی تھی ؟ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کا قحبہ عورتوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔  مفسرین نے عام طور پر اسے زناکار عورتوں سے متعلق کیا ہے۔ قحبہ گری کی عادی عورتوں سے نہیں ۔ (3) تیسری بات یہ ہے کہ” فامسکوہن فی البیوت ” کا خطاب کن لوگوں سے ہے ؟ کیا ان گواہوں سے جنہوں نے عورت کے قحبہ ہونے پر گواہی دی ہے ؟ یاان زانیوں سے ہے جنہوں نے اس عورت سے زنا کرکے مستعمل کیا تھا یا پھر ان کے خاوندوں سے ہے ۔ جن کا ذکر “من نساءکم ” میں آیاہے ؟  پہلی دوصورتیں عقلِ عام ہرگز قبول نہیں کرتی   ۔ تو لازما تیسرا مفہوم لیاجائے گا ۔ اگر تیسرا مفہوم ہم لیتے ہیں  تو مسائل سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم نے ” فامسکوا” سے خاوندمرادلیے ہیں تو پھر یہ گھرانے اور یہ لوگ انتہا درجے کے مغفل لوگ ہیں جن کو اس بات کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ ہماری عورتیں کہاں اورکدھر جاتی ہیں اوروہاں کیاکرتی ہیں ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یا پھر یہ ایسے گھرانے اور ایسے لوگ ہیں جواپنے عورتوں کے زنا کاری اورقحبہ گری کو بے حیائی اور برائی ہی نہیں جانتے ۔ ہم صحابہِ کرام کو ان دونوں عیوب سے الحمدللہ پاک جانتے ہیں ۔ بلکہ جناب غامدی بھی ان کو عموما ایسے عیوب سے پاک مانتے ہیں  مگر کیا کریں  بچارے کہ اپنے مذہب کو ثابت کرنا ان کے گلے میں پڑگیاہے ۔ ورنہ دیکھو کہ انہوں  نے بخاری میں رجم سے متعلق ” حدیثِ عسیف” پر تنقید کی ضمن میں کیا لکھا ہے ؟ لکھا ہے کہ ” اس مقدمہ کی یہ روداد بھی   اگر غور کیجئے تو نہایت مبہم ہے ۔ یہ کون غیور عرب تھے جس نے بیوی کی گردن ماردینے کا یا کم ازکم اسے علحیدہ کردینے کے بجائے اس کی عصمت کا سودا ایک لونڈی اورسو بکریوں میں چکا دیا ؟ کیا یہ فی الواقع شرفا کا کوئی گھرانا تھا یااس کی روایت یہی تھی کہ پہلے کسی شخص کو پھانسا جائے اور پھرآبرو کی قیمت لے کر معاملہ ختم کردیاجائے ” ( البرہان ص 78)  دیکھا کہ جناب غامدی نے اس حدیث کوصحابہِ کرام کی عزت کی خاطر رد کیا تھا ۔ اقبال نے کیاخوب کہا تھا کہ

تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کاضمیر

فی الحقیقت ہمارے نزدیک وہ پہلی تنقید بھی غلط تھی اور یہ دوسری تحقیق بھی غلط ہے ۔ پہلی تنقید میں بھی جناب غامدی کا مقصد صحابہِ کرام کا دفاع ہرگز نہ تھا بلکہ حدیث کورد کرنا اوراپنے مذہب کادفاع کرنا ان کامقصود تھا۔ یہ آیت عام مسلمان عورتوں کے متعلق ہے کہ اگر ان سے زنا جیسا برا فعل سرزد ہوجائے   تو انہیں گھروں میں بند رکھو ۔ اور غلطیاں تو انسانوں سے ہو ہی جاتی ہیں یہ کوئی توہین کی بات نہیں ہے ۔(2) دوسری بات جناب غامدی کی اصل عبارت کے حوالے سے   جوابتدائے مبحث میں موجود ہے ، یہ ہے کہ جناب غامدی نے لکھا ہے کہ ” دوم یہ کہ سنت قران کے بعد نہیں بلکہ قران سے مقدم ہے ۔ اس لیے وہ لازما اس کے حاملین کے اجماع وتواتر سے اخذ کی جائے گی ( میزان ص 47)

اب اس عبارت سے اگر ہم ظاہری مطلب لیں کہ سنت قران سے مقدم ہے ۔ تواس کاصاف مفہوم یہ ہوگا کہ جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اورنبوت سے قبل کی بات کررہے ہیں کیونکہ یہ بات تو تواتر کی طرح امت میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی” سورت القلم کی ” اقراء ” کے الفاظ میں نازل ہوئی تھی ۔ اوراگر جناب غامدی جواب میں کہیں کہ میرے نزدیک تو سورہِ النجم پہلی وحی ہے ۔ تو ہم   جواب میں کہیں گے کہ ” ابی یابی شاذ ”  اور شاذ کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ۔ اوراگر ہم یہ بات تسلیم کرلیں کہ وہ بعثت سے پہلے کی بات کررہے ہیں   تو دوسری جگہ جناب نے خود لکھاہے کہ سنت وہ ہے جو پیغمبر سے شروع ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیغمبرتوبعثت کے بعد کوئی بنتا ہے لہذا سنت سے قران مقدم ہوگا ۔ وہ عبارت جناب کی دیکھ لیتے ہیں ۔مبادئ سنت میں لکھتے ہیں “تیسرااصول یہ ہے کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہوسکتیں جن کی ابتدا پیغمبر کے بجائے قران سے ہوئی ہے ( میزان ص 58) اس کا واضح معنی یہ ہوا کہ سنت کی ابتدا پیغمبر سے ہوتی ہے ۔ اور پیغمبر وحی سے پہلے تو پیغمبر نہیں ہوتا ۔ بہرحال  ایک معما ہے سمجھنے نہ سمجھانے کا ۔ ہم ادھر اس عبارت سے یہ مفہوم لیتے ہیں   کہ سنت متقدم اورقبل از قران ہے ۔ مگر اس سے مراد پھر سنتِ ابراہیمی ہو سکتی ہے ۔ گویا جناب غامدی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعثت ونبوت سے قبل سنتِ ابراہیمی کے پیرو تھے ۔ اب اگراس عبارت کایہی  مفہوم ہے تو پھرہمارے دو سوالات ہے ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نبوت اوربعثت سے قبل سنتِ سیدنا ابراہیم کی پیروی کرتے تھے ۔ اس وقت تک تو انہیں وحی کی تایئد حاصل نہیں تھی ۔  اس کو ہمارے لیے سنت سے کس طرح تعبیر کیاجاسکتاہے ؟ زیادہ سے زیادہ اسے  حسنہ اوراچھائی کانام دیاجاسکتا ہے ۔ سنت وحی کی تایید کے بغیر کیسے بن گئی؟ کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبل ازنبوت اور ہم سب مسلمان سیدنابراہیم علیہ السلام کی شریعت پر تو عمل کے مکلف نہ تھے۔ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں  انہیں اس بات کی دلیل پیش کرنی چاہئے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت وبعثت سےقبل سیدنا ابراہیم کی کسی سنت کی پیروی کرتے تھے   تو اس میں تواتراوراجماع آپ شرط مانتے ہیں یا نہیں ؟ اگر شرط ہے تو آپ کو یہ سارے افعال سیدنا ابراہیم علیہ السلام  سےبتواترثابت کرنے ہوں گے ۔اوراگر شرط نہیں ہے تو اس فرق کی وجہ بتادیں؟ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت اوربعثت سے قبل تو عام آدمی کی طرح تھے ۔ ان کے لیے بھی ادلہ وبراہین کی ضرورت تھی جو اس وقت ہمیں ہے ۔ اگرکہتے ہیں کہ ان روایات کو بعد میں وحی کی تایید حاصل ہوگئی ہے ۔ تو ہماراجواب یہ ہے کہ پھروہ اعمال وافعال تو بعد ازنبوت وبعثت حجت ہوگئے ہیں ۔ تو پھر قبلِ نبوت وبعثت کیسے سنت ہوگئے تھے ؟ 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…