غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 89)

Published On August 5, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

مولانا واصل واسطی

آگے جناب ماسبق منزل کتابوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ ” سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ۔ یہود ونصاری کی تاریخ ۔ انبیاء بنی اسرائیل کی سرگذشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قران کے اسالیب واشارات کو سمجھنے اور اس کی اجمال کی تفصیل کےلیے قدیم صحیفے ہی ماخذ ہونگے ۔ بحث وتنقید کی ساری بنیاد انہی پر رکھی جائے گی ۔ اس باب میں جو روایتیں تفسیر کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔ اور زیادہ ترسنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں ۔،انہیں ہرگز قابلِ التفات نہ سمجھاجائے گا ۔ ان موضوعات پرجو روشنی قدیم صحفیوں سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور قران کے الفاظ جس طرح ان کی تفصیلات کو قبول کرتے یاان میں بیان کردہ کسی چیز سے متعلق حقائق کو  واضح کرتے ہیں ۔ اس کا بدل یہ روایتیں ہرگز نہیں ہو سکتیں جن سے نہ قران کے کسی طالب علم کے دل میں کوئی اطمینان پیدا ہوتا ہے ۔اورنہ اہل کتاب ہی پر وہ کسی پہلو سے حجت قرار پاسکتی ہیں ( میزان ص 47)

 ہم اس عبارت کے حوالے سے چند باتیں احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں  (1) پہلی بات یہ ہےکہ ہمارے نزدیک جناب غامدی کی یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے کہ پرانی منزل کتابوں اور صحیفوں کے نام سے جو محرف مجموعے اورکتابیں اس وقت دنیا میں موجود ہیں   وہ ہمارے لیے تفسیرِ قران کے باب میں “اصل ماخذ ” ہونگے  ۔ ہمارے نزدیک چار مجبوریوں میں سے ایک ہو   تب ان سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ایک وجہ ان چار وجوہات میں سے یہ ہے   کہ اگر قران نے کوئی بات ایسی بیان فرمائی ہے کہ میں نے مثلا فلان فلان احکام بنی اسرائیل پر بھی نازل کئے تھے ۔ تو اس وقت ان کتابوں میں اس بات کو تلاش کرنا ۔ اور قران کی تفسیر میں اس کو لانا اورذکر کرنا عام انسانوں کے لیے باعثِ اطمینان ہوتا ہے ۔ اس لیے اس بات میں کوئی حرج موجود نہیں ہے ۔ دوسری وجہ ان وجوہات میں سے یہ ہے کہ اگر قران مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بتایا ہے کہ ان کی فلان فلان نشانیاں میں نے پرانی کتابوں میں ذکر کی تھیں ۔ اور یہ رسول ان نشانیوں کے مصداق ہیں ۔ تو تب بھی ان کتابوں میں ان نشانیوں کو تلاش کرنا اور قران کی تفسیر میں ان کو ذکرکرنا  اطمینان کاباعث ہے ۔ لہذا اس کام میں بھی کوئی حرج موجود نہیں ہے ۔ تیسری وجہ ان وجوہات میں سے یہ ہے کہ اگر قران مجید یہ بتارہا ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں تحریفات کیے تھے اوران میں نازل شدہ احکام کو بدل دیا تھا   تو اس باب میں بھی ان کتابوں سے استفادہ ممنوع نہیں ہے ۔ مگر اس بات کوثابت کرنےکے لیے بہت محنت کرنی ہوگی ۔ جو عام طور سے لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہوتا ۔ ہاں ڈاکٹر ذاکر نائک ۔ شیخ احمد دیدات ۔ اورمولانا کیرانوی وغیرہ کی طرح کوئی شخص اس کام کےلیے زندگی وقف کردے  تو پھر اس کام کو کرنا مشکل نہیں ہے ۔ چوتھی وجہ ان وجوہات میں سے یہ ہے  کہ قران کے بعض قصص واشارات پورے تفصیل سے سمجھ نہ آرہے ہوں   تب بھی ان کتابوں سے استفادہ کرنا ممنوع نہیں ہے مگر یہ اخری بات اضعف الوجوہ ہیں ۔ کیونکہ اس طرح اشارات کا وجود قران مجید میں اگر معدوم نہیں ہے   تو قلیل ضرور ہے ۔ اس لیے ہم نے  تفصیل   کے لفظ کو اس غرض کے لیے رکھا ہے۔ اس کے سوا کوئی صورت قران کی تفسیر میں ہمیں ایسی نہیں معلوم جس میں ان محرف کتابوں کی ضرورت پڑتی ہو ۔ تاریخِ انبیاء ورسل کے حوالے سے جتنے خرافات ومکذوبات ان کتابوں موجود ہیں   شاید دنیا کی کسی کتاب میں موجود ہوں ۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان باقی چیزوں میں ان کتابوں سے استفادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارے مفسرین میں سے جو لوگ پرانے صحیفوں کے دلدادہ ہیں وہ اس بات کا بھی خیال نہیں رکھ پاتے کہ کہاں کہاں بائبل کی عبارتوں سے ان یہود ونصاری کے سازشی فکر کی تایید ہوتی ہے ؟ بس وہ بائبل کو سامنے رکھ کر بیٹھ گئے اور  جہاں بھی انہیں کچھ مشابہت نظر آئی اسے نقل کرتے گئے ۔ اب بطورِمثال” جبارین “کالفظ دیکھ لیں ۔ جو سورہِ المایدہ (22) میں وارد ہے “ان فیہا قوما جبارین ” اس کامطلب طاقتور اور قدآور دونوں ہوسکتے ہیں ۔ بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو معذور ثابت کرنے کےلیے ان کی جباریت کا عجیب نقشہ کھینچا ہے۔ اس نقشے سے ان کا مقصود  صرف یہ تھا کہ لوگ ہمیں پست ہمت نہیں بلکہ معذورسمجھیں  مگر ہمارے مفسرین نے اس قول کو بھی بائبل سے نقل کیا ہے۔ یہ بھی نہیں جان سکے کہ اس بات سے بنی اسرائیل کاکیامقصود ہے؟ دیکھئے جناب غامدی کے  استاد امام   تورات سے ایک عبارت نقل کرتے ہیں کہ ” وہ ملک جس کاحال دریافت کرنے کو ہم اس میں سے گذرے ایک ایسا ملک ہے جواپنے باشندوں کوکھا جاتاہے ۔اور وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے ہیں وہ سب قدآورہیں اوروہاں ہم نے بنی عناق کوبھی دیکھا جو جبارہیں ۔ اورجباروں کی نسل سے ہیں اورہم تواپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے  ہوتے ہیں ۔ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے ( تدبرِ قران ج2 ص 488) بعض لوگوں نے تو یہ بھی نقل کیا ہے کہ ایک آدمی ان لوگوں کو ہاتھ میں اٹھاکر اپنے گھربیویوں کودکھانے لےگیا  کہ یہ دیکھو ہم سے لڑنے آئے ہیں ۔ اب جب اتنے بڑے لوگوں سے ہم جیسوں کو لڑنے کاحکم کیاجائے گا   یاٹدوں کو جب کوئی ہاتھی سے لڑنے کاحکم دے گا   توٹدے عذر پیش کرنے میں بالکل حق بجانب ہونگے ۔ انہیں کوئی ملامت نہیں کریں گے ۔ ان لوگوں کا اس بات کو گھڑنے سے مقصود اپنی پست ہمتی پر پردہ ڈالنا تھا مگر ہمارے لوگوں نے اس کو بھی نقل کردیا ہے ۔ انا للہ وناالیہ راجعون ۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ خود جناب غامدی  نے اس کے خلاف کیا ہے ۔ دیکھو قران میں سیدنا آدم اورحوا کو ایک شجرہ کے پھل کو کھانے سے منع کیا گیا تھا ۔ ہم نے پھل کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ شجرہ کہانا تو حقیقتِ متعذرہ ہے جو محاورات میں متروک ہوتاہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ” وقلنا یاآدم اسکن انت وزوجک الجنة وکلا منہارغدا حیث شئتما ولاتقربا ہذہ الشجرة فتکونامن الظالمین ( البقرہ 35) یعنی  اور ہم نے کہا اے آدم تم اورتمہاری بیوی دونوں رہو جنت میں ۔اس میں کھاؤ فراغت کے ساتھ جہاں سے چاہو ۔ اوراس درخت کے قریب نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤ گے ”  اس آیت میں جس شجرہ کا ذکر ہے ۔ تورات میں اس سے” شجرہِ خیروشر ” مراد لیاگیاہے ۔ مگر جناب غامدی نے تورات کی اس بات کو دو وجوہات کی بنا پرقبول نہیں کیاہے ۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ بزعمِ خود عربیت کے اداشناس اور شناور ہیں ۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ندرت پسند طبیعت کے مالک بھی ہیں ۔ جناب کی اس شجرہ کے متعلق تحقیق دیکجئے کہ وہ کیا گل افشانی کرتے ہیں۔  لکھتے ہیں کہ” سورِہ طہ کی آیت (120) میں اسے ۔ شجرةالخلد ۔ کہاگیا ہے ۔ اس سے واضح ہے کہ لفظ ۔‌ الشجرة ۔  یہاں مجازی مفہوم میں ہے ۔ شجرة الخلد  کے لفظ سے جو معنی ظاہر ہوتے ہیں ۔اس درخت کا پھل کھانے کے جو اثرات قران کے دوسرے مقامات پر بیان ہوئے ہیں ۔ دونوں اس بات کی طرف  صاف اشارہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہی شجرہِ تناسل ہے ۔ جس کاپھل کھانے کے باعث انسان اس دنیامیں اپنے آپ کو باقی رکھے ہوئے ہیں ( البیان ج1ص 50) ہمارے نزدیک یہ پوری عبارت تحریفات اور فضولیات پر مبنی ہے ۔ (1) پہلی وجہ اس بات کی یہ ہے کہ عربی جاہلی ادب میں فعلِ جماع کے لیے شجرہ کا لفظ قطعا مستعمل نہیں ہے ۔ اور جو آدمی اس بات کا مدعی ہے   اس پر لازم ہے کہ اس دعوی کے لیے جاہلی ادب سے دلائل فراہم کرے ۔  چونکہ یہ لوگ عربی کے اداشناس اپنے آپ  کوکہتے ہیں اس لیے نئی نئی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں ۔ ان صاحب  کے   استادامام   قران کےالفاظ ” الا عابری سبیل  “( المایدہ 43) کے متعلق لکھتے ہیں”  بعض لوگوں نے اسی عدمِ مناسبت سے بچنے کے لیے ۔۔ عابری سبیل ۔۔ سے مراد حالتِ سفر کولیا ہے ۔ لیکن یہ محض تکلف ہے ۔ اول توسفر کےلیے یہ تعبیر بالکل اجنبی ہے ( تدبرِقران ج2ص 302) غالبا جناب کو حدیث ” کن فی الدنیا کانک غریب اوعابر سبیل” یاد نہیں رہی ہے ۔ ورنہ اہلِ لغت نے اس کی تعبیر میں لکھا ہے  ” ای مسافرین حین فقدالماء “( مجمع بحار الانوار ج3ص 515) بہرحال ان کی عربیت پر آگے قریب ہی بات آجائے گی ان شاء اللہ ۔

  • دوسری بات میں پھردوباتیں عرض کریں گے (1) پہلی بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے جو مفہوم اس آیت سے لیا ہے ۔ سیاق وسباق سے اس  کی مخالفت ہوتی نظر آرہی ہے ۔ مثلا جب کوئی آدمی کسی بچے سے کہتا ہے کہ بیٹا دیکھو اتنی چیزیں گھرمیں موجود ہیں ان سب کے ساتھ کھیلو   مگر ۔۔ اس مگر کے بات سب لوگ جانتے ہیں کہ کوئی ایسی شے بتائیں گے جو کھیلنے کی نہیں ہے ۔ مثلا   مگراس بجلی کی مشین کے ساتھ نہ کھیلو کہ یہ بہت خطرناک ہے ۔ اگر وہ ایسی بات کرے  تو سارے لوگ اسے معقولیت پر محمول کریں گے ۔ لیکن اگر وہ اسے کہتا ہے کہ  بیٹا  دیکہواتنی بہت ساری چیزیں گھر میں موجود ہیں ان سے کھیلو مگر روٹی کو ہاتھ نہیں لگانا ۔ توسارے لوگ ان دو باتوں کے درمیان مناسبت تلاش کرنے میں تھک جائیں گے ۔ اسی طرح جب اکل اور جماع کو جمع کیا جائے   تومناسبت ظاہر نہیں ہو رہی ہے ۔ اور اگر کہا جائے کہ ” فکلا منہا رغداحیث شئتما  فلاتقربا ہذہ الشجرة ” یعنی جہاں سے چاہو کھاؤ مگر فلان درخت سے نہ کھاؤ ۔ تودونوں باتوں میں مناسبت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مگر جب ۔۔ ولاتقربا ہذہ الشجرة ۔۔ سے جماع وصحبت مراد لیتے ہیں  تو پھر یہاں مناسبت کا فقدان معلوم ہوتا ہے ۔ پھر اس بات پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ  اگر وہ پھل کسی خارجی درخت کا ہے  جو دونوں سے الگ موجود ہے   تب تو ۔۔ ولاتقرباہذہ الشجرة ۔۔ سے دونوں کویوں خطاب کرکے کہنابالکل درست لگتاہے ۔ مگر جب اس درخت سے مراد جماع وصحبت ہو تو پھر مردوں کو مخاطب کرکے کہا جاتا ہے کہ اپنی بیوی سے صحبت ومجامعت نہ کرو ۔ قران مجید میں اس طرز کی بے شمار مثالیں ہیں ۔ مثلا ۔۔ فالآن باشروہن ( البقرہ 187) اور فرمایا ۔۔  فاتوہن من حیث امرکم اللہ (البقرہ 222) اور فرمایا ہے ۔۔ ولاتباشروہن وانتم عاکفون فی المساجد ( البقرہ 187) اور فرمایا ہے ۔۔ فانکحوہن باذن اہلہن ۔۔ (1لنساء 25)  اور فرمایاہے ۔۔ ولاتعضلوہن لتذہبوا ببعض ماآتیتموہن ( النساء19) اور فرمایاہے کہ ۔۔ وعاشروہن بالمعروف ( ایضا ) اورفرمایا ہے کہ ۔۔ وآتوہن اجورہن فریضة ۔۔ ( النساء 26) ان سب آیتوں میں احباب دیکھ سکتے ہیں کہ جب نکاح اورجماع ۔ اور مہر وغیرہ کی بات آتی ہے   تو وہاں دونوں صیغوں کو الگ الگ کرتے ہیں ۔ عورت کو بالعموم مفعولی حالت میں رکھتے ہیں   یا پھردونوں کوالگ الگ رکھتے ہیں جیسے “السارق والسارقة فاقطعوا ایدیہما ” (المایدہ 38) اوریا جیسے “الزانیة والزانی فاجلدوا کل واحد منہما ماةجلدة” (النور 2)البتہ بعض مقامات قران مجید میں ایسے بھی ہیں جس میں تثنیہ کاصیغہ بھی مستعمل ہواہے مگر وہاں چونکہ دونوں کاحکم یکجابیان کرنا مقصود تھا اس لیے ایسا ہواہے ” والذان یاتیانہا منکم فآذوہما “( النساء 16) مگراس سے معلوم ہوا کہ ” ولاتقرباہذہ الشجرة ”  سے اگر مباشرت مراد ہوتوپھر یہ اصول سے ہٹ کرآئی ہے۔ اس کی وجہ کو متعین کرنا اوراس کو بتانا جناب پرلازم ہوگا ۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ اس الشجرة کو ۔ شجرةالخلد ۔ اللہ تعالی نے نہیں فرمایا ہے   بلکہ شیطان نے کہا ہے ۔ سورہِ طہ آیت( 120) میں ہے کہ ” فوسوس الیہ الشیطان قال یاآدم ہل ادلک علی شجرةالخلد وملک لایبلی ” اس میں بندہ صاف دیکھ سکتا ہے کہ اسے ” شجرةالخلد ” کہنا مسٹر شیطان کا قول ہے ۔ پس جب یہ مسٹرشیطان کو قول ہے تو جناب  غامدی نے اس کو اللہ کے کلام کے مفہوم کو متعین کرنے کےلیے کیسے اورکس بنیاد پر قرینہ بنایا ہے؟ این کا راز توآید ومردان چنین کنند ۔ پھر جب بندے کے سرپرکسی بات کو ثابت کرنے کاسودا سوار ہو جاتا ہے اس سے ایسے ایسے کرشمے ظہور میں آتے ہیں کہ الآمان والحفیظ ۔ اب دیکھو   جماع ومباشرت  کو سب لوگوں جانتے ہیں کہ کوئی کھانے پینےکی چیز تو نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالی نے اس کے لیے ” اکلا ” کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اللہ تعالی اس اوپر والی آیت کے متصل بعد فرماتے ہیں” فاکلا منہا فبدت لہما سوآتہما” ( طہ 121) اس سے صاف اورصراحت کے ساتھ ثابت ہوا کہ یہ کوئی کھانے کا درخت تھا کیونکہ جماع اور مباشرت کو لوگ کھاتے نہیں ہیں ۔ اگر ہماری اس بات میں  کسی جدیدالفکر غامدی شخص کو کچھ شبہ پیدا ہوجائے   تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو اس کام کا صدورانبیاء کرام علیہم السلام سے متصور نہیں ہے ۔ اور دوسرا یہ ہے کہ ” اکل “چاٹنے اور چوسنےکا نام نہیں ہے بلکہ کھانے اورحلق سے گذارنے کا نام ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…